پندرہ برس پہلے کی بات ہے، جب کرسٹو فر زیلر نامی ڈینش کارٹونسٹ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چند کارٹون بنا کر ڈنمارک کے اخبار ’’جیلینڈس پوسٹن‘‘ کو بھیجے تھے۔ اخبار کے ایڈیٹر کیسر نے یہ کہہ کر وہ کارٹون مسترد کردیئے کہ ’’یہ کارٹون قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بننے کے بجائے ان کی دل آزاری کا باعث بنیں گے، اس لیے میں یہ کارٹون شائع نہیں کر سکتا۔‘‘ یہ جواب موصول ہونے کے بعد کارٹونسٹ کرسٹوفر نے اپنے اخبار کے ایڈیٹر کو ای میل بھیج کر کہا کہ ’’میں نے ان کارٹونس میں معصومانہ مذاق کیا ہے۔‘‘ مگر کیسر نے کرسٹوفر کو سختی سے روک دیا۔ یہ وہی اخبار تھا، جس نے حضرت محمدؐ کے توہین آمیز کارٹون شائع کیے تھے۔ جب اس اخبار کے ایڈیٹر سے پوچھا گیا ’’تمہارے اخبار نے عیسائیوں کے پیغمبر حضرت عیسیٰؑ کے کارٹون شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا اور تم نے مسلمانوں کے پیغمبرؐ کے کارٹون شائع کیے ہیں۔ کیوں؟‘‘ تب اس کے پاس کوئی بھی منطقی جواب نہیں تھا۔ ایسے سوالات کا کوئی منطقی جواب ہو بھی نہیں سکتا۔ کیوں کہ یہ آزادیٔ اظہار کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ دل آزاری کا معاملہ ہے۔ دنیا کا کوئی بھی قانون دل آزاری کی اجازت نہیں دے سکتا۔
کیا ڈنمارک کے اخبار ’’جیلینڈس پوسٹن‘‘ کے ایڈیٹر کو معلوم نہیں تھا کہ آزادی اور اخلاق کے درمیان ایک توازن ہوتا ہے۔ اگر وہ توازن بگڑ جائے تو آزادی آوارگی میں اور اخلاق بے حیائی میں بدل جاتا ہے۔ ڈنمارک کے اخباری ایڈیٹر کیسر نے جو کچھ کیا، وہ نہ صرف صحافتی پروفیشنلزم کے خلاف اٹھایا ہوا قدم تھا، بلکہ اس کا وہ عمل میڈیا کے آوارہ اور بد اخلاق کردار کا عکاس بھی تھا۔ کیا کیسر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ڈنمارک میں مسلمان بھی بستے ہیں۔ اگر ایک عیسائی اپنے پیغمبر کا کارٹون دیکھ کر غصے یا افسوس کی کیفیت محسوس کر سکتا ہے تو مسلمان اپنے پیغمبرؐ کی توہین کس طرح برداشت کر سکتے ہیں؟ اور یہ بات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں۔ عیسائی دنیا میں بہت سارے افراد ایسے ہیں، جو عیسائی ہونے کے باوجود حضرت محمدؐ کی دل کی گہرائیوں سے عزت کرتے ہیں۔ دنیا کی مشہور کتاب ’’دی 100‘‘ کا مصنف مائیکل ایچ ہارٹ بھی تو ایک عیسائی تھا۔ اس نے عالمی تاریخ کے ان ایک سو انسانوں کا انتخاب کیا تھا، جنہوں نے اپنے علم اور عمل سے دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا۔ اس نے ایک سو شخصیات کی لسٹ میں حضرت محمدؐ کا نام سر فہرست رکھا۔ اس کے اس فیصلے کی وجہ سے اس پر شدید تنقید بھی ہوئی اور اس نے اپنے اس فیصلے کے حوالے سے کتاب کے اقتباس میں اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ اس نے پوری دنیا میں سب سے بڑا رتبہ حضرت محمدؐ کو کیوں دیا؟
مائیکل ایچ ہارٹ کا یہ فیصلہ سیاسی نہیں تھا۔ اس نے دنیا کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے ایسا نہیں کیا۔ اس نے اپنی کتاب میں اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰؑ کا نام دوسرے نمبر پر نہیں رکھا۔ دوسرے نمبر پر اس نے مشہور سائنسدان نیوٹن کا نام لکھا۔ مائیکل ہارٹ نے حضرت عیسیٰؑ کا نام تیسرے نمبر پر رکھا، جب کہ حضرت عیسیٰؑ کے بعد اس نے گوتم بدھ اور کنفیوشس کے نام لکھے ہیں۔ اس حوالے سے ڈنمارک سے لے کر نیدر لینڈ تک جو اخبارات میں حضرت محمدؐ کے حوالے سے توہین آمیز خاکے شائع کر رہے ہیں، انہیں اس بات کا احساس بھی ہونا چاہئے کہ وہ یورپی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی دل آزاری کر رہے ہیں ۔ یہ کام وہ لوگ کر رہے ہیں، جو اپنے اخبارات میں ان کالموں کو بڑے فخر سے شائع کرتے ہیں، جو کالم اقلیتوں کے حقوق پر لکھے جاتے ہیں۔ مسلمان یورپ میں اقلیت ہیں اور ان کی دل آزاری ان تمام آئینی اور اخلاقی قوانین کی پامالی ہے، جو اقلیتوں کے حوالے سے پیش کیے گئے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسمانوں کی دل آزاری کرنے والے اخبارات کے مذکورہ توہین آمیز خاکے شائع کرنے سے ان اخبارات کی اشاعت میں اضافہ آجاتا ہے۔ یورپ کی بہت بڑی اکثریت ایسی حرکت کو ٹھیک نہیں سمجھتی۔ اگر ایسا ہوتا تو توہین آمیز خاکے شائع کرنے والے اخبارات کی سرکولیشن بڑھ جاتی۔ یہ خاکے مخصوص اخبارات اپنی اس اقلیت کو خوش کرنے کے لیے شائع کرتے ہیں، جو اخلاقی طور پر پست حالی کا شکار ہے۔ وہ اقلیت سازشی ہے۔ ان لوگوں کا مزاج شیطانی ہے، جو مسلمانوں کے عقائد کی سرعام توہین کرتے ہیں۔
اس بات پر یورپی ممالک کی حکومتوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ یہ بات آزادیٔ اظہار سے تعلق نہیں رکھتی۔ اس بات کا تعلق اس رویئے سے ہے، جو رویہ توہین آمیز ہے ان لوگوں کے لیے جو مسلمان ہیں اور مغرب میں بستے ہیں۔ اگر مغرب میں مسلمانوں کو وہی شہری حقوق حاصل ہیں، جو غیر مسلمانوں کو ہیں تو پھر یہ رویہ انتہائی شرمناک جانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ توہین آمیز خاکے تہذیب کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ مغرب کس علم اور کس ادب کی بات کرتا ہے۔ مغرب کا شعور اس بات پر فخر کا اظہار کرتا ہے کہ وہ جانوروں اور پرندوں سے بھی توہین آمیز رویہ نہیں رکھتے۔ جو اتنے اعلیٰ اقتدار کے امین ہونے کے داعی ہیں، وہ توہین آمیز خاکوں کے آئینے میں اپنی حقیقی تصویر دیکھیں۔ توہین آمیز خاکوں پر مغرب کے مسلمانون میں جتنا غم اور غصہ ہے، وہ اس کا اظہار نہیں کرتے، کیوں کہ وہ انتہائی عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں۔ ان کو خوف ہے کہ ایسے رویئے کے خلاف احتجاج کرنے سے وہ مزید تکلیف کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس لیے صرف صبر کے سوا ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ توہین آمیز خاکوں پر احتجاج مسلمان ممالک میں ہو رہا ہے۔ مگر یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ سیاسی خوف کی وجہ سے مسلمان ممالک کے حکمران بھی اپنے ہم منصب مغربی حکمرانوں کے سامنے احتجاج نہیں کرتے۔ وہ اقتدار کی وجہ سے مصلحت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ بات عام مسلمانوں میں مزید غصے کو جنم دیتی ہے۔
توہین آمیز خاکوں پر نہ صرف تیسری دنیا، بلکہ دوسری اور پہلی دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک کے ادیب اور دانشور بھی لاتعلق ہیں۔ حالانکہ حکمرانوں کو ان کی نااہلی اور عوام دشمنی کا احساس دلانے کے سلسلے میں ادیبوں اور دانشوروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ادیب اور شاعر وہ لوگ ہوتے ہیں، جو انسانوں کے احساسات اور جذبات کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں، بلکہ انسانی احساسات کا تحفظ کرنا بھی ان کے فرائض شامل ہے۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جس دن کسی ملک کے اخبار میں مسلمانوں کے پیغمبر حضرت محمدؐ کے حوالے سے توہین آمیز خاکے شائع ہوتے ہیں، اس دن وہ بہت اداس ہو جاتے ہیں۔ اس روز ان کا پورا دن دکھ اور تکلیف میں گزرتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور دفاتر میں شریر لوگ جان بوجھ کر مسلمانوں کے سامنے ایسے اخبارات کی نمائش کرتے ہیں، جن میں توہین آمیز خاکے شائع ہوئے ہوتے ہیں اور ایسی باتوں میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ مگر مغرب میں بسنے والے مسلمان نوجوانوں اور بچوں کو اپنے آپ پر قابو پانے اور برداشت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ تلقین یورپی تہذیب کی توہین ہے۔ اس توہین پر بھی مغربی مصنفین کا ضمیر نہیں جاگتا۔ کیوں؟
ان کو اس بات نہ علم ہے اور نہ احساس کہ مسلمان اپنے پیغمبر حضرت محمدؐ کا احترام کس درجہ کرتے ہیں۔ اپنے پیغمبرؐ سے صرف شہری مسلمان پیار نہیں کرتے، بلکہ مسلمان معاشروں کے دیہی علاقوں میں بسنے والے وہ لوگ جو دنیاوی علم کے حوالے سے ان پڑھ سمجھے جاتے ہیں، مگر ان کے دل میں اپنے پیغمبرؐ کے لیے اتنا پیار ہے جتنا پیار شاید ان کے سینوں کے سوا کائنات میں اور کہیں نہیں سما سکتا۔ اس پیار کا اظہار ایک اس مشہور سندھی کلام میں ہے جو عابدہ پروین آج بھی گاتی ہے تو سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کلام جس میں ’’مفتون‘‘ نامی شاعر نے کہا تھا کہ:
’’تیرے زلف کے بند کمند بنے
زنداں میں ہزاروں میں ہی نہیں‘‘
مگر اس سندھی کلام سے زیادہ پر اثر اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والا شعر مہر علی شاہؒ کا ہے، جنہوں نے خود کو اپنے پیغمبرؐ کی تعریف کے قابل تک نہیں سمجھا۔ جنہوں نے کمال کے کلام میں لکھا تھا:
’’کتھ مہر علی
کتھ تیری ثناء
گستاخ اکھیاں
کتھ جا لڑیاں‘‘
جس معاشرے میں موجود انسانوں کا اپنے پیغمبرؐ سے پیار اس درجہ ہو، وہ لوگ اپنے پیغمبرؐ کے توہین آمیز خاکوں پر کتنا غم اور کتنا غصہ محسوس کرتے ہوں گے؟
کاش! مغرب کے ادیب اپنے معاشرے میں اس ایشو کو اتنی شدت سے اٹھائیں جتنا شدید یہ ایشو ہے۔ ایسے ایشوز صرف سازشی اور شیطانی صفت لوگ پیدا کرتے ہیں۔ وہ لوگ معاشرے کو توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ لوگ انسانوں کے درمیان فاصلے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لوگ معاشرتی اور عالمی امن کے دشمن ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف اہل قلم حضرات کو میدان میں آنا چاہئے۔ یہ معاملہ صرف مذہبی آزادی تک محدود نہیں ہے۔ یہ معاملہ انسان کے اندر کی جذباتی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ دنیا جب ٹوٹ جاتی ہے تب انسان باہر سے تو سمٹا نظر آتا ہے، مگر اندر سے ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتا ہے۔ یہ بات انسانوں کو اندر سے بکھرنے سے بچانے کی ہے۔ اس بات پر ادیب، شاعر، دانشور اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کے دعویداروں کو آگے آنا چاہئے۔ یہ صدا شیطانی غرور کے خلاف عمل کی صدا ہے۔ یہ صدا شعور کی صدا ہے۔ یہ صدا دنیا میں نفرت اور تعصب کی ان چنگاریوں کو بجھانے کی صدا ہے، جو چنگاریاں بدامنی کی عالمی آگ کا باعث بن سکتی ہیں۔
یہ صدا سننے میں کس قدر میٹھی اور دل میں اتر جانے والی ہے۔ یہ صدا جو مہر علی شاہ کے الفاظ سے وجود میں آتی ہے۔ یہ صدا سرائیکی زبان کی وجہ سے زیادہ پر تاثیر بن جاتی ہے۔ یہ صدا دل کو اس صحرا میں لے جاتی ہے، جس صحرا کے لیے خلیل جبران نے لکھا تھا:
’’ایمان عقل کے صحرا میں ایک نخلستان ہے‘‘٭
٭٭٭٭٭