لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
اسلام میں حکمت سے کام لینے کی بڑی سخت تاکید ہے۔ حکمت کوخیر کثیر کہا گیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں عقل دشمنی کا کلچر رائج ہے۔ جس کی ہمیں سخت سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ دنیا کی کچھ اقوام ایسی ہیں جو حکمت سے کام لیتی ہیں۔ ان کے عوام کو زندگی کی بہت سے سہولتیں اور آرام راحت میسر ہیں۔ ان میں ناروے، نیوزی لینڈ، فن لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر ممالک محض برف کدے ہیں اور وہاں زندگی کے وسائل کی وہ فراوانی نہیں، جو پاکستان میں ہے۔ یہاں ہم عقل دشمنی کی چند مثالیں اور ان کے برے نتائج بیان کرنا چاہتے ہیں۔ آج سے چند سال قبل لاہور میں طاہر القادری کی پارٹی کے لوگ مظاہرہ کر رہے تھے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ شروع کر دی۔ چودہ افراد ہلاک ہوگئے۔ چالیس کے قریب زخمی… پچھلے ہفتے فیصل آباد میں پولیس نے دو نوجوانوں پر فائرنگ کر دی۔ دونوں فوری ہلاک ہو گئے۔ معلوم کرنے سے پتہ چلا کہ دونوں نے حال ہی میں میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ دونوں نو عمر طالب علم تھے۔ ہر سال اس طرح کے درجنوں واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ شہری بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ عوام میں حکومت اور پولیس کے خلاف سخت نفرت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بعض حالات میں اچھا خاصا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ وزیر جھوٹ پر جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پولیس اگر فائرنگ نہ کرتی تو زبردست نقصان ہوتا… اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔
پولیس کے پاس جو ہتھیار رائفلیں ہیں، وہ پرانے زمانے کی ہیں۔ ان سے نکلی ہوئی گولی کا سائز بہت بڑا ہوتا ہے۔ کسی آدمی یا جانور کو لگ جائے تو وہ فوری ہلاک ہو سکتا ہے۔ اپنے شہریوں کو ہلاک کرنا پرلے درجے کی حماقت اور بے حسی ہے۔ اس کی دو علاج ہیں۔ پہلا حل تو یہ ہے کہ گولی کا سائز چھوٹا کر دیا جائے۔ اس کے لئے نئی رائفلیں درکار ہوں گی۔ جن کا بور یا قطر کم ہوگا۔ دوسرا حل یہ ہے کہ گولیاں دھڑ پر نہ ماری جائیں۔ ٹانگوں پر ماری جائیں۔ تیسرا حل یہ ہے کہ دھات کی گولی کی جگہ، ربڑ یا پلاسٹک کی گولیاں استعمال کی جائیں۔ مضروب زخمی ہو جائے گا۔ مرے گا نہیں۔ ایسی گولی اگر کسی مجرم یا ڈاکو کو لگ جائے وہ زخمی پکڑا جائے تو پولیس کو مزید معلومات دینے لگے گا۔ ربڑ یا پلاسٹک کی گولیاں کئی ممالک میں زیر استعمال ہیں۔
اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی میں عقل دشمنی کے مظاہرے عام ہیں۔ جن کا نقصان لاکھوں کروڑوں عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میڈیا کے نوجوان صحافی بہت بیدار ہیں۔ وہ جعلی پیر، فقیر، جعلی حکیم ڈاکٹر، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، افسروں کی کوتاہی اور لاپروائی سمیت کالے کرتوتوں کو بہت احسن طریقے سے بے نقاب کر رہے ہیں۔ ایک صحافی نے ایک چینلز پر گورنر اسٹیٹ بینک کو للکارتے ہوئے کہا: گورنر صاحب! آپ نے اپنی چھوٹی سی نوکری بجانے کے لئے عوام کے اربوں روپے کا نقصان کردیا۔ اب گورنر اسٹیٹ بینک پر لازم ہے کہ وہ اپنی صفائی پیش کرنے عدالت کا دروازہ کھٹکٹائیں۔ کیونکہ اس الزام سے عوام کے ذہنوں میں ان کا تاثر (امیج) بہت خراب ہوا ہے۔ اتنا بڑا افسر عزت کے اونچے پہاڑ پر کھڑا ہوتا ہے۔ میڈیا کے مطابق کراچی میں بھی ایک نوجوان شہری نقیب محسود کو جھوٹے پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ خدا کی لعنت ہو ان لوگوں پر اور ان کے حمایتوں پر جو بے گناہ افراد کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ یا غذا میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ ان کی بے حیائی اور بے حسی سے پاکستان کا شمار ظالم ملکوں میں ہوتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭