آصف علی زرداری کا وہ بیان حلفی سوشل میڈیا میں اب تک طنز و مزاح کا موضوع بنا ہوا ہے، جس بیان حلفی میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بیرون ملک نہ ان کی کوئی ملکیت ہے اور نہ کسی بینک میں کوئی اکاؤنٹ۔ وہ بیان حلفی جس پر عدالت میں اعتراض کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا گیا: اگر آصف زرداری کا بیرون ملک کوئی اکاؤنٹ نہیں تو پھر سوئس اکاؤنٹس میں رکھے ہوئے 60 ملین ڈالر کہاں گئے؟ آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے پوری کوشش کی کہ وہ عدالت سے اپنے مؤکل کوئی رعایت دلاسکیں، مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ حالانکہ انہوں نے سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا کہ آصف زرداری نو برس تک جیل میں رہے ہیں اور انہیں ان نو برس کا کچھ تو صلہ ملنا چاہئے، مگر عدالت اس مؤقف پر قائم رہی کہ آصف زرداری کی ساری ملکیت کی تفصیل پیش کی جائے۔ سپریم کورٹ نے فاروق ایچ نائیک کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ عدالت آصف زرداری کو کلین چٹ دینا چاہتی ہے اور اس کا انہیں مستقبل میں فائدہ بھی ہوگا۔ فاروق ایچ نائیک نہ صرف ایک سینئر قانون دان ہیں، بلکہ وہ آصف زرداری معاملات کے اسپیشلسٹ بھی ہیں۔ ان کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ عدالت جس طرح آصف زرداری کو ڈھیل دے رہی ہے، اس سے وہ زیادہ الجھ جائیں گے۔ فاروق ایچ نائیک ایک ہوشیار وکیل کی طرح دیکھ رہے ہیں کہ آصف زرداری کو قانون کے جال میں قابو کرنے کے لیے چاروں طرف سے ایک گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔
اب آصف زرداری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ان مشیروں پر بھرپور غصہ کا اظہار کریں، جنہوں نے خوشامد کرتے ہوئے ان سے کہا تھا کہ پاکستان کی ساری سیاسی بازی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ مگر سندھ حکومت ملنے کے باوجود بھی آصف زرداری دن بہ دن کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آصف زرداری بظاہر اپنی قانونی پوزیشن مضبوط کر رہے تھے۔ ان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ حسین لوائی کے بعد اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کی ضمانتی درخواست رد ہو جائے گی اور وہ گرفتار ہو جائیں گے۔ موجودہ صورت حال میں زرداری کی پریشانی کو ناجائز قرار دینے والے بے انصافی برت رہے ہیں۔ آصف زرداری خود ایک تجربہ کار ملزم رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ جب برا وقت آتا ہے تو ہر طرف سے مخالف ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس بار بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ایک طرف حسین لوائی گرفتار ہیں، دوسری طرف انور مجید اور تیسری طرف آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف بھرپور تحقیق اہم مرحلے میں ہے۔ جب کہ چوتھی طرف سندھ میں پیپلز پارٹی کے سرگرم افراد کے خلاف بھی قانونی کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں۔
شکارپور سے تعلق رکھنے والے وڈیرے اور پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے بابل بھیو کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری قومی میڈیا کی بڑی خبر نہ ہو، مگر سندھ کے ان حلقوں کے لیے یہ اہم خبر ہے۔ کیوں کہ بابل بھیو پر صرف 56 لاکھ روپے کی غیر قانونی ٹرانزیکشن کا الزام نہیں ہے، بلکہ ان پر پہلے سے رینجرز ڈی ایس آر کے قتل کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ کوئی سوال اٹھا سکتا ہے کہ بابل بھیو نامی ایک گمنام وڈیرے کی گرفتاری آصف زرداری کے لیے پریشانی کا باعث کیوں بنے گی؟ اس سلسلے میں جاننے والے جانتے ہیں کہ بابل بھیو کا تعلق اس شہر سے ہے، جس شہر سے سندھ اسمبلی کے سابق اور موجودہ اسپیکر آغا سراج درانی کا تعلق ہے۔ آغا سراج درانی کے خلاف نیب پہلے سے تحقیقات کر رہی ہے۔ بابل بھیو شکارپور کا بے حد باخبر وڈیرے ہے۔ اس کو پوری معلومات ہے کہ اس کے شہر کے کس وڈیرے نے کتنا مال کمایا ہے اور وہ مال کہاں چھپایا ہے؟ جب بابل بھیو رینجرز اہلکار کے قتل کیس میں دبئی فرار ہوگیا تھا تب آغا سراج درانی کو کوئی پریشانی نہیں تھی، مگر اس بار بابل بھیو کی وجہ سے آصف زرداری بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔ وہ بابل بھیو جس کو کراچی سے گرفتار کرکے سکھر لایا گیا ہے اور جس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اقرار تو کیا ہے کہ اس کے اکاؤنٹ میں 56 لاکھ روپیوں کی ٹرانزیکشن ہوئی ہے، مگر اس نے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ جب نیب کو پانچ کروڑ سے کم کرپشن کا مقدمہ نہیں دیکھنا تو پھر اس نے مجھے کیوں پکڑا ہے؟ کرپشن کے کیس میں پکڑا جانے والا پیپلز پارٹی کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر بینظیر بھٹو کے نام میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر سندھ میں دس برس کی کرپشن کے باعث پیپلز پارٹی کے لیڈران بینظیر بھٹو ہمدردی کارڈ کا اکاؤنٹ ختم کر چکے ہیں۔ آصف زرداری سے لے کر بابل بھیو تک پیپلز پارٹی کا کوئی بھی لیڈر بینظیر بھٹو کی بات کرے گا تو اس کی بات کا نہ کوئی احتساب کرنے والا ادارہ نوٹس لے گا اور نہ اس کی بات کو عوام سے کسی قسم کی مدد حاصل ہوگی۔ بینظیر بھٹو کے نام پر دو بار اقتدار حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سندھ میں تیسری بار مناسب متبادل نہ ہونے کی وجہ سے اقتدار میں تو آگئی ہے، مگر اس بار سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار پارٹی قیادت کے لیے طاقت کا باعث نہیں۔ اس بار پیپلز پارٹی کو حاصل اقتدار اس کی قانون کے محاصرے میں آنے والی قیادت کا تحفظ تک نہیں کر سکتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کا وہ مقدمہ ہے جس کا کشادہ دائرہ دھیرے دھیرے سکڑتا جا رہا ہے۔ جس طرح انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ ’’سارے راستے روم کی طرف جاتے ہیں‘‘ اسی طرح سندھ میں اس بار قانون کی ساری کارروائیوں کا رخ آصف زرداری کی طرف مڑتا نظر آتا ہے۔ آصف زرداری پر جیسے جیسے دباؤ بڑھ رہا ہے، ان کی پارٹی میں پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ وہ پارٹی جس کے سرکردہ ارکان اور لیڈران خود بھی احتساب کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں۔
آصف زرداری کبھی بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ان کے صرف دو ٹھکانے ہیں۔ وہ یا تو پرائم منسٹر ہاؤس میں رہتے ہیں یا پھر جیل میں۔ آصف زرداری گزشتہ پانچ برس کے دوران کبھی کراچی اور اسلام آباد تو کبھی دبئی میں رہے ہیں۔ اس بار ان کے ستارے گردش میں نظر آ رہے ہیں۔ حالات نے ان کے لیے صرف دو راستے چھوڑے ہیں۔ ایک راستہ جیل کی طرف جاتا ہے اور دوسرا راستہ خود ساختہ جلاوطنی کا ہے۔ آصف زرداری کس راستے کا انتخاب کریں گے؟ اس سوال پر پیپلز پارٹی کا پرو آصف زرداری حلقہ سوچ سوچ کر پریشان ہوگیا ہے۔ اس کے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ڈیل کرنے میں بڑی مہارت رکھنے والے آصف زرداری اس بار اپنی جان چھڑانے میں بھی کامیاب کیوں نہیں ہو رہے؟ پیپلز پارٹی میں موجود آصف زرداری کا حامی حلقہ بہت پریشان ہے۔ وہ سب کسی نہ کسی طرح سے احتساب کے نشانے پر ہیں۔ سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن ابھی تک اسپتال کو سب جیل بنا کر وہیں ٹھہرے ہوئے ہیں اور جو باہر ہیں، ان کی نیند نیب کے خطرناک خوابوں کی وجہ سے اڑ چکی ہے۔
پیپلز پارٹی کے اکثر لیڈران تو نیب کے ستائے ہوئے ہیں، مگر آصف زرداری کے خلاف ایف آئی اے سرگرم ہے۔ ایف آئی اے نے کافی وقت سے آصف زرداری کے خلاف جو تحقیق کی ہے، اس میں ان کے ہاتھ کافی ثبوت آئے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے پیسے سے دبئی اور لندن میں خریدی جانے والی پراپرٹی سے لے کر سندھ حکومت کے تعاون سے کھل کر کھانے والا اومنی گروپ اپنے ان ریکارڈز کو جلانے کی کوشش کر رہا ہے، جو مختلف شوگر ملز میں موجود ہیں، مگر ایف آئی اے نے کافی ریکارڈ اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ ایف آئی اے کے ذرائع اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس آصف زرداری اور ان کے قریبی حلقے کے خلاف اتنے ثبوت ہیں کہ اس بار آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کا بچنا ناممکن ہے۔ ایف آئی اے آصف زرداری، فریال تاپور اور اومنی گروپ کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ اگر چند دنوں میں آصف زرداری کے خلاف سپریم کورٹ میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ سنجیدہ صورت اختیار کر گیا اور سپریم کورٹ کی طرف سے بننے والی جے آئی ٹی کی کارکردگی ایسی ہی رہی، جیسی میاں نواز شریف کے لیے کی گئی تو آصف زرداری کیا کریں گے؟ کیا آصف زرداری قانونی سزا اور پارٹی قیادت سے نااہل ہونے سے بچنے کے لیے میاں نواز شریف کی طرح یہ سوچ کر مزاحمت کریں گے کہ ’’جارحیت بہترین دفاع ہے‘‘ یا وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کریں گے؟
آخر آصف زرداری کیا کریں گے؟ انہوں نے اب تک میڈیا میں ایسی کوئی بات نہیں کی، جس میں سنگین نتائج کی دھمکی ہو۔ وہ جب اپنی بہن کے ساتھ عدالت میں پیش ہو رہے تھے اور ان سے میڈیا والوں نے سوالات پوچھے تو انہوں نے موجودہ حکومت اور مقتدر اداروں کی طرف اشارہ کرنے کے بجائے صاف الفاظ میں کہا کہ ان کے خلاف مقدمے میاں نواز شریف کی حکومت نے بنائے ہیں۔ وہ ان مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے مجبور تو ہیں، مگر وہ عمر، صحت اور حالات کے حوالے سے اس موڑ سے گزر رہے ہیں جس موڑ پر وہ میاں نواز شریف کی مانند مزاحمت کرکے جیل جانا افورڈ نہیں کر سکتے۔ اس لیے وہ کچھ لو اور کچھ دو کی وہ پالیسی اپنانا چاہیں گے، جو ان کی پسندیدہ پالیسی رہی ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں فاروق ایچ نائیک نے ایک سے زائد بار کہا تھا کہ آصف زرداری کی یہ غلطی ہے کہ وہ سیاستدان ہیں۔ اگر وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں تو کیا اس بات کا احساس وہ اپنے اس مؤکل کو دلانے کی کوشش کریں گے جو اب تک پارٹی کی باگ ڈور بلاول کے ہاتھ میں نہیں دے رہے۔ اس وجہ سے موجودہ سیاست کے بہت سارے اہم فیصلے رکے ہوئے ہیں۔ آصف زرداری اگر سیاست کرنے کی ضد پر اڑے رہے تو انہیں میاں نواز شریف کے ساتھ کمپنی کرنی پڑے گی اور اس صورت میں ان سے پارٹی کی قیادت بھی جائے گی، اس لیے ان کے لیے وہ دوسرا راستہ بہتر رہے گا، جو راستہ دبئی جاتا ہے۔ ٭