ایران نقشوں اور اطلس کی تیاری میں بھی آگے ہے

میں رضا صاحب کا شکریہ ادا کرکے نسکو ہیڈ کوارٹر سے نکلا اور سیدھا ’دانش کیا‘ اسٹریٹ پر واقع نسکو کے پروڈکشن ڈپارٹمنٹ میں جا پہنچا۔ یہاں میری ملاقات نسکو کے شعبہ پروڈکشن کے مندرجہ ذیل دو افسران اور ایران کی نیشنل شپنگ کارپوریشن کے ایک افسر سے ہوئی۔
-1 مسٹر پرہاک خاجہ پور، مائننگ انجینئر
-2 مسٹر غلام رضا ہاشمی، جیولوجسٹ
-3 مسٹر نوید کوروژن انجینئر، نیشنل شپنگ کارپوریشن آف ایران
خاجہ پور صاحب روانی سے انگریزی بول سکتے تھے، مگر ہاشمی صاحب صرف فارسی میں ہی بات کر سکتے تھے۔ نوید صاحب اس زمانے میں اصفہان میں تعینات تھے اور سرکاری دورے پر تہران آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے ان کا قیام اسی مہمان پذیر میں تھا، جہاں میرا قیام تھا۔ وہ بھی روانی سے انگریزی بول سکتے تھے۔ ان صاحبان کو جیسے ہی یہ معلوم ہوا کہ میں ایک پاکستانی جیولوجسٹ ہوں اور پاکستان کے نوکنڈی اسٹیل مل پروجیکٹ کے لیے ایرانی کوکنگ کوئلے اور ایرانی کوک کی سپلائی کی یقین دہانی کے لیے آیا ہوں تو انہوں نے اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ دراصل مجھے نسکو کے اس شعبے میں آکر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں اپنے قبیلے کے لوگوں ہی میں آگیا ہوں اور ہم ایک دوسرے کو عرصہ دراز سے جانتے ہیں۔ سب لوگ پاکستان کے لیے نیک خواہشات رکھتے تھے اور پاکستان معدنی ذخائر کے بارے میں، کان کنی کے منصوبوں کے بارے میں اور معدنیات پر منحصر صنعتی منصوبوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے میرے اس خط کی نقل جو میں نے اسلام آباد سے نسکو کے چیئرمین کو لکھا تھا سرکاری طور پر وصول کر لی۔ مجھے بتایا گیا کہ کیونکہ شعبہ پیداوار کے حاکم اعلیٰ جناب پالیسدار صاحب کے دفتر آنے پر انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کر دیا جائے گا اور جو بھی نتیجہ نکلا، اس سے مجھے مطلع کر دیا جائے گا بشرطیکہ پالیسدار صاحب نے اس کی اجازت دی۔
باقر زادہ صاحب نے اصفہان میں مجھ سے کرمان کے کوکنگ کوئلے نیز اس سے بنائے گئے کوک کی کیمیائی تجزیہ رپورٹیں اور فزیکل ٹیسٹ رپورٹس مجھے تہران بھیجنے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا تھا۔ دراصل ایران میں تمام سرکاری و نجی تکنیکی و غیر تکنیکی کام فارسی زبان میں ہوتے ہیں۔ اچھے بڑے دفاتر تک میں کوئی انگلش جاننے والے نہیں ملتا۔ اس لیے اندرون ملک یا بیرون ملک سے جو خطوط انگریزی میں آتے ہیں، عموماً ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور ان کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ میرے معاملے میں بھی یہی مسئلہ تھا کہ میں نے کوئلے اور کوک کے بارے میں تمام ڈیٹا انگریزی ٹرمینالوجی میں مانگا تھا۔
نوید صاحب نے مجھے اسی روز شام کو وزارت خارجہ کے آڈیٹوریم میں جناب خارزی وزیر خارجہ ایران کا ایک لیکچر سننے کی دعوت دی، مگر میں نے شکریے کے ساتھ اس میں شمولیت سے معذرت کر لی کہ میں اپنا سارا وقت اور ساری قوتیں اپنے کام پر مرکوز رکھنا چاہتا تھا۔
نسکو کے شعبہ پیداوار و خام مال کے اس وزٹ کے بعد میں خیابان ولی عصر پر آیا اور وہاں سے میدان انقلاب اور خیابان آزادی سے سفر کرتا ہوا ایران کے عوام کی شہنشاہیت کے خلاف جدوجہد آزادی کی سب سے شاندار یادگار ’میدان آزادی‘ پہنچ گیا۔ تہران میں اس خوب صورت اور پرشکوہ عمارت کی حیثیت تقریباً وہی ہے جو کراچی میں مزار قائد اعظم کی ہے۔ مگر صرف بحیثیت عمارت یہ ایک جدید اور تیکھے ڈیزائن والی اور زیادہ پرشکوہ عمارت ہے۔ میں اس شاندار عمارت کے حسن و جاہت میں گرفتار اس کے اردگرد گھوما، مختلف زاویوں سے اس کی تصاویر اتاریں، کچھ دیر اس کے زیرسایہ بیٹھا اور پھر اپنی اگلی منزل یعنی خیابان انقلاب اسلامی پر واقع ادارہ گیتاشناسی (موسسہ جغرافیائی وکارتو گرافی) پہنچا، جہاں سے مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ ایران کے کس کس قسم کے اور کس کس اسکیل کے نقشے دستیاب ہیں اور کون کون سے نقشے میں خرید سکتا ہوں۔
ادارہ گیتا شناسی دراصل پاکستان کے سروے آف پاکستان کا ہم پلہ ادارہ ہے۔ ایران کے ہر قسم کے جغرافیائی نقشے تیار کرنا اور فروخت کرنا اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔ اس ادارے کے مرکز فروختگی نقشہ جات میں پہنچ کر میں نے متعلقہ عہدیدار سے سلام کے تبادلے کے بعد عرض کیا کہ مجھے ایران کا کوئی اچھا اور تفصیلی نقشہ چاہئے۔ وہ صاحب بولے کہ جناب ہم نے تو ایران کے مختلف اقسام (طبعی تقسیمات کشوری، موسمیاتی، دریائی، پہاڑی، جھیلی، سیاحتی وغیرہ وغیرہ) کے اور مختلف اسکیلوں کے کئی سو مختلف نقشے اور اطلسیں شائع کی ہیں۔ آپ کو کون سا اور کس مقیاس کا نقشہ چاہئے؟ یہ سن کر پہلے تو میں یہ سوچ کر چکرا گیا کہ یا الٰہی ہمارے یہ ایرانی بھائی ہم پاکستانیوں سے اس فیلڈ میں بھی اتنے آگے ہیں۔ پھر عرض کی کہ جناب مجھے ایران کا ایک طبیعی نقشہ اور ایک تقسیمات کشوری نقشہ اور کرمان، شیراز، اصفہان اور تہران کے سیاحتی نقشے عنایت کر دیجئے۔ اور مجھے مطلوبہ تمام نقشے جلد ہی مل گئے۔
میرا خیال ہے کہ سروے آف پاکستان والے جو ملک عزیز پاکستان میں وزارت دفاع کے تحت آتے ہیں، ایران کی گیتاشناسی والوں سے آئندہ بہت برسوں تک بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ڈیٹا پریزنٹیشن، ڈیزائننگ اور پرنٹنگ ہر سہ شعبوں میں سروے آف پاکستان اور گیتا شناسی کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ایران کی سرکاری زبان اور ذریعہ تعلیم فارسی اور صرف فارسی ہے۔ اس لیے تمام نقشے اور ایٹلسیں فارسی ہی میں چھپتے ہیں۔ البتہ باہر کی دنیا اور سیاحوں کے لیے کچھ نقشے انگریزی میں بھی شائع ہوتے ہیں۔
گیتاشناسی کے مرکز سے کہ جو خیابان انقلاب اسلامی پر واقع تھا، میں خیابان ولی عصر پر آیا اور پھر اسی خیابان پر بجانب جنوب اپنے مہمان پذیر کی جانب رواں ہو گیا۔
قارئین کرام یہ عین وقت تھا تمام ایرانی سرکاری دفاتر و کمپنیوں میں چھٹی کا۔ دفاتر میں چھٹی کا ایسا منظر جیسا کہ میں نے اس روز دیکھا کبھی نہ دیکھا تھا نہ اس کے بعد کبھی دیکھا ہے۔ بس برقعہ پوش ملازمت پیشہ خواتین کا ایک سیلاب تھا جس نے ہر جگہ کو ڈھانپ لیا تھا۔ ان برقعہ پوش کارکن خواتین کے سیلاب کو دیکھ کر یہ لگتا تھا کہ جیسے ایران میں تمام سرکاری و نیم سرکاری اور نجی دفاتر میں صرف خواتین ہی کام کرتی ہیں۔ ان خواتین نے جیسا کہ تمام ایرانی خواتین کا طریقہ ہے، اپنے چہرے نہیں چھپائے ہوئے تھے بلکہ ہر ایک نے اسکارف باندھا ہوا تھا اور پیروں میں نسبتاً اونچی ایڑھی کے مردانہ بوٹ پہنے ہوئے تھے اور وہ کھٹ کھٹ کرتی کچھ اس انداز سے مارچ کر رہی تھیں جیسے وہ ورکنگ خواتین نہ تھیں بلکہ امیر تیمور کی باقی ماندہ فوج کا حصہ تھیں جو کہیں دھاوا بولنے جارہا تھا۔ مجھے یہ منظر بڑا دلکش لگا اور مبہوت ہو کر کافی دیر اس سیل رواں میں گم رہا۔ جب اس ’سیلاب‘ کا بڑا حصہ گزر گیا تو میں نے اپنے مہمان پذیر یا تہران ریلوے اسٹیشن کی جانب اپنا سفر جاری رکھا۔ ریلوے اسٹیشن کو فارسی میں ’’ایستگاہ راہ آہن‘‘ کہتے ہیں۔ لفظی ترجمہ تو اس لمبے نام کا یہی ہو گا کہ ’لوہے کے راستے کی کھڑے ہونے یا قیام کرنے کی جگہ، مگر اصطلاحاً اس کا ترجمہ ہوگا کہ ریل گاڑی کے کھڑے ہونے یا قیام کرنے کی جگہ۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment