کشمکش

مسعود ابدالی
ہمارا دینی اور تربیتی لٹریچر فتنہ زبان کی تباہ کاریوں اور حفاظتِ زبان کی نصیحتوں سے بھرا پڑا ہے۔ یعنی عجیب چیز یہ حسنِ کلام ہوتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی بد زبانی، درشت مزاجی اور سخت رویئے سے جہاں ملک کے اندر مختلف طبقات کے درمیان نفرت و عداوت فروغ پا رہی ہے، وہیں امریکہ کے جگری دوست اور اتحادیوں کی ناراضگی اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ یورپی ممالک روس کے ساتھ مل کر نئی صف بندیوں پر غور کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں پیرس میں فرانسیسی سفیروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر میکرون نے کہا کہ یورپ اپنے تحفظ کیلئے صرف امریکہ پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ وہ یورپی یونین کے سامنے جلد ہی مشترکہ دفاع کی تجویز پیش کریں گے۔ ایک ایسا دفاع جو روس سمیت سارے یورپ کے تحفظ کی ضمانت ہو۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے مشترکہ دفاع میں روس کی شرکت یوکرین تنازعے کے منصفانہ حل سے مشروط ہے۔ صدر میکرن نے کہا کہ یورپ ایک تجارتی و اقتصادی قوت ہے، جس کے مفادات کو امریکہ کی جانب سے عائد کردی پابندیوں سے سخت خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی تنہا پرواز کی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یورپ کا اہم اتحادی ہماری مشترکہ تاریخ و اقدار سے منہ موڑ رہا ہے اور ہم دفاع کیلئے اس پر اعتماد نہیں کر سکتے۔
دوسری طرف جرمنی کے وزیرخارجہ ہائیکو ماز نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ عالمی تجارتی ادارے WTO سے امریکہ کی دستبرداری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو پورا کرنے کیلئے آگے آئیں۔ WTO قوموں کی برادری میں آزاد و منصفانہ تجارت کی نگرانی کرنے والا ادارہ ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے 164 ممالک اس کے رکن ہیں۔ امریکہ سرکاری طور پر اب بھی WTO سے وابستہ ہے، لیکن صدر ٹرمپ نے WTO کو امریکہ دشمن کلب قراردیتے ہوئے اس کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور بلقان کے ممالک سے تعلقات
بڑھانے پر زور دیا۔
کارڈینل بمقابلہ پوپ فرانسس:
کیتھولک مذہب کی 2000 سالہ تاریخ میں پہلی بار پوپ سے استعفیٰ طلب کیا جارہا ہے، جو کیتھولک چرچ میں کم عمر بچوں اور بچیوں سے بدسلوکی اور ان پر مجرمانہ حملوں کا شاخسانہ ہے۔کافی عرصے سے واشنگٹن میں تعینات سابق کارڈینل تھیوڈور میک کیرک Theodore Edgar McCarrick کے خلاف چرچ، مسیحی خانقاہ اور مدارس آنے والے کم عمر بچوں سے اخلاقی بدسلوکی کے الزامات کا شور تھا۔ پولیس تحقیقات کے دوران 300 افراد نے کارڈینل صاحب کی جنسی بے راہ وری کی تصدیق کرتے ہوئے حلفیہ بیانات میں کہا کہ ان لوگوں سے بچپن میں میک کیرک نے بد سلوکی کی ہے۔ ان الزامات پر کارڈینل صاحب نے استعفیٰ دے دیا، جسے 28 جولائی کو پوپ فرانسس نے قبول کرلیا۔ اس خبر کے سامنے آنے پر پوپ نے شدید شرمندگی کا اظہار کیا۔ اپنے حالیہ دورئہ آئر لینڈ میں پوپ نے کھل کر اعتراف کیا کہ بے راہ روی اب مذہبی و روحانی پیشوائوں میں بھی سرایت کر چکی ہے۔
گزشتہ روز ایک 11 صفحاتی بیان میں لاٹ پادری (Archbishop) کارلو ماریا ویگانو Carlo Maria Vigano نے کہا کہ پوپ فرانسس اپنے منصب پر برقرار رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ جو کچھ امریکہ کے گرجا اور خانقاہ میں ہوا، وہ سب پوپ کی چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ ویگانو نے کہا کہ پوپ ہم جنس پرستی، اسقاط حمل اور دوسرے اخلاقی امور پر بے حد لبرل ہیں اور ان کی اسی روشن خیالی اور برداشت نے یہ دن دکھائے ہیں۔ ویگانو نے مزید کہا کہ جب پوپ صاحب خود ہی مردوں کی مردوں اور عورتوں کی عورتوں سے شادی کرانے والے پادریوں سے نرمی برتیں گے تو گرجا گھروں میں وہی کچھ ہوگا جو کارڈینل میک کیرک نے کیا ہے اور کارڈینل کے اس طرز عمل کو دیکھ کر عام پادریوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ لاٹ پادری نے اپنے بیان میں کہا کہ کلیسائے روم کو فوری طور پر ایک اصلاحی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے اور اس مشکل کام کیلئے پوپ فرانسس انتہائی ناموزوں ہیں، جو بداخلاقیوں کی مذمت کے بجائے انہیں برداشت کرنے کی تلقین فرماتے پھر رہے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اپنے نائب کے اس دوٹوک اور غیر مبہم مطالبے پر پاپائے روم کیا کہتے ہیں۔ کلیسائے روم کی روایت کے مطابق اب تک کسی پوپ سے استعفیٰ طلب نہیں کیا گیا اور خیال یہی ہے کہ مسٹر ویگانو کا یہ بیان پوپ کے خلاف بغاوت کی منظم تحریک نہیں بن پائے گا، لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیتھولک چرچ میں لبرل اور قدامت پسندوں کے درمیان کشکمش خاصی شدید ہو گئی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment