ناصر رضوان خان ایڈووکیٹ
سپر ہائی وے جسے اب موٹر وے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایم نائن کے سنگ میل پر انقلابی تبدیلیوں کے باعث ہر شخص کے لئے پر کشش مقام بن گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سندھ کے قدیمی گوٹھوں کے درمیان کوہ کیرتھر کے دامن میں سرمایہ کاروں کی دو نو آبادیات جنم لے رہی ہیں، چونکہ ان کالونیوں پر مراعات یافتہ طبقے کا دست شفقت ہے، اس لئے ایم نائن پر حیران کن ترقیاتی کام ہو رہے ہیں، انڈر پاسز بن رہے ہیں، پلوں کی تعمیر ہو رہی ہے، طویل دو رویہ سروس روڈز پر شب و روز کام ہو رہا ہے اور یہ زون روشنی میں نہا رہا ہے۔ اس کے اردگرد گاؤں اور دیہات میں نوجوانوں کے لیے نوکریوں اور کاروبار کے ان گنت مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ ان عظیم الشان منصوبوں کے کار پردازوں کا دعویٰ ہے کہ ’’یہاں متوسط طبقے کو رہائشی اور بزنس کی فقید المثال سہولیات حاصل ہوں گی، ساتھ ہی ہزارہا اسامیوں پر ماہرین فن بھرتی کئے جائیں گے۔‘‘ اس دعوے کا دوسرا حصہ حقیقت پر مبنی ہے، کیونکہ دونوں کالونیوں میں ترقیاتی اور تعمیراتی کاموں نیز انتظامی امور کی دیکھ بھال کے لئے تقریباً 78 ہزار افراد کا روزگار اس ریجن سے وابستہ ہو چکا ہے۔ البتہ اس دعوے کے پہلا حصہ درست نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ ان نو آبادیات میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کو رہائش اور کاروبار کے مواقع ملیں گے، کیونکہ ان میگا پراجیکٹس میں پلاٹوں اور رہائشی یا کاروباری یونٹس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ تقریباً تمام ہی یونٹس سرمایہ کاروں نے خرید لئے ہیں۔ کئی سرمایہ کار 20 سے 50 یونٹس کی فائلوں کے ہولڈرز ہیں، ان کی زنجیر کی کڑیاں ’’منظور شدہ پراپرٹی ڈیلرز‘‘ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور وہ ’’ذخیرہ اندوزی‘‘ کے مروجہ اصولوں کے تحت طلب اور رسد کے کھیل میں نہایت اطمینان سے شریک ہیں۔ آپ ان دونوں محیر العقول کالونیوں کا ایک وزٹ کرلیں، آپ کو ’’گرے‘‘ اسٹرکچر یونٹس کا ایک جنگل ملے گا، جہاں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا، اسی طرح بے شمار یونٹس مکمل فنشنگ کے ساتھ تیار کھڑے ہیں، مگر سرمایہ داروں اور سرمایہ کاروں کی ہوشربا من مانی بولیوں کے جواب میں متوسط طبقہ تو درکنار، اعلیٰ طبقہ بھی خریداری پر مائل نہیں ہے۔ ہزاروں یونٹس بے آباد اور ویران پڑے ہوئے ہیں۔ ایک یا پھر دو برسوں کے بعد ان میں خستہ سامانی پیدا ہونا لازمی ہے، مگر ان کالونیوں کے اسپانسرز کو اس کی پروا نہیں ہے، کیونکہ وہ تمام ہی یونٹس سرمایہ کاروں کے ہاتھوں فروخت کر چکے ہیں۔ خود انہوں نے اپنے منصوبوں میں ایسے مستقل ذرائع آمدنی تخلیق کر لئے ہیں کہ ان کا 20 فیصد حصہ انفرا اسٹرکچر کی دیکھ بھال پر خرچ کر بھی لیا جائے تو 80 فیصد ان کی تحویل میں ماہانہ آرہی ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں کے لئے آمدنی کے پکے ذرائع محفوظ ہیں۔ سرمایہ کارانہ نو آبادیات میں فائلیں گردش کر رہی ہیں اور متوسط طبقہ سوشل میڈیا پر یہ پراپیگنڈہ ملاحظہ کر رہا ہے کہ پراجیکٹ ان کے مفاد کے لئے تیار کئے جا رہے ہیں۔ سرمایہ کارانہ نوآبادیات میں آبادی کا تناسب بہت کم ہونے سے وفاقی حکومت کو ریوینو نہیں مل رہا۔ نادرا، پی ٹی سی ایل، سوئی سدرن گیس کمپنی، پوسٹ آفس اور پاسپورٹ کا محکمہ 50 مربع میل پر مشتمل ایک اور 20 مربع میل پر قائم دوسری کالونی سے پھوٹی کوڑی حاصل نہیں کر رہا۔ ظاہر سی بات ہے ان محکموں کا تعلق براہ راست کسٹمرز سے ہے، نہ کہ گرے اسٹرکچر یونٹس کے بے آباد جنگل سے… جب تک یہاں آبادی نہیں ہوگی، اس وقت تک نہ تو وفاقی حکومت کو یہاں سے ریوینو حاصل ہوگا اور نہ ہی حکومت سندھ کو محاصلات وصول ہوں گے۔ اس حوالے سے میری تجویز ہے کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کر ان کالونیوں کے کرتا دھرتا اور معاملات چلانے والوں کو پابند کرے کہ وہ دو ماہ میں گرے اسٹرکچرڈ اور فنشڈ یونٹس کو ان کے مالکان کے حوالے کر دیں، تاکہ یہاں آباد کاری شروع ہو سکے۔ جب تک رہائشی یونٹ یا پلاٹ یا پھر تجارتی یونٹ استعمال نہ کیا جائے، اس پر ’’نان یوٹیلائزیشن فیس‘‘ (این یو ایف) عائد کی جائے، چونکہ یہ دونوں نوآبادیات گورنمنٹ آف سندھ کی زمین پر قائم کی گئی ہیں، اس لئے حکومت سندھ کی وزارت خزانہ این یو ایف وصول کرے۔ اس حوالے سے قانون سازی فی الفور کی جائے۔ ان دونوں کالونیوں پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری اور کنٹرول ہے۔ یہاں حکومت سندھ کا سب لیزڈ کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ حکومت سندھ کو چاہئے کہ یہاں سب رجسٹرار آفس قائم کرے اور مروجہ قوانین اور شرائط و ضوابط کے مطابق ’’سب لیز‘‘ کا اجراء کر لے۔ اسی طرح ہر یونٹ پر قانون کے مطابق ’’پراپرٹی ٹیکس‘‘ نافذ کیا جائے۔ ایک عام شہری اور قانون کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں محسوس کرتا ہوں کہ جب تک ان کالونیوں کو آباد کرکے وفاقی اور صوبائی اداروں کو ’’ریوینو‘‘ نہیں دیا جائے گا، یہاں فائلوں کی لین دین اور نمائشی کھیل تماشے کے ذریعے مکانوں، دکانوں، فلیٹوں اور پلاٹوں کے دام اوپر سے مزید اوپر ہوتے رہیں گے۔ چند افراد کا سر کڑاہی میں اور پانچوں انگلیاں گھی میں تر رہیں گی اور قومی خزانے کو ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی ان نو آبادیات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امید ہے کہ نئے پاکستان اور نئے سندھ کا انتظام چلانے والے میری باتوں پر ضرور توجہ دیں گے۔