اقتدار سے دستبردار ہونا مشکل کام ہے، لیکن… (آخری حصہ)

سلطان میزان زین العابدین نے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم اپنی ریاست میں حاصل کی اور اس کے بعد آسٹریلیا سے انٹر نیشنل ریلیشن میں گریجویشن کی۔ اس کے علاوہ انگلینڈ کی مشہور فوجی اکیڈمی ’’رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ‘‘ سے تعلیم حاصل کی۔ 1984ء میں انہیں رائل کیولری میں لیفٹیننٹ مقرر کیا گیا۔ 1988ء میں والد کی وفات کے موقع پر انہیں ترنگانو کا سلطان مقرر کیا گیا۔ وہ ملائیشیا کے سب سے کم عمر سلطان مقرر ہوئے تھے۔ اب وہ 44 برس کی عمر میں تیسرے نمبر پر کم عمر بادشاہ ہیں۔ ان سے پہلے کیداح ریاست کے سلطان تیانکو عبد الحلیم 43 برس اور سلطان تیانکو سید پترا 40 برس کی عمر میں بادشاہ بنے تھے۔
آج کے بادشاہ سلطان میزان زین العابدین پہلے بادشاہ ہیں، جو ملائیشیا کو خود مختاری ملنے کے بعد پیدا ہوئے۔ ان سے پہلے بننے والے بادشاہ ملائیشیا کو خود مختاری ملنے (1957ئ) سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔ سلطان میزان زین العابدین کی شادی سلطانہ نور زہرہ سے 1996ء میں ہوئی۔ یہ ملائیشیا کی دوسری ملکہ ہیں، جو ہمیشہ حجاب میں رہتی ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ شہزادی نادرہ، شہزادہ محمد اسماعیل، شہزادہ محمد معیز اور شہزادی فاطمہ زہرہ۔
کہاجاتا ہے کہ اقتدار بہت بڑی شے ہے۔ ہمارے ملکوں میں، خاص طور پر مسلم ممالک میں ایک مرتبہ کسی کو اقتدار حاصل ہو جائے، پھر وہ مرکر ہی اس کی جان چھوڑ تا ہے۔ لیکن یہاں ملائیشیا اور سنگاپور میں، میں نے گزشتہ نصف صدی کے دوران انداز ہی نرالہ دیکھا ہے۔ اس قدر طاقتور بادشاہ (Tuan Agong Yang di Per,r) جس کی لفظی معنی ’’بادشاہ سلامت‘‘ سے بھی افضل ہے… اور یہ جو جہان پناہ بنے بیٹھے ہیں اور عوام انہیں {{(Ke Bawah Duli Yang Maha Mulia ( کہتے ہیں یعنی ’’ہم آپ کے پیروں کی خاک ہیں۔‘‘
(The Dust Under The Feet Of His Exalted Highness) ملک کا ایک طاقتور ترین شخص اپنے اقتدار کی پنج سالہ مدت پوری ہونے کے بعد خاموشی سے اپنے گھر چلا جاتا ہے۔
وزیر اعظم مہاتیر محمد چاہتے تو عوام انہیں وزیر اعظم بننے کے لئے ووٹ دیتے رہتے۔ لیکن وہ خود ہی اقتدار سے الگ ہوگئے، تاکہ اب نوجوان سیاستدان ملک کا کاروبار چلائیں۔ اس مرتبہ ان کے گھر الوراسٹار جانے کے بجائے پترا جایا ہی میں ان سے ملاقات ہوگئی۔ ان کی طبیعت ناساز تھی۔ ظاہر اب عمر بھی کافی ہو چکی ہے۔ وہ تصاویر میں ضرور کم عمر لگتے ہیں، لیکن 93 برس کے ہو چکے ہیں۔ مقامی لوگ انہیں دیوتا کا درجہ دیتے ہیں۔ لیکن وہ اس طرح ملے جیسے کبھی وزیر اعظم رہے ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب مہاتیر محمد وزیر اعظم تھے اس وقت بھی وہ ایک عام انسان ہی معلوم ہوتے تھے۔ عید اور سال نو کے موقع پر ان کے گھر کے دروازے کھلے رہتے تھے۔ امیر، غریب، کسان، مزودر، دکاندار، ہر ایک ان سے ملنے کے لئے آتا تھا۔ میں ہر ملاقات میں ان کے کئی فوٹو بناتا تھا۔ ایک مرتبہ گلوب سلک اسٹور کے سندھی ہندو مالک تان سری کشو کے ماموں وکیل مل لاکھیانی کے ہاں ایک فیملی ڈنر میں مہاتیر محمد کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے میں نے اپنے بچوں کے ساتھ ان کا فوٹو بنانے کے لئے کیمرہ نکالا تو معلوم ہوا کہ اس کا سیل ختم ہو چکا ہے۔ مجھ سے زیادہ وہ پریشان ہوگئے۔ مسٹر لاکھیانی نے فوراً اپنے ڈاکٹر بیٹے کو دوڑایا اور وہ سیل لے آیا۔ پھر میں نے ان کی کئی تصویریں بنائیں۔ ان میں سے کچھ فوٹوز میرے ملائیشیا کے ان سفر ناموں میں چھپ چکے ہیں جو 1980ء والی دہائی میں شائع ہوئے تھے۔ اب حالیہ انتخابات میں مہاتیر محمد دوبارہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔
سنگاپور کے ایک وکیل لی کیان بیو تھے جو اس ملک کے وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے چوروں، لٹیروں، نوسرباز اور دو نمبر مال فروخت کرنے والوں کے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ 1970ء کا عشرہ ایسا تھا جب وہاں کے لوگ خود کو سنگاپوری کہلاتے ہوئے شرم محسوس کرتے تھے۔ اس ملک کو مسٹرلی کیان یو نے ایسا بنا دیا کہ آج سنگاپور کا پاسپورٹ رکھنے والوں کو امریکا کے ویزا کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ صرف ٹکٹ خرید کر امریکا، انگلینڈ، جاپان جاسکتے ہیں۔ امریکا والے بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اب سنگاپور اس قدر خوشحال ہوچکا ہے کہ ان کے اپنے امریکین بھی امریکا کو چھوڑ کر سنگاپور میں سکونت اختیار کرنے کی خوش نصیبی تصور کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے میں ایک سنگاپوری امریکا میں کیوں ٹھہرے گا؟ سنگاپور کے ان سابق وزیر اعظم کو بھی وہاں کے عوام دیوتا کی طرح پوجتے ہیں۔ انہوں نے بھی مدت پوری ہونے پر وزارت عظمیٰ چھوڑی دی۔ حالانکہ عوام اپنے محبوب لیڈر کو مزید مدت کے لئے وزیر اعظم دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنے عوام کو سمجھایا کہ اب کسی دوسرے کو موقع ملنا چاہیے، باقی ان کے مشورے ہر وقت حاضر ہوں گے۔
سو ملائیشیا میں بھی نہ صرف عوام، بلکہ بادشاہوں کے لئے بھی قاعدے اور قانون مروج ہیں۔ ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ مدت پوری ہونے پر شور شرابہ کرنے کے بجائے عزت سے اقتدار سے الگ ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ قانون بھی ہے کہ جو ملک کا بادشاہ ہوگا، وہ اس مدت کے دوران اپنی ریاست کا سلطان نہیں رہے گا۔ اس لئے وہ اپنے بیٹے کو مقرر کرتے ہیں۔ سو آج کل ریاست ترنگانو کے سلطان میزان زین العابدین ملک کے بادشاہ ہیں اور انہوں نے ریاست کے راجا کے طور پر اپنے بڑے بیٹے شہزادہ اسماعیل کو مقرر کیا ہوا ہے۔ لیکن شہزادہ ابھی کم عمر ہے۔ اس لئے محض آٹھ سالہ راجہ کی مدد اور ریاست کا نظم ونسق چلانے کے لئے تین ممبرز پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے۔ ان کے سرپرست بادشاہ کے بڑے بھائی راجا تنکو بدر الزماں ہیں۔
جس طرح ہمارے ہاں سندھ، پنجاب اور دیگر صوبوں کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اسی طرح ملائیشیا کی ہر ریاست میں بھی وزیر اعلیٰ ہیں، جو منتری بیسار کہلاتے ہیں۔ ترنگانو ریاست کے لئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ریاست کا سلطان کرتا تھا، لیکن سباح اور سرواک کے اختلاط اور ملائیشیا کے وجود میں آنے کے بعد اسمبلی کے الیکشن کے بعد وزیر اعلیٰ منتخب کیا جاتا ہے۔ اسّی والے عشرے میں، میں ملائیشیا میں رہتا تھا۔ اس وقت ریاست کے وزیر اعلیٰ تان سری وان مختار احمد تھے۔ آج کل داتک احمد سعید ہیں۔ وہ 1957ء میں پیدا ہوئے اور انہوں نے یونیورسٹی سائنس ملائیشیا سے گریجویشن کی۔
اس مضمون کے آغاز میں، میں نے اپنے ملاکا کے آفس میں کام کرنے وال چند لڑکیوں کے نام سے پہلے چک اور آخر میں پیان لکھا ہے۔ ملئی لفظ چک (Cik) کنواری لڑکیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح انگریزی میں ’’مس‘‘ کہتے ہیں۔ لفظ ’’پیان‘‘ شادی شدہ عورتوں کے نام کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس طرح انگریزی میں مسز اور ہمارے ہاں بیگم لکھا جاتا ہے۔ مرد کنوارہ ہو یا شادی شدہ، اس کے لئے ایک ہی لفظ ’انچک‘‘ ہے۔ البتہ بزرگ مردوں کے لئے یا کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ عالم، مولوی کے لئے لفظ تیان (Tuan) استعمال ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ پھر یاد دلاتا چلوں کہ ملئی لفظ زبان میں {{{{{{{{(C) کا حرف (چ) کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ملئی زبان میں ’’ش‘‘ کے تلفظ کے لئے (Sh) نہیں، بلکہ (Sy) لکھا جاتا ہے۔ مثلاً ملئی لفظ ’’اشارہ‘‘ (Isyara)، یہ لفظ وہی معنی رکھتا ہے۔ جو ہمارے ہاں لفظ ’’اشارہ‘‘ ’’اشارے‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment