رب کائنات نے پاکستان کو جن قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے، ان سے دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک بھی محروم ہیں۔ اس کے باوجود ہم پریشان حال اور غربت و افلاس کے مارے ہوئے ہیں۔ ہمارا شمار جن ملکوں میں ہوتا ہے، وہ ترقی پذیر کہلاتے ہیں، لیکن بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے بعد ستّر برسوں میں ہم نے ترقی معکوس کی ہے۔ ملک کے بڑے شہروں میں یہ جو بڑی بڑی فلک بوس عمارتیں، عالیشان دفاتر، بڑی بڑی شاہراہیں اور ترقی کے شاندار مظاہرے نظر آتے ہیں، ان کا بائیس کروڑ عوام کی زندگی سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے سارے فوائد ملک کا پانچ تا دس فیصد مقتدر و متمول اور مراعات یافتہ طبقہ سمیٹ لیتا ہے، جبکہ غریبوں کے حصے میں افلاس و غربت، بے بسی و بے کسی اور ان سے وابستہ مسائل ہی آتے ہیں۔ انہیں پینے کا صاف پانی تو کجا، بعض علاقوں میں سرے سے پانی ہی میسر نہیں ہوتا، تو مناسب خوراک کا کیا مذکور۔ امن و سکون کی باعزت زندگی، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات سے محروم شہری یہ دیکھ کر کف افسوس ملتے نظر آتے ہیں کہ عوامی نمائندگی کا دعویٰ لے کر اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والوں کو دنیاوی عیش و آرام کی وہ تمام سہولتیں حاصل ہیں، جن کا انتہائی ترقی یافتہ ممالک کے حکمران بھی تصور نہیں کر سکتے۔ ستّر سال بعد اب تحریک انصاف کی جو حکومت وفاق اور دو صوبوں میں قائم ہوئی ہے، اس کا بنیادی نعرہ تبدیلی تھا، ماضی کے گرگان باراں دیدہ قسم کے سیاستدانوں سے نجات پانے کے لئے عوام نے ایک بار پھر نئے نعرے پر اعتماد کر کے اس جماعت کو اعلیٰ ایوانوں میں پہنچا دیا۔ بادی النظر میں ان میں سے بھی کوئی عوام کی صفوں سے نکل کر انتخابات میں کامیاب نہیں ہوا۔ اکثریت کا تعلق معاشرے کے ان طبقات سے ہے جو محاورے کی زبان میں ’’سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے‘‘۔ پوت کے پائوں پالنے میں نظر آنے کے مصداق، شیخ رشید سے لے کر حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے معمولی ارکان کا سرکاری افسروں اور عوام کے ساتھ توہین آمیز سلوک ابھی سے نظر آنے لگا ہے تو آئندہ چل کر تبدیلی کا نعرہ سراسر فریب معلوم ہو گا۔ تاہم ملک کے بعض محب وطن، سنجیدہ شہری اور سیاسی مبصرین تحمل کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو اولین سو دن پورے کرنے دیئے جائیں۔ اس کے بعد آئندہ کے لئے کوئی حتمی رائے قائم کی جائے۔ انہیں موجودہ حکومت کے کچھ مثبت اقدامات نظر آ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں عوام کے حق میں کچھ بھلائی اور بہتری کی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت بھی پرانی ڈگر پر چلتی رہی تو جان لیں کہ زرداری کی چالاکی و عیاری اور لوٹ مار کی عالمی شہرت یافتہ تدابیر ان کے کام نہیں آئیں۔ اسی طرح میاں نواز شریف کی عوامی مقبولیت، ان کے خاندان اور عزیزو اقارب کی جانب سے قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے سیلاب میں بہہ گئی۔ مذہبی جماعتوں میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں کچھ نشستوں پر کامیابی حاصل کر لیتی تھی، لیکن حالیہ انتخابات میں وہ خود کسی نشست پر کامیاب نہ ہو سکے تو انہوں نے اپنی کانگریسی ذہنیت ظاہر کر کے چودہ اگست کو یوم آزادی منانے سے بھی انکار کر دیا۔ شہباز شریف کی مسلم لیگ نے مزید خوار کرنے اور نشان عبرت بنانے کے لئے انہیں صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے، اس خیال سے کہ ذلت و رسوائی کے اس گندے جوہڑ میں ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔
نئی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج شدید اقتصادی بحران ہے، پچھلی حکومتیں ملک کو قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبا کر گئی ہیں۔ سیاستدانوں، نوکر شاہی کے کارندوں اور مخصوص خاندان کی جانب سے لوٹی ہوئی رقم کو واپس لا کر اور قدرت کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں کا درست اور ماہرانہ انداز میں استعمال کر کے قرضوں کی ادائیگی مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ نئے وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی اس عہدے پر نامزدگی سے قبل اعلان کیا تھا کہ ہم آئی ایم ایف سے امداد اور قرضے کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ قومی وسائل کو استعمال کر کے اور بیرون ملک پاکستانیوں کی مدد سے اپنے معاشی اہداف پورے کر لیں گے۔ لیکن گزشتہ روز انہوں نے سینیٹ میں یہ کہہ کر اہل وطن کو حیران کر دیا کہ ’’ابھی ہم نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں اور اگر جانا پڑا تو یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو گا، اس سے قبل پاکستان کی حکومتیں بارہ مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکی ہیں‘‘۔ گویا حکومت میں آتے ہی تحریک انصاف کو معروضی حقائق کا پتہ چل گیا اور انہوں نے اپنے سربراہ کی ’’یوٹرن‘‘ والی پالیسی کا پہلے ہی ہفتے میں اعادہ کر دیا۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت ملک بھر میں سرکاری اراضی فروخت کر کے اس سے مالی وسائل حاصل کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ یہ اراضی بیرون ملک پاکستانیوں کو فروخت کی جائے گی، جو موجودہ حکومت کی یقین دہانی پر اپنا سرمایہ ملک میں لانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ ایک مقامی صنعت کار اور حکومت کے مشیر عبد الرزاق دائود حکومت اور بیرون ملک پاکستانیوں کے درمیان رابطہ کار بنے ہوئے ہیں، دیگر تدابیر اقدامات کے ساتھ یہ تجویز بری نہیں ہے، تاہم اراضی فروخت کرتے وقت ملک کے اندر موجود کروڑوں بے گھر، کچی آبادیوں اور جھگیوں میں رہنے والے خاندانوں کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے، اسی طرح فٹ پاتھ اور سڑکوں پر ٹھیلے اور پتھارے لگا کر روزی کمانے والوں کو بھی قانونی طور پر جگہ دے کر تجاوزات کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں فلک بوس عمارتوں نے شہری مسائل میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے، جبکہ اس سے دولت مند طبقے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی تعلیمات کے مطابق چھوٹے اور خود مختار خود کفیل شہر اور قصبے بسا کر بہت سی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ حکومت کی آمدنی میں اضافے کا باعث بھی بنے گا۔ کراچی سے حیدر آباد تک سپر ہائی وے کے آس پاس وسیع و عریض زمین کو سامنے رکھا جائے تو ملک بھر میں ایسے کئی مقامات کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔ کراچی میں ایشیاء کی سب سے بڑی ہائوسنگ اسکیم نمبر تینتیس میں حکومت کی جانب سے ترقیاتی کام مکمل کر کے غریب شہریوں کو پلاٹ دینے کے بجائے سوسائٹیوں کو بڑے بڑے قطعات اراضی الاٹ کئے گئے تاکہ وہ انہیں اپنے ارکان میں تقسیم کر دیں۔ تیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یہ اسکیم ناکام ہے اور بیشتر زمینیں یا تو ویران پڑی ہیں یا ان پر قبضہ مافیا نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ زمین کا ایک اور استعمال جس پر حکومتوں کی توجہ کم ہی مبذول ہوتی ہے یہ کہ ملک کے ستّر فیصد سے زیادہ کاشتکاروں کے لئے زراعت کے شاندار منصوبے شروع کئے جائیں تو غذائی اشیاء کی پیداوار، کپاس کی صنعت (ٹیکسٹائل) اور دیگر کئی شعبوں میں لوگوں کو روزگار کے وسیع مواقع حاصل ہوں گے۔ انہیں اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر شہروں کا رخ بھی نہ کرنا پڑے گا اور برآمدات میں اضافے کے ذریعے ملک کو کثیر زرمبادلہ بھی حاصل ہو گا۔
٭٭٭٭٭