مسلمانوں کے بھرپور احتجاج اور حکومت پاکستان کے دوٹوک مؤقف کے بعد بالآخر ہالینڈ میں ہونے والے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کر دیا گیا۔ ہالینڈ کے اسلام دشمن شدت پسند سیاستدان گیرٹ ویلڈرز ملعون نے بارہ جون کو اعلان کیا تھا کہ رواں برس کے آخر میں یہ ناپاک پروگرام ڈچ پارلیمنٹ میں منعقد کیا جائے گا۔ پھر دنیا بھر کے گستاخ کارٹونسٹس کو اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دی گئی، جس پر دو سو گستاخ کارٹونسٹس نے خاکے بنا کر گیرٹ ملعون کو بھیج دیئے تھے۔ باس فاسٹن نامی ایک البانوی نژاد گستاخ کو اس مقابلے کا جج مقرر کیا گیا تھا، جو تین سال قبل امریکی ریاست ٹیکساس میں ہونے والے ایسے ہی ایک گستاخانہ مقابلے میں اول آیا تھا۔ ملعون باس فاسٹن کا دعویٰ ہے کہ وہ پیدائشی مسلمان تھا، لیکن بعد میں مرتد ہوگیا۔ گیرٹ ملعون نے پہلے بھی اسلام مخالف ’’فتنہ‘‘ فلم بنا کر اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی۔ پھر حالیہ شر انگیزی نے تو مسلمانوں کے دل چھلنی کردیئے تھے اور پورا عالم اسلام ایک اضطراب میں مبتلا ہوگیا تھا۔ ان گستاخانہ مقابلوں کا وقت جوں جوں قریب ہوتا گیا، اہل اسلام کی بے چینی بڑھتی گئی۔ گزشتہ جمعہ کو ملک بھر میں دینی جماعتوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور ہالینڈ سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ پھر تحریک لبیک نے لاہور سے اسلام آباد مارچ شروع کردیا۔ جوں ہی مارچ کے شرکا راولپنڈی کے قریب پہنچے تو ملعون گیرٹ ویلڈرز نے ہتھیار ڈال دیئے اور اس نے فتنہ انگیز مقابلے منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ ملعون نے کہا کہ مقابلے کے انعقاد پر دھمکیاں اپنے عروج پر ہیں۔ اسے ڈر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ’’جنونی مسلمانوں‘‘ کو روک نہیں پائیں گے اور اس قتل عام کی ذمہ داری کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔ اس مقابلے کی وجہ سے میرے علاوہ ہالینڈ بھی مسلم انتہا پسندوں کا ہدف بن گیا ہے اور میں اپنے ملک تو تشدد کا شکار ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ ’’اسلامی خونریزی‘‘ سے بچنے کیلئے میں یہ مقابلہ منسوخ کررہا ہوں۔ ملعون گستاخ گیرٹ نے اعتراف کیا کہ پاکستان کے ایک عالم (علامہ خادم حسین رضوی) نے اس کے خلاف قتل کا فتویٰ دیا ہے اور ایک پاکستانی شخص (چوہدری جنید لطیف گجر) اسے قتل کرنے کی نیت اور اعلان کے ساتھ ہالینڈ میں داخل ہوا، جسے گرفتار کیا گیا، جبکہ ایک پاکستانی (کرکٹر خالد لطیف) نے اس کے سر کی قیمت بھی مقرر کی ہے۔ ملعون گیرٹ ولڈرز کو اپنے انجام بد کا یقین ہے، مگر پھر بھی اس نے اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد کو نئے عزم کے ساتھ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ملعون گیرٹ کی زندگی جیتے جی جہنم بن چکی ہے۔ خوفزدہ گیرٹ نے گزشتہ بارہ سال سے خود ساختہ نظر بندی اختیار کر رکھی ہے۔ دنیا کے اس بزدل ترین فرد کو مردآہن کہا جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ گیرٹ نے خود کو فولاد کے خول میں بند کر رکھا ہے۔ یہ سر سے پیر تک فولادی زیر جامہ پہنے رہتا ہے اور سوتے وقت بھی اسے نہیں اتارتا۔ اسی بنا پر کئی جلدی امراض میں مبتلا ہے۔ اس کے دفتر اور گھر کی بیرونی دیواریں کنکریٹ میں فولاد کی چادریں چن کر بنائی گئی ہیں، اس کی خواب گاہ ڈیڑھ فٹ چوڑی فولادی چادروں سے بنائی گئی ہے۔ اس کی اہلیہ کو بھی ملاقات سے پہلے جامہ تلاشی کی ذلت سے گزرنا پڑتا ہے اور اسی بنا پر میاں بیوی کے درمیان بالمشافہ گفتگو ہفتے میں صرف ایک بار ہوتی ہے۔ اپنی ذلت آمیز زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے خود گیرٹ نے کہا کہ وہ اپنے بدترین دشمن کیلئے بھی ایسے عذاب کی خواہش نہیں رکھتا۔ گیرٹ ولڈرز کے ناپاک منصوبے کی منسوخی صرف مسلمانوں کی کامیابی نہیں، بلکہ یہ دنیا کے ان سارے لوگوں کی فتح ہے، جو بلا امتیاز مذہب و ملت تمام عقائد کا احترام کرتے ہیں۔ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں اور ان کے عقائد کی توہین دہشت گردی کی بدترین قسم ہے۔ تاہم مقام شکر ہے کہ ایمان وعقیدے کے اس حساس ترین مسئلے کو حل کرنے میں پاکستانی عوام اور حکومت نے بھی کلیدی کردار ادا کیا، اس توفیق خداوندی پر ہمیں شکر بجالانا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان کے دوٹوک مؤقف اور سینیٹ کی تقریر کو عالمی میڈیا میں بھرپور کوریج دی گئی۔ حکومت نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور دو صوبائی اسمبلیوں سے قرارداد منظور کی گئی۔ وزیر خارجہ کے سولہ مسلم ممالک کے سفرا کو فون، ہالینڈ کے سفیر سے رابطہ، دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ کی جانب سے بیانات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کامیابی پر حکومتی کارکردگی کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ مگر اصل کام اب بھی باقی ہے۔ جیسے کہ ملعون گیرٹ ولڈرز نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے اور نائن الیون کے بعد مغرب کا یہ وتیرہ بھی بن چکا ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد گستاخی کی کوئی نئی مہم شروع کی جاتی ہے۔ مغرب میں اسلام کا راستہ روکنے کیلئے اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ اس لئے ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ او آئی سی کے ستاون اسلامی ممالک کو اس حساس معاملے پر یکجا کرے۔ تمام مسلم ممالک مل بیٹھ کر اس کے مستقل حل کیلئے کوئی لائحہ عمل بنائیں۔ پھر یک زبان ہو کر ناموس شان رسالت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے فورم پر آواز اٹھائی جائے اور ایسی قانون سازی کی راہ ہموار کی جائے، جس کی رو سے تمام مقدس ہستیوں کی توہین کو عالمی سطح پر ناقابل معافی جرم تسلیم کیا جائے۔ دنیا کو باور کرایا جائے گا کہ مسلمان اپنے پیارے نبیؐ کے ساتھ کس درجہ محبت کرتے ہیں۔وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں، مگر شان رسالت کی ادنیٰ توہین برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لئے شان اقدس میں بار بار کی گستاخی امن عالم کے تہہ و بالا ہونے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے، مگر ان کی کوششوں سے ہولوکاسٹ کے خلاف کوئی لب کشائی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا مسلم ممالک کی کوششوں سے تحفظ ناموس شان رسالت کاعالمی قانون بھی بن سکتا ہے۔ شان رسالت میں گستاخی کرکے اہل مغرب ہمارے ایمان کو بھی جانچنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وقت کی ضرورت ہے کہ ہر مسلمان اپنے دین اور اپنے پیارے نبیؐ سے اپنا تعلق مضبوط بنائے اور اپنی اولاد کے دین و ایمان کی فکر کرے۔ انہیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے گمراہ کن اور غلیظ مواد سے بچانے کی تدبیر کرے۔ اسوئہ رسولؐ کو اپنائے اور سیرت پاک کا مطالعہ معمول بنائے۔ اسی صورت میں ہم دشمن کے عزائم کو ناپاک بنا سکتے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭