صدارتی دوڑ

وزیراعظم عمران خان نے قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں تبدیلی کا پروگرام شروع کردیا ہے۔ اس کے نتائج ابتدائی سو دنوں میں جیسے بھی ظاہر ہوں گے، ان کے مطابق تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکے گا۔ اس وقت تو حکومتی اتحاد اور حزب اختلاف کی پارٹیوں میں اپنا صدارتی امیدوار کامیاب کرانے کی تگ و دو جاری ہے جس کی وجہ سے بعض معاملات میں تعطل نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف نے سندھ اور کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف دانتوں کے ماہر ڈاکٹر عارف علوی کا نام کئی روز پہلے پیش کردیا تھا اور اب ان کی کامیابی کے لئے سرگرمیاں بھی تیز کردی ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی عارف علوی کے لئے نمبر گیم پورے کرلے گی اور وہ باآسانی ملک کے صدر منتخب ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں ہمیں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہے۔ تمام اتحادی جماعتوں کی ہمیں مکمل حمایت حاصل ہے۔ حزب اختلاف کی جانب سے اب تک صدارت کے لئے کسی ایک نام پر متفق نہ ہونا ہر گز باعث حیرت نہیں، کیونکہ پیپلز پارٹی نے حلیف جماعتوں سے اتفاق رائے حاصل کرنے سے پہلے ہی چوہدری اعتزاز احسن کا نام صدارت کے لئے پیش کردیا تھا۔ اس نام پر مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کے شدید اختلاف کے بعد حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کے سربراہ سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ اجلاس پر اجلاس ہورہے ہیں اور یکے بعد دیگرے نام پیش کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے میاں شہباز شریف کو چوہدری اعتزاز احسن کے نام پر راضی کرنے کا کام مولانا فضل الرحمن کے سپرد کیا ہے، جن کے بارے مشہور ہے کہ ہر دور حکومت میں ان کے دونوں ہاتھوں میں لڈو نظر آتے ہیں۔ ایک جانب پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری سے ان کے نہایت قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ کی سابقہ حکومت کے دور میں بھی ان کی جماعت کے رہنما وزیر و مشیر کے عہدوں پر فائز رہے اور مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ ایک خیال یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن خود بھی صدر بننے کے خواہش مند ہیں۔ حزب اختلاف کی جانب سے کسی ایک نام پر عدم اتفاق کے باعث تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار عارف علوی کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ کی بلوچستان حکومت کو گرانے اور اپنی مرضی کا چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے کے لئے آصف علی زرداری نے جو کردار ادا کیا تھا، اِس وقت اتنی دولت اور صلاحیت شاید وہ استعمال نہ کر سکیں، کیونکہ آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور منی لانڈرنگ کیس میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ زرداری کے دست راست انور مجید اور حسین لوائی کی گرفتاری اور تحقیقات کے دوران دیئے جانے والے بیانات کے تصور سے آصف علی زرداری کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔ عام انتخابات سے قبل ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی میں سے جس جماعت کو بھی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوگی اور اس کی حکومت بن جائے گی تو وہ اپنی سیاسی مہارت، چالاکی اور حسب معمول دولت سے کام لے کر، نیز مخالف جماعت سے سودے بازی کرکے صدر منتخب ہو جائیں گے۔ جس کے بعد انہیں مقدمات اور سزاؤں سے استثنا حاصل ہو جائے گا اور وہ آئندہ پانچ سال بھی سکون سے گزار کر مال کمانے میں مصروف ہو جائیں گے۔ لیکن ملک میں جاری سپریم کورٹ کے زیر نگرانی احتساب کے عمل نے ان کے لئے فرار کے تمام راستے بند کرنے کے علاوہ صدارتی امیدوار بننا بھی ناممکن بنا دیا ہے۔ ایف آئی اے نے دونوں بھائی بہن کے خلاف اتنے ثبوت و شواہد اکٹھے کرلئے ہیں کہ اس مرتبہ ان کا بچ نکلنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے اعتزاز احسن کے نام پر اصرار کی ایک وجہ مبصرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ زرداری انہیں پسند نہیں کرتے۔ ادھر میاں شہباز شریف بھی انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس تناظر میں چوہدری اعتزاز احسن کا صدارتی دوڑ میں ہار جانا یقینی نظر آرہا ہے اور ان کی شکست سے آصف علی زرداری کو قلبی سکون حاصل ہوگا۔ پاکستان میں حکومتی عہدوں کے درمیان تقسیم کی یہ روایت عام ہے کہ صدر، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور وزیر اعظم چاروں صوبوں سے لئے جائیں، فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی خیبر پختواہ سے، وزیر اعظم پنجاب سے اور چیئرمین سینیٹ بلوچستان سے ہے۔ چنانچہ صدر کو سندھ سے ہونا چاہئے۔ تمام عوامل کو مدنظر رکھا جائے تو تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار عارف علوی کی کامیابی کے امکانات زیادہ نظر آتے ہیں، الا یہ کہ کوئی غیبی قوت کسی اور کی جانب اشارہ کر دے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment