ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی پاکستان سے امریکہ کے تعلقات میں خرابی اور سردمہری آنا شروع ہوگئی تھی اور ٹرمپ نے اپنے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق پاکستان کو دباؤ میں لانے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔ پاکستان پر افغانستان کے حوالے سے بے بنیاد الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو پاکستان سے افغانستان میں داخل ہو کر امریکی فوج کو نشانہ بناتے ہیں اور واپس پاکستان چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ امریکہ کا یہ الزام جھوٹ اور افواج پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے ایک بچکانہ ہتھکنڈے کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ امریکہ کو بھی اچھی طرح سے علم ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان سے آپریٹ ہوتا ہے، پاکستان سے نہیں اور اگر امریکہ کا دعویٰ واقعی درست ہے تو وہ تمام تر قوت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود اس چھوٹے سے افغانستان گروپ کو روکنے میں اب تک ناکام کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ دراصل افغانستان میں اپنی بدترین اور ذلت آمیز شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی انتہائی بھونڈی کوشش کر رہا ہے۔ کیونکہ طالبان نے افغانستان میں امریکی فوج کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر رکھا ہے۔
ٹرمپ نے پاکستان کی فوجی امداد بھی بند کی ہے تاکہ پاکستان دباؤ میں آئے، مگر پاکستانی فوج نے امریکی امداد کی بندش پر کسی قسم کی تشویش ظاہر نہیں کی، کیونکہ امریکہ کے ماضی کے غیر یقینی رویے کو دیکھتے ہوئے افواج پاکستان نے امریکی امداد اور ہتھیاروں پر انحصار کرنا چھوڑ دیا ہے۔ چین کے بھرپور تعاون کے بعد پاکستان اب دفاعی اعتبار سے خاصی پیشرفت کر چکا ہے اور امریکی امداد یا ہتھیاروں پر اس کا انحصار اب تقریباً ختم ہو چکا ہے، جبکہ پاکستان جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی کے حصول اور جدید ہتھیاروں کی تیاریوں میں خود کفالت کی جانب سفر کر چکا ہے اور اس ضمن میں پاکستان کو چین کے علاوہ جنوبی افریقہ، ترکی، جمہوریہ سلاواکیہ، بائیلوریا، یوکرائن، پولینڈ، اٹلی اور کئی دیگر ممالک سے جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی حاصل ہو رہی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے روایتی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ امریکہ میں پاکستانی فوجی افسران کی تربیت کے کئی پروگرام کو ختم کردیا ہے، جس کے باعث ایسے متعدد باہمی تربیتی اور تعلیمی پروگرام ختم ہوگئے ہیں جو ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے مضبوط دو طرفہ تعلقات کی بنیاد تھے۔ امریکی فیصلے کے مطابق اب کارلائل اور پنسلوانیہ کے وار کالجز میں رواں برس کوئی بھی پاکستانی فوجی افسر تربیت حاصل نہیں کر پائے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام (IMET) کے تحت رواں برس 66 پاکستانی فوجی افسران کو تربیت فراہم کی جانی تھی، مگر اب یہ مواقع ختم کئے جا رہے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان IMET پروگرام کئی عشروں سے جاری تھا اور سینکڑوں پاکستانی فوجی افسران اس سے مستفید ہو چکے ہیں، لیکن اب امریکہ کی جانب سے اس پروگرام پر قدغن لگائے جانے کے بعد نیول وار کالج اور نیول اسٹاف کالج میں بھی کسی پاکستانی فوجی افسر کو داخلہ نہیں دیا جائے گا۔ امریکی حکومت نے سائبر سیکورٹی اسٹڈیز پروگرام سے بھی پاکستان کو دور رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابھی تک امریکی حکام اس قسم کے تربیتی پروگراموں کو سیاسی اثرات اور دباؤ سے دور رکھتے چلے آرہے تھے، کیونکہ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اس پروگرام میں شامل غیر ملکی فوجی افسران امریکہ کے لیے دیرپا ثمرات کے حامل ہوتے ہیں۔
امریکی حکومت کا یہ فیصلہ اس کی بدنیتی اور پاکستان کے حوالے سے اس کی پالیسی کی روشن مثال ہے۔ کیونکہ امریکی حکومت کے منظور شدہ 2001ء کے Foreign Operation Apprapriation ایکٹ کے تحت ایسے ممالک کے فوجی افسران یا فوجیوں کو امریکہ میں تربیت دینے پر قدغن لگائی جاتی ہے، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں اور ان کی حکومت ان فوجی افسران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہی ہو، لیکن پاکستانی فوج پر اس طرح کا کوئی الزام نہیں۔ مگر اس کے باوجود ان کی تربیت پر قدغن لگانا امریکی منافقت اور دوغلے پن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسرائیل کے فوجی افسران کو امریکہ میں فوجی تربیت کی فراہمی سے کبھی نہیں روکا گیا۔ حالانکہ اسرائیلی فوج اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک سنگین قسم کے جرائم میں ملوث رہی ہے اور اس کا ریکارڈ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے، لیکن اس کے باوجود اسرائیل کو ہر برس 4 ارب ڈالرز سے زیادہ کی فوجی امداد، ہتھیار اور جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کی جاتی ہے۔ گویا امریکی خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کرکے دنیا کے سامنے تماشہ بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو امریکی اثر ورسوخ سے باہر آنا چاہیے اور ٹرمپ نے پاکستان کو سنہری موقع فراہم کیا ہے، جس کا پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاکستان کو بلاتاخیر روس سے حال ہی میں کئے گئے فوجی تعاون اور تربیت کے معاہدے کے تحت اپنے فوجی افسران کو تربیت کے لیے روس اور چین بھیجنا چاہیے، کیونکہ ٹرمپ اپنی احمقانہ پالیسیوں کے تحت پاکستان کو امریکہ سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، جو بالآخر خود امریکہ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور خاص کر افغانستان میں قیام امن میں پاکستان کا کردار عالمی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، جبکہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کو ضروری ساز و سامان کی ترسیل کا راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ اگر پاکستان نے سپلائی کا یہ راستہ بند کر دیا تو بقول سابق امریکی سفیر امریکی فوج کی افغانستان میں حالت ایسی ہوجائے گی، جیسا کہ پانی کے بغیر مچھلی کی ہوتی ہے۔ پاکستان کو بھی افغانستان میں امریکی سپلائی کے راستے کو فوری طور پر بند کر دینا چاہیے، تاکہ امریکہ کو پتہ چلے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت کیا ہے؟
امریکہ کئی برس سے پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی بنا رکھا ہے، جبکہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے اور وہ اس جنگ میں ناقابل تلافی نقصانات اٹھا چکا ہے۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہزاروں افسران اور جوان اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن امریکہ نے روایتی احسان فراموشی کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کے بجائے اس پر ڈومور کا دباؤ ڈال رکھا تھا، جس کو اب پاکستانی فوج نے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان سے ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے اور فوجی امداد، ہتھیاروں کی ترسیل اور فوجی افسران کی تربیت بند کرکے پاکستانی فوج سے انتقام لے رہا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن سے امریکہ سخت نا خوش ہے، لیکن اس ڈاکٹرائن نے پاکستان کو امریکہ کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت پاکستانی فوج نے امریکہ کے دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور امریکہ کو واضح پیغام دیا ہے کہ نومور جو کہ امریکہ کے ڈومور کا ایک مؤثر جواب ہے اور اس سے امریکہ سخت چراغ پا ہوا ہے۔
پاکستان نے برسوں امریکہ کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھ لیا ہے، امریکہ اپنی غرض کا غلام ہے، اس کے لیے اس کے مفادات ہمیشہ اہم رہے ہیں، لیکن افسوس کہ ہم نے ماضی میں امریکہ کو دوست تصور کرتے ہوئے اپنے مفادات کا خیال نہیں کیا۔ امریکہ پر حد سے زیادہ انحصار کیا، جس کے نقصانات پاکستان کو اٹھانا پڑے، مگر اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ سے تمام معاملات برابری کی بنیاد پر طے کئے جائیں اور ان معاملات کو طے کرتے ہوئے اپنے مفادات کو اولیت دی جائے، کیونکہ اس قوم کی عالمی برادری میں کوئی عزت نہیں ہوتی، جو اپنے مفادات اور حاکمیت اعلیٰ پر سمجھوتہ کرتی ہو۔ پاکستان نے ماضی میں ایسا کرکے ہمیشہ نقصان اٹھایا۔ امریکہ اپنی مطلب برآوری کے بعد پلٹ کر نہیں دیکھتا، لیکن جب اپنے مفادات ہوں تو پھر دم ہلاتا ہوا آجاتا ہے اور دوستی اور تعاون کا جھانسہ دیتا ہے۔
وقت اب تبدیل ہو رہا ہے، ماضی میں امریکہ کے اثرو رسوخ کے آگے کوئی نہیں بولتا تھا۔ امریکہ کو ہر مقام پر اہمیت حاصل رہتی تھی، لیکن اب امریکہ اپنی منافقانہ پالیسیوں کے باعث اپنا اثر ورسوخ کھو رہا ہے، جس کی واضح مثال امریکہ کی ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیوں کے اطلاق کے بعد اپنے دوستوں اور حلیفوں کو یہ مشورہ دینا تھا کہ وہ ایران سے تجارت اور خاص طور پر تیل کی تجارت نہ کریں، لیکن اس بار یورپی ممالک سمیت کئی دیگر ممالک نے امریکہ کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے اور ایران سے ناصرف تجارت بلکہ تیل کی خریداری بند کرنے سے بھی صاف انکار کردیا ہے۔ اس کی واضح مثال ترکی اور چین ہیں، جبکہ بھارت نے بھی ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک جن کے امریکہ سے قریبی تعلقات ہیں، امریکہ کی پابندیوں کو ماننے پر تیار نہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کو چین اور روس سے اپنے تعلقات کو بڑھانا چاہیے، ان دونوں کے ساتھ تعاون کو ہر سطح پر فروغ دینا چاہیے، کیونکہ امریکی دباؤ کا مقابلہ کرنے میں چین اور روس پاکستان کے لیے انتہائی مددگار ہو سکتے ہیں اور پاکستان کو بھی امریکی دباؤ سے نکلنے میں آسانی ہوگی۔ دنیا بھر میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان، چین، روس، ایران اور ترکی پر مشتمل پر ایک اتحاد کی تشکیل اب ناگزیر ہے۔ کیونکہ 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کے ہونے کے غرور میں مبتلا ہے اور شترے مہار کی طرح دنیا میں گھوم رہا ہے۔ اسے لگام دینے کے لیے یہ نیا اتحاد ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭