سازش کا طوفان اور خلیل جبران

لبنان کے رومانوی فلاسفر اور باشعور شاعر خلیل جبران کا جنم مشرقی کیتھولک گھرانے میں ہوا۔ جبران کی والدہ کمیلا ایک پادری کی بیٹی تھی۔ جبران کی ابتدائی پرورش مسیحی ماحول میں ہوئی۔ مگر جب اس پر شعور کا سورج طلوع ہوا اور محبت کے چاند نے اس پر چاہ سے چاندنی پھیلائی، تب وہ پوری انسانیت سے الفت کرنے لگا۔ وہ خلیل جبران جو دوستی کو موقعہ نہیں، بلکہ ذمہ داری سمجھتا تھا۔ وہ خلیل جبران جو شاعری کو مسکراہٹ اور آنسوؤں کا میلاپ سمجھتا تھا۔ وہ خلیل جبران جس نے اپنی مشہور کتاب ’’پیغمبر‘‘ میں زندگی کا سرکش، مگر خوبصورت تصور پیش کیا تھا۔ وہ خلیل جبران جس کی کتابوں سے لوبان کی نہیں، بلکہ بغاوت کی بو آتی ہے، مگر اس کے ایک ایک لفظ سے شہد ٹپکتا ہے۔ اگر مجھ سے کبھی پوچھا جاتا کہ خلیل جبران کو صرف دو الفاظ میں بیان کریں تو میںاعتماد، خوشی اور فخر سے لکھتا ’’میٹھی بغاوت‘‘
میرے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ ادب کی وادی میں جس ادیب کی انگلی تھام کر میں داخل ہوا تھا، وہ انگلی خلیل جبران کی تھی۔ میں نے خلیل جبران کی پہلی کتاب ’’ریت اور جھاگ‘‘ پڑھی تھی۔ یہ ایک نیند اور چین چرانے والی کتاب ہے۔ ممکن ہے میچوئر لوگوں کو یہ کتاب کم پسند آئے۔ کیوں کہ وہ کتاب جوانی کے بے چین دنوں کی باتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس کتاب کی میں کوئی بھی سطر انڈر لائن کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ کیوں کہ وہ ساری کتاب انڈر لائن کرنے جیسی تھی۔ حرف اول سے لے کر حرف آخر تک۔ پوری کتاب پیار کی الجھی اور سلجھی داستان تھی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں خلیل جبران کا پکا پرستار بن گیا اور آج بھی اس کی یاد مجھ پر اس طرح اترتی ہے، جس طرح گرمیوں کے موسم میں پہاڑی وادیوں پر بادل اترتے ہیں۔ جس طرح سردیوں میں نیلی جھیل کی جھل مل کرتی لہروں پر پردیس سے اڑ کر آئے ہوئے سفید رنگ کے مسافر پرندے اترتے ہیں۔ جس طرح صحرا میں بارش اترتی ہے۔ جس طرح شاعر پر پہلا شعر اترتا ہے۔ جس طرح ایک بوڑھے جہازی پر زندگی کے اداس ساحل کا آنچل اتر آتا ہے۔ جس طرح خواب اترتے ہیں۔ جس طرح محبت میں مدہوش عذاب اترتے ہیں…!!
مجھے نہیں معلوم کہ کس عرب شاعر نے لکھا تھا کہ ’’جب حال کی گرم دھوپ میں چلتے چلتے میرے پاؤں جلنے لگتے ہیں، تب میں ماضی کی طرف لوٹ جاتا ہوں۔ اس ماضی کی طرف جہاں محبت کے ٹھنڈے سائے ہمیشہ میرے منتظر رہتے ہیں۔‘‘ اسی طرح جب بھی کوئی کیفیت میرے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ جب میرا ضمیر زمانے سے الجھنے لگتا ہے۔ جب بھی دنیا میں کوئی فتنہ فساد کی سازش سوچتا ہے۔ جب بھی انسانیت کو کسی طرف سے خطرے کا سامنا ہوتا ہے۔ جب بھی دھرتی کے کسی کونے پر نفرت کی آگ جلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور دھویں سے بچوں کی آنکھیں بھرنے لگتی ہیں۔ جب بھی پھولوں کو مسلنے اور کلیوں کو کچلنے کا بندوبست ہوتا ہے۔ جب بھی دنیا کو نفرت کی نگری میں دھکیل دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ جب بھی امن کی انگلیاں جلنے لگتی ہیں۔ جب بھی دنیا پر خون کی بارش برسانے کی کوشش ہوتی ہے۔ تب سب سے پہلے مجھے خلیل جبران کی یاد آتی ہے۔ اس وقت مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں اس وقت خلیل جبران کی سخت ضرورت ہے۔ وہ خلیل جبران جو اپنا قلم اس طرح اٹھائے، جس طرح سارے رنگوں کو اپنی روح میں سما کر ایک مصور برش اٹھاتا ہے۔ جس طرح سوئے ہوئے بچوں کو اپنے سموں سے کچلنے کے لیے وحشی گھوڑے اپنے وحشی سواروں کے ساتھ بستی میں داخل ہوں اور ایک سرفروش سپاہی اپنا ہاتھ تلوار کی طرف
بڑھائے۔ اسی طرح مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی دیسی اور پردیسی سازش تیار ہوتی ہے، اس وقت اس دنیا کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے خلیل جبران جیسے خوبصورت ذہن اور ضمیر کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔
یہ بات ابھی کی نہیں ہے۔ جب پہلی بار مسلمانوں کے دل میں آگ لگانے کے لیے یورپ میں حضرت محمدؐ کے توہین آمیز خاکے شائع ہوئے تھے، اس وقت بھی مجھے خلیل جبران کی بہت یاد آئی تھی۔ اس وقت بھی میں نے سوچا تھا کہ اگر اس دور میں خلیل جبران ہوتے تو وہ اس شرم ناک سازش پر کس قسم کے رومانوی ردعمل کا اظہار کرتے۔ اس وقت بھی یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر نیندر لینڈ کا بدنام زمانہ سیاستدان گیرٹ ولڈرز ایسی گھٹیا اور اوچھی حرکت کرتا تو کیا خلیل جبران یہ سوچ کر خاموش رہتا کہ اس کا تعلق اسلام سے نہیں ہے؟ جس جس نے خلیل جبران کو پڑھا ہے، اس کو معلوم ہے کہ محبت اور انسانیت کو اپنا مذہب سمجھنے والے خلیل جبران کو مسلمان صوفیوں سے کس درجہ محبت تھی!
مسلمان صوفیوں کے تصوف کا مرکز عشق رسولؐ ہے۔ وہ محبت بھی کرتے ہیں تو اس کی خوشبو اس طرف سے آتی ہے، جس طرف مسجد نبویؐ ہے۔ وہ جب بھی سوچتے ہیں اور جب بھی محسوس کرتے ہیں، ان کے دل کے غار حرا میں عشق رسولؐ کی صدا گونجتی ہے۔ مسلمان صوفیائے کرام نے محبت کا چراغ جلا کر حق کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ایسا نہیں کہ صوفیائے کرام کو علم سے محبت نہیں تھی۔ اکثر صوفیاء اپنے دور کے بہت بڑے عالم تھے ۔ ان کے ذہن تاریخ اور منطق کے علم سے منور تھے۔ مگر وہ روح کے سفر میں ایک منزل پر پہنچ کر محسوس کرتے تھے کہ اب یہاں سے آگے بڑھنے کے لیے علم میں طاقت نہیں۔ اس لیے وہ عشق کو پکارتے تھے۔ خلیل جبران کو مسلمان صوفیائے کرام کے اس عشق سے عشق تھا۔ خلیل جبران عاشقوں کا عاشق تھا۔ وہ عاشق جو دنیا اور دنیا کی لذتوں کے نہیں، بلکہ اس ہستی کے عاشق تھے، جس ہستی نے اندھیری دنیا میں علم اور شعور کے کبھی نہ بجھنے والے چراغ روشن کیے۔ مسلمان صوفیوں کی صحبت اور اس صحبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محبت سے خلیل جبران کی روح میں ہمیشہ وہ مہک رہا کرتی تھی، جو لبنان کی وادیوں میں پت جھڑ کی ہواؤں میں ہوتی ہے۔ جو پہلے پیار کے باعث برسنے والی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ وہ خوشبو جو علم اور عشق کے سنگم سے جنم لیتی ہے۔
خلیل جبران کے آس پاس اور اس کی زندگی میں کبھی ایسی گندی اور گھٹیا سازش نہیں ہوئی، جیسی اکیسویں صدی میں یورپ کے چند ممالک میں چند فتنہ پرست افراد کر رہے ہیں۔ اس بات کو یا ایک عام مسلمان محسوس کر سکتا ہے یا ایک مغرب کا ایک بہت بڑا عالم کہ مسلمان دنیا میں پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کا مرتبہ کیا ہے؟ مسلمانوں کے لیے محبت کی معراج اپنے نبیؐ سے اندر میں لگی وہ لگن ہے، جو انہیں چین اور سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ ایک مسلمان کی اپنے پیغمبرؐ سے محبت ایسی ہوتی ہے، جس محبت میں عزت کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ عیسائی بھی اپنے پیغمبر سے محبت کرتے ہیں، مگر اس محبت میں عقیدت کا وہ پہلو کم ہوتا ہے، جس کی بنیاد ناقابل بیان عزت پر رکھی ہوتی ہے۔ ہندو بھی اپنے اوتاروں سے محبت کرتے ہیں، مگر وہ محبت بہت ہلکی پھلکی اور بے تکلف قسم کی ہے۔ مگر مسلمانوں کا اپنے پیغمبرؐ سے پیار عزت کی گہرائیوں سے اٹھنے والا ایسا طوفان ہے، جیسا طوفان پہاڑی چوٹیوں سے ٹکراتا ہے۔ جیسا طوفان دور سمندروں کے سینوں میں اٹھتا ہے۔
اور اس بات کا خلیل جبران کو نہ صرف علم تھا، بلکہ اسے اس بات کا شدید احساس بھی تھا اور اس احساس سے فکری توانائی لے کر خلیل جبران خوبصورت خیالات کو خوبصورت انداز سے پیش کرتا تھا۔ خلیل جبران نے اس بات کا کھل کر اعتراف نہیں کیا، مگر خلیل جبران کے ہر سچے قاری کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ مسیحی گھر میں جنم لینے والے خلیل جبران کے دل میں ایک مسلمان صوفی بھی تھا اور اس مسلمان صوفی کو پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ سے غیر مشروط محبت تھی۔ اگر حضور اقدسؐ کی شان میں گستاخی کی یہ حرکت خلیل جبران کے دور میں کی جاتی یا اس دور میں خلیل جبران جینے کی سزا برداشت کرتے تو وہ اس سازش کو نظر انداز نہ کرتے اور اپنے ساز جیسے قلم کو ہتھیار بنا کر ان غلیظ افراد پر حملہ کرتے، جنہوں نے دھرتی کو اپنے بے ہودہ وجود کی بدبو سے بھر دیا ہے۔ وہ انسان نہیں اور جانور بھی نہیں۔ کیوں کہ جانور بھی برے نہیں ہوتے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں محبت کے چراغ روشن رہتے ہیں۔ جانور کبھی سازش نہیں کرتے۔ جانور کبھی اپنی انا کی تسکین کے لیے معاشروں کو مقتل میں تبدیل نہیں کرتے۔ وہ افراد جانور نہیں ہو سکتے۔ وہ افراد جن کی صورت تو انسانوں سے ملتی جلتی ہے، مگر ان کی روح میں نفرت کی دوزخ جلتی ہیں۔ وہ نفرت کے بیوپاری اس دنیا کو دوزخ کی آگ میں جلانا چاہتے ہیں۔ ایسے افراد سے بیزاری ہر انسان کا حق ہی نہیں، بلکہ فرض بھی ہے۔ وہ انسان جو مذہبی مخالفت کے لبادے میں انسانیت کے اقتدار کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے خلیل جبران کتنے کڑوے الفاظ لکھتا؟
خلیل جبران کوشش کرتا تھا کہ اس کے علم اور ادب کے دامن پر نفرت کا کوئی داغ نہ لگے، مگر محبت کو محفوظ رکھنے کے لیے جب ایک عظیم ادیب میدان میں اترتا ہے، تب اس کے سامنے رکھے ہوئے کورے کاغذ پر ایسے الفاظ ابھرنے لگتے ہیں کہ:
’’خوبصورتی چہرے میں نہیں ہوتی۔ خوبصورتی دل کی روشنی میں ہوتی ہے۔‘‘
’’ایمان دل کا وہ علم ہے، جو ثبوت سے ماوارا ہوتا ہے۔‘‘
’’آزادی کے بغیر زندگی روح کے بغیر جسم جیسی ہے۔‘‘
’’اپنی دل کے گہرائی میں دیکھو۔‘‘
’’اگر تمہارے دل میں آتش فشاں ہے تو تم پھولوں کے کھلنے کی امید کس طرح کر سکتے ہو؟‘‘
’’اداسی تو باغوں کے درمیاں ایک دیوار ہے۔‘‘
’’ایک باتونی پر صرف ایک بہرہ رشک کر سکتا ہے۔‘‘
ایسے الفاظ صرف خلیل جبران ہی لکھ سکتا ہے۔ اگر اس خلیل جبران کو توہین رسالت کے خلاف قلم جنبش میں لانا پڑتا تو وہ کیا لکھتا؟ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment