آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی

آنحضرتؐ کی عجیب پیش گوئی:
حضرت خریم بن اوسؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپؐ تبوک سے واپس ہو رہے تھے۔ میں نے آپؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میرے لیے حیرۃ البیضاء (ایک جگہ کا نام ہے) ظاہر کیا گیا۔ یہ حیرۃ البیضاء ہے اور یہ شیما بنت نفیلہ ازدیہ ہے، جو اپنے سفید خچر پر سوار ہے اور اپنی کالی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ (یعنی گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں)
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ہم حیرہ میں داخل ہوں اور ہم اس کو اسی طرح پالیں جیسا کہ آپ نے بیان کیا ہے تو کیا وہ شیما میرے لیے ہو جائے گی؟ آپؐ نے فرمایا: وہ تیرے لیے ہے۔
اس کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانے میں فتنۂ ارتداد پھیلا۔ (یہ اسلامی تاریخ کا بہت ہی بڑا فتنہ تھا، جس کو حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنی قوت ایمانی اور فراست سے ختم کیا) میرے قبیلے سے کوئی مرتد نہیں ہوا تھا۔ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ تھا۔ میں ان کی ہمراہی میں حیرہ میں داخل ہوا تو سب سے پہلا شخص جو حیرہ میں ہم سے ملا وہ شیما بنت تفیلہ تھی اور بالکل اسی طرح جیسا رسول اللہؐ نے فرمایا تھا، وہ اپنے سفید خچر پر سوار تھی اور کالی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ میں نے اس پر قبضہ کر لیا اور میں نے کہا یہ وہی ہے، جس کو مجھ سے حضور اکرمؐ نے بیان کیا تھا کہ یہ میرے لیے ہے۔
حضرت خالدؓ نے مجھ سے گواہ طلب کیا اور میں نے گواہ پیش کر دیئے۔ میرے گواہ حضرت محمد بن مسلمہؓ انصاری اور حضرت محمد بن بشیرؓ انصاری تھے۔ چنانچہ اسے حضرت خالد بن ولیدؓ نے میرے سپرد کر دیا۔ شیما کا بھائی حضرت خالدؓ کے پاس صلح کے ارادے سے آیا۔ اس کا نام عبد المسیح تھا۔ گفتگو کے بعد وہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا شیما کو میرے ہاتھ بیچ دے۔ میں نے کہا خدا کی قسم! ایک ہزار سے کم نہ لوں گا۔ اس نے فوراً ایک ہزار گن دیئے۔ میں نے شیما اس کے سپرد کر دی۔ میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تو ایک لاکھ کہتا تو جب بھی وہ تجھے دیتا۔ میں نے کہا: مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ کوئی عدد ایک ہزار سے اوپر بھی ہے۔ (حیات الصحابہ۔ ج3۔ ص 80 از ابونعیم فی الدلائل)
اس واقعے میں ایک بات یہ عجیب ہے کہ آپؐ نے شیما کے بارے میں جو پیش گوئی فرمائی، وہ اس کے نام، اس کی سواری، سواری اس کے رنگ اور اس کی کالی چادر کے تعین کے ساتھ فرمائی۔ پھر یہ پیش گوئی کافی عرصے بعد یعنی فتنۂ ارتداد کے زمانے کے لیے فرمائی۔ اس طرح کسی شخص کے نام اور لباس کے تعین کے ساتھ روایات شاذو نادر ہیں۔
راقم کو یاد آیا کہ آپؐ نے ایک مہم پر حضرت خالد بن ولیدؓ کو ہی بھیجا تھا اور فرمایا تھا کہ اس قبیلے کا سردار تمہیں گھوڑے پر سوار شکار کرتا ہوا ملے گا۔
یوں تو آنحضرتؐ نے مستقبل کے لیے بہت بڑی تعداد میں پیش گوئیاں فرمائی ہیں۔ علامات قیامت کی ساری پیش گوئیاں مستقبل ہی کے لیے ہیں۔ دوسری بات عربوں کی سادگی کی علامت ہے کہ ان صحابیؓ کو ایک ہزار سے زیادہ گنتی کا کوئی عدد معلوم ہی نہیں تھا۔ ایک لاکھ کا جو ذکر اس روایت میں آیا ہے، وہ سو ہزار کا عربی لفظ ہو گا۔ واللہ اعلم۔
حضرت علیؓ اور ایک نجومی
حضرت علیؓ نے جب اہل نہروان سے جہاد کا ارادہ فرمایا تو ایک نجومی جس کا نام مسافر بن عوف بن احمر تھا۔ اس نے حضرت علیؓ سے کہا: اے امیر المومنین! اس وقت آپ سفر نہ کیجئے، بلکہ جب اس دن کے طلوع سے تین گھنٹے گزر جائیں تب سفر کیجئے گا۔
حضرت علیؓ نے پوچھا: یہ کس لیے؟ مسافر نے کہا: اگر آپ اس وقت چلیں گے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو شدید بلا اور نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر آپ میرے بتائے ہوئے وقت پر چلیں گے تو آپ کو کامیابی اور غلبہ حاصل ہو گا اور آپ مال غنیمت حاصل کریں گے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ نہ آنحضرتؐ کے لیے کوئی نجومی تھا اور نہ ہمارے لیے ہے۔ کیا تو جانتا ہے کہ میری اس گھوڑی کے پیٹ میں کیا ہے؟ اس نے کہا اگر میں حساب لگائوں تو جان لوں گا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: جس نے تیرے اس قول کی تصدیق کی، اس نے قرآن کی تکذیب کی اور پھر آپؓ نے سورۃ الانبیاء کی آخری آیات کی تلاوت فرمائی۔
ترجمہ: ’’بے شک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ رحم میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ سب باتوں کا جاننے والا، باخبر ہے۔‘‘ (سورۃ الانبیائ)
حضرت محمدؐ ان چیزوں کا دعویٰ نہیں کرتے تھے۔ جس کے جاننے کا تو نے دعویٰ کیا ہے۔ کیا اس ساعت کی طرف راستہ دکھانے کا دعویٰ کرتا ہے، جس میں سفر کرنے والے کو مصیبت لگتی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! آپؓ نے فرمایا: جو تیری اس بات پر ایمان لایا، وہ ہرگز اللہ پر ایمان نہیں لایا۔ وہ اس شخص جیسا ہے، جس نے غیر اللہ کو شریک بنا لیا ہے۔ اے مسافر بن عوف! ہم تیری تکذیب کرتے ہیں اور اسی وقت میں سفر کریں گے، جس وقت میں سفر کرنے سے تو ہم کو منع کر رہا ہے۔
اس کے بعد آپؓ لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے لوگو! اپنے آپ کو اس نجوم سیکھنے سے بچائو۔ مگر صرف اتنا سیکھو کہ سمندر یا خشکی میں سمت اور راستہ معلوم کرلو۔
نجومی کافر کی طرح ہے اور کافر جہنم میں ہے۔ اے مسافر! خدا کی قسم، اگر اس کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ تو
نجوم کی طرف دیکھ رہا ہے اور اس پر عمل کر رہا ہے تو میں تجھے ہمیشہ جیل میں رکھوں گا۔ جب تک کہ میں باقی رہوں یا تو باقی رہے اور تجھے ہر عطیے سے محروم کر دوں گا، جب تک کہ میرا بس چلے گا۔
پھر آپؓ نے اپنے لشکر کے ساتھ اسی وقت میں کوچ کیا، جس سے اس نے منع کیا تھا اور اہل نہروان پر حملہ کیا اور ان کو قتل کر کے ان پر غلبہ حاصل کیا۔ اس کے بعد فرمایا: اگر ہم اس ساعت میں چلتے جس کے لیے نجومی نے کہا تھا اور ہمیں کامیابی اور غلبہ ہوتا تو کہنے والا یہی کہتا کہ ہماری کامیابی اس لیے ہوئی ہے کہ ہم اس ساعت میں چلے، جس میں چلنے کے لیے نجومی نے کہا تھا۔ اللہ پاک نے ہمارے لیے کسریٰ اور قیصر کے شہر اور دوسرے بہت سے شہر فتح کئے۔ اے لوگو! اللہ پر توکل کرو اور اسی پر بھروسہ کرو، وہ اپنے ماسویٰ سے تمہاری کفایت کرے گا۔‘‘ (حوالہ بالا: ج 3، ص 765)
ایک بوڑھے کا سوال اور اسلام
حضرت مکحولؓ فرماتے ہیں کہ ایک بہت بوڑھا شخص جس کی دونوں بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آپڑی تھیں، آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک ایسا شخص جس نے غداری کی اور فسق و فجور میں مبتلا رہا اور اپنے نفس کی کوئی حاجت (اور خوشی) نہیں چھوڑی۔ اپنی حاجتوں میں عمر گزاری۔ اگر اس کی خطائیں روئے زمین کے باشندوں پر تقسیم کی جائیں تو ان سب کو تباہ کر دیں گی۔ تو کیا ایسے شخص کے لیے بھی توبہ ہے؟
رسول اقدسؐ نے فرمایا: کیا تو اسلام لے آیا ہے؟
اس بوڑھے شخص نے کہا: بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور بے شک حضرت محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
یہ سن کر رسول اکرمؐ نے فرمایا: بے شک اللہ پاک تیری غداریاں اور تیرا فسق و فجور معاف کرنے والا ہے اور وہ تیری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، جب تک کہ تو اس کلمے پر (جما) رہے۔
یہ سن کر اس بوڑھے نے کہا: یا رسول اللہ! میری غداریاں اور فسق و فجور؟
آپؐ نے فرمایا: ہاں! اور تیری غداریاں اور تیرے فسق و فجور۔
اس کے بعد وہ بوڑھا پیٹھ پھیر کر اللہ اکبر اور کلمہ طیبہ پڑھتا ہوا چل دیا۔
(حیات الصحابہ۔ ج۔3۔ ص۔90 از ابن ابی حاتم)
سبحان اللہ! عجیب خوش قسمت شخص تھا۔ بہت زیادہ بوڑھا تھا کہ بھویں آنکھوں پر آپڑی تھیں۔ اچانک اس کے دل نے پلٹا کھایا اور ہدایت کے مخزن و منبعؐ کے دروازے پر آکھڑا ہوا اور اپنے سارے گناہوں کا اقرار کر لیا۔ کسی لاگ لپیٹ سے کام نہیں کیا اور اسلام قبول کر کے دوزخ سے نکل کر جنت کی طرف چل دیا۔
آپؐ کی خدمت میں آنے سے پہلے وہ خود اپنے گناہوں کی وجہ سے اپنی ہی نظروں سے گرا ہوا شخص تھا۔ چند منٹوں میں اس نے صحابی ہونے کا عظیم شرف حاصل کر لیا۔ اس شخص کے اندر ضرور کوئی بات ایسی پوشیدہ ہو گی جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئی اور اسے نواز دیا۔ (واللہ اعلم)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment