ناک بھی کیا ظالم شے ہے۔ اللہ میاں نے سانس لینے اور سونگھنے کے لیے دی لیکن حضرت انسان نے اسے ہمہ صفت درجہ دے کر اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ اب عالم یہ ہے کہ لوگ ناک ہی کے ذریعے دوسروں کے مرتبے، مراتب کا پتا لگانے لگے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے نام و نسب کی طرح اونچی ناک کے حامل ہوتے ہیں، جب کہ کچھ ہماری طرح نیچی ناک کے ساتھ بھی کمپرومائز کرلیتے ہیں، نیچی ناک والوں سے اونچی ناک والے ہمیشہ نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ کیوں؟ یہ ایک ریسرچ طلب مسئلہ ہے اور ہم جیسے سست اور کاہل الوجود ریسرچ وغیرہ میں کہاں پڑتے ہیں، بس گھر میں پڑے کھٹیا توڑتے اور ناک کھجا کھجا کر قسمت کو کوستے رہتے ہیں اور بس۔
بہت سے لوگ اونچی ناک رکھنے کے لئے بڑے نیچے نیچے کام کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہو کہ بیشتر صاحب ثروت اپنی بلند و بالا عمارتوں میں انڈر گراؤنڈ فلور بنواتے ہیں تاکہ نیچے کے کام نیچے ہی کئے جا سکیں۔ اب ہم ایسے کاموں کی تفصیل میں ہرگز نہیں جائیں گے، کیوں کہ یہ ہماری بھی ناک کا مسئلہ ہے۔ اونچی ناک کے بارے میں ہم نے بہت سنا ہے، لیکن بخدا ہم نے آج تک ڈیڑھ دو انچ سے اونچی ناک کسی کی نہیں دیکھی۔ ویسے موصوفہ (ناک) کے بارے میں ہم خود بھی بڑے حساس واقع ہوئے ہیں، کبھی کبھی تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر ناک خدا نخواستہ چہرے کے بجائے کہیں اور فٹ کردی جاتی تو انسان کو کتنی پریشانیاں لاحق ہوتیں۔ خالہ خیرن اپنی اکلوتی عینک کہاں ٹکاتیں، ناک کھجانے کے لئے ہمیں ہاتھ کس زاوئیے پر لے جانا پڑتا اور یہ جو دونوںآنکھوں کے درمیان ناک نے شرعی و اخلاقی حد بندی کی ہوئی ہے، اس کا کیا ہوتا؟ ویسے اگر ایسا نہ ہوتا تو دونوں آنکھیں تو ایک دوسرے سے کھلے عام آنکھ مٹکا کیا کرتیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اونچی ناک کے حوالے سے ہم ہمیشہ ہی تذبذب کا شکار رہے ہیں اور جب بھی ایسی کوئی کیفیت طاری ہو یا کوئی ہمیں اونچی ناک کا طعنہ دیتا ہے تو گھر پہنچتے ہی پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ انچی ٹیپ لے کر اپنی معصوم سی ناک کی اونچائی ناپنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اس کام میں ہمیشہ ہی ناک کی کھانی پڑی (منہ سے ہمیشہ ہم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو کھانے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں) ویسے آپ کو بتائیں کہ ناک کے بارے میں ہم بین الخاندانی شہرت کے حامل ہیں، چنانچہ کوئی ہمیں نک چڑے کا خطاب دیتا پایا جاتا ہے تو کوئی نکیلا کہنے میں ذرا تامل نہیں کرتا، کچھ کا خیال ہے کہ ہم اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے، لو اب ہماری ناک نہ ہوئی مکھیوں کی ڈبلیو گیارہ ہوگئی کہ اس پر کوئی بھی سوار ہو جائے۔ کچھ اقرباء نے تو حد ہی کر دی، فرمان یہ جاری کر دیا کہ ہماری ناک پکوڑے سے مشابہت رکھتی ہے، ہماری ناک کو پکوڑے سے تشبیہ دینے والے یقیناً چٹوری طبیعت کے مالک ہوں گے، اسی لئے انہیں اس میں پکوڑے کی شباہت نظر آئی، ورنہ ہمارا اپنی ناک کے بارے میں نہایت جانب دارانہ تجزیہ یہ ہے کہ اسے جامن اور چھوٹی گلاب جامن سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ جو لوگ ہماری ناک کو پکوڑے سے تشبیہ دیتے ہیں، ہم ان سے خاصے محتاط اور فاصلے پر رہتے ہیں کہ نہ جانے کب ان کا دل پکوڑے کھانے کو مچل اٹھے اور ہمیں اپنی اکلوتی ناک سے ہاتھ دھونے پڑیں۔
ناک کے بارے میں چیدہ معلومات کے لیے ہم نے ایک دن اپنے ایک نکٹے دوست کا انٹرویو کرنے کی ٹھانی اور ان کے گھر جا دھمکے۔ کال بیل بجانے پر حسب سابق دولہا کی طرح ناک پر رومال رکھے برآمد ہوئے اور دلہن کی طرح شرماتے ہوئے ہمیں ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ انتہائی اہتمام سے رومال کو تہہ کرکے جیب میں رکھا اور نہایت بد دلی سے بولے: کہو کیسے آنا ہوا؟ ہم نے ان کی ناک کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیتے ہوئے کہا: تمہاری ناک میں دم کرنے آئے ہیں۔ بولے: میاں! دیکھو پہلی بات تو کان کھول کر یہ سن لو کہ دم درود کے ہم ہرگز قائل نہیں، یہ طور طریقے ہم میں ہمارے ہاں آباء واجداد سے ہی ممنوع ہیں۔ یہ کہتے ہوئے بڑی تیزی سے جیب سے رومال نکالا اور ایک بار پھر ناک پر رکھ لیا، مبادا ہم ان کی ناک پر کچھ پڑھ کر ہی نہ پھونک دیں۔ ان کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لئے ہم نے فی الفور حاضری کا سبب بتایا کہ آپ سے ناک کے بارے میں کچھ معلومات درکار ہیں۔ ہماری بات سن کر نکٹے دوست نے پہلے تو اپنی ناک پر ہاتھ پھیر کر اسے چیک کیا، کئی بار سہلا کھجا کر نہ جانے کون سا شک تھا جو دور کیا، پھر بولے: میاں! دیکھو چاہے میری طرح ادھوری ہی کیوں نہ ہو، مگر انسان کے پاس ناک کا ہونا بہت ضروری ہے، ناک نہ ہو گی تو ہمیں یہ کیسے معلوم ہو گا کہ ہم کیا کھا رہے ہیں، کیونکہ اشیاء کی پہچان ہم ان کی خوشبو سونگھ کر ہی تو کرتے ہیں، ناک نہ ہو تو ہم پل بھر میں مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کر مر جائیں، کیونکہ ناک ہی کے ذریعے ہم پھیپھڑوں تک سانس پہنچاتے ہیں، پھر اگر ناک نہ ہو گی تو ہم چھینکیں گے کیسے؟ ناک نہ ہو تو سیدھے راستے کی نشاندہی کیسے ہوگی، بھئی سیدھے چلنے کے لئے ناک کی سیدھ میں ہی تو چلنا پڑتا ہے نا۔ سچ تو یہ ہے کہ ناک ہے تو جہان ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے بڑی تکریم سے اپنی ناک پر ہاتھ پھیرا اور تسلی ہوتے ہی اسے دوبارہ رومال کی اوٹ میں کر لیا۔ نکٹے دوست کی اثر انگیز باتیں سن کر ہم اپنے گھر لوٹے تو اپنے دیرینہ درد سر بدھو میاں کو موجود پایا، جو اپنی ناک پھلائے ہمیں یوں گھور رہے تھے، جیسے سامری جادوگر جلال میں آگیا ہو۔ ہم نے سہمے سہمے انداز میں ان سے ان کی خیریت دریافت کی تو چراغ پا ہو کر بولے: آخر تمہیں عقل کب آئے گی؟ ہم نے حیرانی سے پوچھا: تو کیا آپ ہمیں ابھی تک کم عقل ہی سمجھتے ہیں۔ کہنے لگے: صرف سمجھتے ہیں سے کام نہیں چلے گا، میاں ہم تو لکھ کر دینے کو تیار ہیں کہ تم کم عقل ہو، مگرکیا کریں ہمیں لکھنا نہیں آتا۔ ہم نے خوش ہوتے ہوئے کہا چلیں شکر ہے اللہ جو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے، آپ اپنی ناراضگی کی وجہ بتایئے۔ کہنے لگے: وجہ کیا خاک بتائیں، تم نے تو ہماری ناک ہی کٹوا دی، ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ ہم نے شرارتاً کہا: بدھو میاں! کیا آپ کا منہ پہلے اس قابل تھا کہ لوگ اسے دیکھ سکتے؟ کہنے لگے: تو کیا ہم تمہیں ڈریکولا نظر آتے ہیں۔ ہم نے کہا: نہیں دیکھنے میں تو آپ نرے بدھو ہی نظر آتے ہیں۔ بولے: تمہاری آنکھوں کا پانی مر گیا ہے۔ ہم نے وضاحتی انداز میں کہا: لیجیے اب پانی بھی کوئی جاندار شے ہے، جو مر جائے۔ کہنے لگے: شرم کرو اور چلو بھر پانی میں ڈوب مرو۔ ہم نے فوراً بدھو میاں کے منہ پر ہاتھ رکھ کر سرگوشی میں کہا: بدھو میاں! کیا غضب کرتے ہو، اس شہر میں کئی کئی ہفتے لوگوں کو ایک بوند پانی میسر نہیں ہوتا، آپ ہیں کہ پورے ایک چلو پانی کی بات کر رہے ہیں، کسی نے سن لیا تو خوامخواہ پانی کی ذخیرہ اندوزی کا الزام سر آجائے گا۔ یہ سن کر بدھو میاں کچھ نرم پڑے اور ایک گہری سانس لے کر بولے: ہاں یہ تو ہے۔ پھر گویا ہوئے: کہو کہاں تھے، میں کتنی دیر سے تمہارا منتظر ہوں۔ ہم نے ناک پر اپنی تحقیقات سے انہیں آگاہ کیا تو بولے: میاں! تم خوامخواہ ناک کے پیچھے پڑگئے ہو، آخر اس غریب نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ اس کے بعد وہ دیر تک ناک کی وحدانیت سے اس کی اجتماعیت تک تو ایک توسیعی لیکچر ہماری سماعتوں میں انڈیلتے رہے، جسے ہم محاورتاً کان دبا کر اور حقیقتاً ناک سہلا سہلا کر سنتے رہے۔ (وما توفیقی الاباللہ)