کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش

مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوجیوں کی ایک جانب بے گناہ کشمیری باشندوں پر ظلم و ستم کی گرم بازاری جاری ہے تو دوسری طرف انتہا پسند مودی حکومت کی خواہش ہے کہ مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کی اکثریت کم کرنے کے لئے ہندوؤں کو وہاں بڑی تعداد میں بسایا جائے تاکہ اقوام متحدہ کے دباؤ پر کبھی وہاں استصواب کو بھارتی حکومت تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے تو ہندوؤں کی اکثریت اور کانگریسی مسلمان بھارت کے حق میں رائے دے کر مقبوضہ کشمیر کے بھارت سے انضمام کا فیصلہ کر دیں۔ اس طرح مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا ڈراما رچایا جاسکے گا۔ بھارتی آئین کی دفعہ پینتیس اے کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ وہاں کشمیر سے باہر کا کوئی شخص مستقل طور پر آباد ہوسکتا ہے نہ جائیداد وغیرہ خرید سکتا ہے۔ دلچسپ اور اطمینان بخش امر یہ ہے کہ بھارت کی کئی اعتدال پسند ہندو تنظیمیں اور ان کے رہنما بھی بھارتی آئین کی مذکورہ دفعہ ختم کرنے کے خلاف ہیں۔ اسے بھارت کی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرکے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جبکہ کشمیری عوام آرٹیکل پینتیس اے کو کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت قرار دے کر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ’’کشمیر میں امن اور جمہوریت کا قیام‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار ہوا، جس کا اہتمام آل انڈیا سروودیا منڈل نے کیا تھا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اخبار ’’چوتھی دنیا‘‘ کے چیف ایڈیٹر سنتوش بھارتیہ نے کہا کہ دفعہ 35A کے ساتھ کسی بھی چھیڑ چھاڑ کے سنگین نتائج نکلیں گے۔ آل انڈیا سروودیا منڈل کے چیئرمین مہادیو ودر وہی نے بتایا کہ انہوں نے سیمینار کا انعقاد کشمیریوں کی تکالیف اور مشکلات کو اجاگر کرنے اور ان کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھولنے کے لئے کیا ہے۔ سیمینار میں منظور کی جانے والی قرارداد میں بھارتی فوج پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیر کے معاملات میں مداخلت اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بند کرے۔ ادھر کشمیری باشندے دفعہ 35A کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے، ہڑتال، ریلیاں اور دھرنے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سری نگر میں ٹریڈ یونین لیڈر اور پنشنرز ایسوسی ایشن کے صدر سمپت پرکاش نے کئی ٹریڈ یونین رہنماؤں کے ہمراہ ایک روزہ بھوک ہڑتال بھی کی، جبکہ سول سوسائٹی کی جانب سے بھی بھرپور احتجاج کیا گیا اور جموں سے لداخ تک عوامی آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پر سمپت پرکاش نے حیرت کا اظہار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 35A کے خلاف درخواست کو سماعت کے لئے کیوں منظور کیا گیا، جبکہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی فل بنچ کی جانب سے اس کو مسترد کیا جا چکا ہے۔ پرکاش کے مطابق یہ کوئی نیا قانون نہیں ہے، بلکہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی پرانی خود ریاست جموں و کشمیر ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ دفعہ 35A کے خلاف پٹیشن کو مسترد کیا جائے۔ دیگر مقررین نے کہا کہ بھارتی آئین کی مذکورہ دفعہ ہماری شناخت کی علامت ہے، جسے فرقہ پرست عناصر ہٹانے کے درپے ہیں، لیکن ریاست کے لوگ اس کا دفاع کرنے کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔
واضح رہے کہ جموں کے رہائشیوں رادھیکا گل، ایکلاویہ اور اجے کمار نے ہندو انتہا پسندوں کی ایما پر بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35A کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔ یہ دفعہ ایک مدت سے بھارتی ہندوؤں کو کھٹک رہی ہے۔ وہ بھارتی آئین کے ایک اور آرٹیکل تین سو ستر کی بھی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں، جو جموں و کشمیر کی خصوصی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے، جبکہ آرٹیکل 35A کشمیریوں کے کئی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت تمام کشمیری بھارت کے شہری ہیں، لیکن ریاست جموں و کشمیر کے شہریوں کا تعین صرف ریاستی حکومت اور انتظامیہ کرسکتی ہے۔ اس بنیاد پر کوئی غیر کشمیری مقبوضہ وادی میں کوئی جائیداد خرید سکتا ہے نہ کوئی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتا ہے۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں، جن کے لئے نئی بستیوں کی آڑ میں غیر کشمیریوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ہندو پنڈتوں کو یہاں لاکر بسانے کے پروگرام بھی شروع کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ہندوؤں کو کشمیر میں آباد کرنے کے لئے رہائشی سرٹیفکیٹ جاری کئے جا رہے ہیں۔ کشمیر کے تمام مستقل باشندے بلاامتیاز مذہب و سیاسی نظریات، بھارتی حکومت کے ان اقدامات کو بھارت کے آئین کی خلاف ورزی اور کشمیریوں کے ساتھ دشمنی قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب ہندو انتہا پسند تنظیمیں اور رہنما بھارتی آئین کی مذکورہ دونوں دفعات کو اپنے عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ساری دنیا کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتی ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ پاکستان یا بھارت کو نہیں، خود کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے۔ وادی جموں و کشمیر میں جب بھی استصواب رائے کرایا گیا، کشمیر میں موجود مسلمانوں کی اکثریت بھارت سے آزادی اور پاکستان سے الحاق کے حق میں فیصلہ دے گی۔ اسی خوف سے بھارت نے گزشتہ ستر برسوں میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو منظور کیا، نہ کشمیریوں کا حق آزادی تسلیم کیا۔ اب جبکہ مقبوضہ کشمیر میں حریت کی تحریک روز بروز زور پکڑتی جا رہی ہے اور وہاں کے باشندے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اور قومی ترانہ بلند کر کے آزادی کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں تو بھارت کی جنونی مودی سرکار کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے وہاں ہندوؤں کو بسانے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کو منسوخ اور وادی جموں و کشمیر کی خصوصی اہمیت کو ختم کرنے کی کوششیں اسی سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment