’’مٹھے پتر‘‘

سب ہی وطن کی خدمت کرتے ہیں، یہ جس جوان کی لاش بجلی کے کھمبے سے لٹکی ہوئی ہے، یہ بھی شہید ہے، اس نے بھی فرض پر جان قربان کی ہے، اس کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہوں گے، بوڑھے ماں باپ ہوں گے، پیار کرنے والی بیوی ہوگی، لیکن اس کے لئے کچھ بھی نہیں، کوئی تمغہ نہ زمین، اخبار میں بھی پچھلے صفحے پر یا اندر کے کسی صفحے پر ایک کالم خبر سے زیادہ کی جگہ نہ ملی اور میڈیا میں تو یہ جگہ بھی نہ ملی، کسی چینل نے ایک دو بار پٹی چلا دی چلا دی، اس سے زیادہ اس کی جان کی قیمت نہیں‘‘۔ کلین شیو نوجوان نے ہاتھ میں پکڑا اخبار لہرایا۔ اس کی آواز خاصی اونچی اور لہجہ جوشیلا تھا۔ وہ کسی جذباتی وکیل کی طرح دلائل دے رہا تھا اور سب ہی خاموش تھے۔ کمپارٹمنٹ میں بس تیز گام کے چھکا چھک چھک چھک چلنے کی آواز آرہی تھی اور اس پرانی بوگی میں تو کچھ زیادہ ہی شور تھا۔ اس کے مقابلے میں اس کے آگے پیچھے گرین لائن ایکسپریس کی نئی بوگیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان میں لوہے کی پٹریوں پر فولادی پہیوں کے رگڑکا شور اور ہلنا جلنا بھی کم تھا۔
سیلانی ایک بار پھر کراچی سے اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھا، اس بار فیملی بھی ساتھ تھی۔ یہ پندرہ روز میں اس کا دوسرا پھیرا تھا۔ اب وہ کافی تھکن محسوس کررہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کے کاندھوں پر وزنی تھیلے رکھے ہوئے ہیں۔
اس نوجوان نے اپنی بات مکمل کرکے فاتحانہ انداز میں کمپارٹمنٹ میں موجود مسافروں پر باری باری نگاہ ڈالی اور اسی انداز میں کہنے لگا ’’یہ امتیازی سلوک ختم کرنا ہوگا، دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہوتا ہو اور اگر ہوتا بھی ہوگا تو میرے نزدیک اس کی کوئی تک نہیں، ہم سب ہی کام کر رہے ہیں، سب ہی کما رہے ہیں، سب اپنے اپنے انداز میں ملک کی خدمت کر رہے ہیں، لیکن صرف چند طبقات کو نوازنا معاشرے کی بے چینی میں اضافہ ہی کرے گا، میں آج اکیلا یہ بات کر رہا ہوں تو کل اکیلا نہیں ہوں گا، ہو سکتا ہے کہ ریاست کے اس امتیازی سلوک کا دفاع کرنے والا اکیلا ہو۔‘‘
نوجوان کے دھواں دھار دلائل پر سیلانی دیکھ رہا تھا کہ پکی رنگت اور پکی عمر والا صوبیدار تنویر حسین بالکل خاموش ہے، لیکن اس کی آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں، وہ کچھ عجیب شخص تھا، عام سی شکل و صورت والا جس نے آنکھوں میں سرمے کے ڈورے بھی ڈال رکھے تھے، وہ دانت پر دانت جما کر بات کرتا تھا، جس کی وجہ سے اس کی بات سمجھنا آسان نہ تھا، وہ کھانا بھی پینڈوؤں کے انداز سے کھا رہا تھا، اس نے پلیٹ میں سے مرغی کی بوٹی ایک طرف کر دی اور شوربے میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ڈال دیئے تھے۔ اب وہ ایک ایک لقمہ اٹھا کر آہستہ آہستہ کھا رہا تھا، اس نے خاموشی سے کھانا کھانے کے بعد ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کئے اور کہنے لگا:
’’ہاں جی! آپ میں سے کسی نے مشین گن کی گولیاں دیکھی ہیں؟‘‘
سیلانی چپ رہا، دو مسافروں نے نفی میں گردن ہلا دی، البتہ انقلابی نوجوان نے ہاتھ ہلا کر کہا ’’ہمیںکیا ضرورت پڑی ہے؟‘‘ اس کا انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ اپنے مؤقف کے دفاع کے لئے تیار ہے۔
’’یہ دو دو انگل کی گولی ہوتی ہیں، کان کے پاس سے گزرے نہ تو ناف کے نیچے سے نکلنے والا پانی شلوار گیلی کرکے ہی زمین تک پہنچتا ہے…‘‘
’’آپ کہنا یہ چاہ رہے ہو کہ آپ فوجی ہو، بہادر ہو، اس لئے رعایتیں آپ کا حق ہیں؟‘‘ انقلابی نوجوان خالد رشید نے صوبیدار صاحب کی بات کاٹ دی۔ بحث کا آغاز صوبیدار صاحب کے رعایتی ٹکٹ سے چھڑا تھا۔ انہیں یہ رعایت بحکم سرکار حاصل تھی۔ ٹی ٹی نے سب کے ٹکٹ چیک کئے، صوبیدار صاحب نے بھی اپنا ٹکٹ دکھایا۔ سیلانی کے پاس بھی رعایتی ٹکٹ تھا، جس پر اس انقلابی نوجوان کی ہٹ گئی۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ’’میں نے بھی سوچ لیا ہے، ایک بیٹا فوج میں اور دوسرا میڈیا میں ڈالوں گا، پھر موجاں ہی موجاں، راوی عیش ہی عیش لکھے گا، کیوں سیلانی صاحب؟‘‘
’’دور کے ڈھول سہانے میرے دوست، قبرکا حال مردہ ہی جانتا ہے۔‘‘ سیلانی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’صحافیوں اور فوجیوں کی تو قبریں بھی خاص ہوتی ہوں گی۔‘‘
’’ریاست کا کام اپنے شہریوں کو سہولت دینا ہوتا ہے، کام کی نوعیت کے اعتبار سے دنیا کے ہر ملک میں سہولتیں ہوتی ہیں، اسی حساب سے تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں، اب آپ یہ سوال اٹھا دیں کہ ایک ٹرک ڈرائیور سخت گرمی میں بنیان پہنے دس دس گھنٹے ٹرک چلاتا ہے اور اسے مہینے کے تیس چالیس ہزار مشکل سے ملتے ہیں، جبکہ ایک پائلٹ دن میں دو، دو گھنٹے کی دو فلائٹس کراچی اسلام آباد لاتا لے جاتا ہے، اس کی تنخواہ لاکھوں میں کیوں ہے، تو اس پر کیا کہا جائے گا؟‘‘
’’او کے جی، مان لیا کام کی نوعیت کے لحاظ سے تنخواہیں مختلف ہوتی ہیں، اگرچہ اس پر بھی بات ہو سکتی ہے، لیکن یہ بتائیں کہ یہ فوجی ہی دھرتی ماں کے اتنے میٹھے پتر کیوں ہوتے ہیں، جبکہ سب ہی کما کر ماں کے ہاتھ پر کچھ نہ کچھ رکھتے ہیں، لیکن فوجیوں کو اتنا زیادہ استحقاق کیوں؟ ہمارے ملک میں تو ہر معاملے میں فوج گھسی ہوئی ہے؟ سستے پلاٹ ان کے لئے، ٹکٹ ان کے لئے، سیاست ان کے لئے…‘‘
صوبیدار صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے ٹوکا اور کچھ کہا، سیلانی ان کے اشارے سے ہی سمجھ سکا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، پھر وہ دانت پر دانت جمائے کہنے لگے:
’’میں پکا ٹکا فوجی آدمی ہوں، فوج کہاں کہاں گھسی ہے، میں اس معاملے میں نہیں جاتا، میں صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ فوج نے آپ کے ساتھ کیا کیا ہے؟ جو اتنے کڑوے ہو، ہم سال سال جنگلوں، بارڈروں پر پڑے رہتے ہیں، میں نے کارگل اور سیاچن میں پانچ سال گزارے ہیں، وہاں آپ لوگ ایک دن نہیں گزار سکتے، جتنی معذوریاں snow bite سے ہوتی ہیں، اتنی دشمن کی بندوقیں نہیں کرتیں، کتنے ہی کڑیل جوانوں کے ہاتھ پاؤں کٹ جاتے ہیں اور وہ ساری عمر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں، کام کے حساب سے سب کو سہولت ملتی ہے، اگر ہمیں کچھ سہولت ہے تو اس لئے ہے ناں کہ ہم اس ملک کے لئے اپنی جوانیاں گلا رہے ہیں…‘‘
اس کے بعد تنویر حسین کی کہانی سامنے آئی اور اس سیدھے سادے دس جماعتیں پاس صوبیدار نے ایم بی اے پاس خالد رشید کو ایسا چپ کرایا کہ جیسے زبان ہی نکال کر جیب میں رکھ دی ہو۔
تنویر حسین بتانے لگا کہ میں ایس ایس جی کمانڈو ہوں، ابھی بھی آپ میں سے دو بندے مجھ پر آئیں تو چالیس سیکنڈ میں اسٹریچر پر ہوں گے، جس عمر میں آپ لوگ گھر کے نرم گرم بستروں میں گھس کر فلمیں دیکھتے ہو ناں، ہم پچاس کلو وزن کمر پر ڈال کر جنگلوں بیابانوں میں جاگ رہے ہوتے ہیں تاکہ آپ شہری بابو اچھی اچھی موٹی تنخواہیں لے سکیں، ہم یہ پچاس کلو وزن اٹھا کر ڈیڑھ، ڈیڑھ سو کلومیٹر چلتے ہیں، ہمیں یہ فاصلہ تین دن میں طے کرنا ہوتا ہے… خیر چھوڑو، اس بات کو میں بتاتا ہوں کہ ہم ’’مٹھے پتر‘‘ کیوں ہیں، میں لیپا سیکٹر میں تھا، میرا کام ایسا تھا، جو میں بتا نہیں سکتا، بس یوں سمجھ لیں کہ روز کلمہ پڑھ کر جاتا تھا، میرے کام کی خبر انڈین فوج کو بھی ہوگئی تھی، انہوں نے میرا نام ایمبولینس والا رکھا ہوا تھا اور وہ وائرلیس پر کہتے بھی تھے کہ ہمیں پتہ ہے یہ ایمبولینس والا کیا کرتا پھر رہا ہے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ آتے ہوئے انہوں نے میری ایمبولینس پر فائر کھول دیا، بڑا ہیوی فائر تھا، لیکن بچانے والے نے ایسے بچا لیا کہ گاڑی کا پچھلا حصہ اڑ گیا، ٹائر پھٹ گیا، میں پھٹے ہوئے ٹائر پر ہی گاڑی بھگاتا رہا اور وہ آرٹلری سے فائر کرتے رہے، ایک گولا یہاں گر رہا ہے اور دوسرا وہاں، میں کبھی گاڑی کو اُدھر موڑوں اور کبھی اِدھر موڑوں، کسی نہ کسی طرح ایک موڑ مڑ کر محفوظ ہو ہی گئے۔ انہوں نے اتنا ہیوی فائر کیا کہ میرے بچنے کے چانس ہی نہیں رہے۔ ادھر میرے یونٹ کو خبر مل گئی کہ تنویر حسین، سپاہی کے ساتھ غائب ہے، اس کی ایمبولینس کو ہٹ ہوگئی ہے، ہمارے بکسے تیار کر لئے گئے اور ہماری لاشیں لانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں اور پھر جب ان کی آرٹلری چپ ہوئی تو ہم نے فائر کھول دیا، اس فائر کی آڑ میں میری یونٹ والے ہمیں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے اور ادھر ہماری حالت یہ کہ سر پھٹا ہوا ہے، پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں اور جانے کہاں کہاں درد تکلیف ہو رہی تھی، کچھ پتہ نہیں بس پورے جسم سے ہی درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، رات ہم دونوں نے وہی گزاری، صبح ہوئی تو وہاں سے کسی گاڑی کی آواز آئی، ہمت کر کے کچی سڑک پر آئے، اس کو بتایا کہ ہماری کچھ مدد کرو، اس کی مدد سے گاڑی اس قابل کی کہ اسٹارٹ ہو جائے، اب اگلا مرحلہ اس روڈ سے گزرنے کا تھا، جہاں ان کے توپچی نظریں جمائے بیٹھے ہوئے تھے، جناب اسے کچھ بھی کہہ لیں، لیکن وہ تھی خودکشی ہی، ہم دونوں نے ہمت کی اور پھٹے ٹائر کے ساتھ گاڑی دوڑا کر روڈ پر لے آئے، اب ایک بار پھر فائرنگ شروع ہو گئی، میں نے بھی کلمہ پڑھا اور ایکسیلیٹر اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک گاڑی دوڑا کر سیف زون میں نہیں پہنچی، اس کے بعد مجھے بس اتنا یاد ہے کہ گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اترا تھا، پھر بے ہوش ہو کر گر پڑا اور میرا یہ جبڑا پتھر پر لگ کر ٹوٹ گیا، اس کے بعد میں پانچ مہینے بستر پر رہا، میرا جبڑا بھی کسی نہ کسی طرح اتنا ٹھیک ہوگیا کہ میں نرم غذا روٹی شوٹی شوربے میں بھگو کر کھا سکوں، میں اب گوشت اور کوئی سخت چیز نہیں کھا سکتا، پھل میں بھی کیلا اور آم ہی کھا سکتا ہوں، لیکن میں خوش ہوں اور بڑا ہی خوش ہوں کہ میں نے وطن کے لئے کچھ تو کیا۔‘‘ اتنا کہہ کر تنویر حسین نے خالد رشید سے کہا: ’’اب آپ بتائیں کہ ہم مٹھے پتر کیوں نہ ہوئے؟‘‘
صوبیدار تنویر حسین یہ کہہ کر چپ ہو گیا اور کمپارٹمنٹ میں مکمل انسانی خاموشی پھیل گئی، سب پلکیں جھپکائے بنا اس عام سی شکل وصورت والے تنویر حسین کو دیکھ رہے تھے، جو اب بہت خاص ہو چکا تھا، کچھ دیر بعد ایم بی اے پاس خالد رشید نے منہ کھولا، لیکن وہ آئیں بائیں اور شائیں کرکے رہ گیا، البتہ سیلانی یہ نہ کر سکا، وہ اٹھا اور اس نے تنویر حسین کو گلے لگا لیا، عجیب جذباتی سا منظر تھا، تنویر حسین کی آنکھوں کے گوشے بھی نم ہوگئے اور سیلانی کی آنکھوں میں بھی نمی تھی، تنویر حسین نے کچھ کہنے کی کوشش کی، لیکن اس کا نچلا جبڑا کڑکڑا رہ گیا ’’کچھ نہ کہیں، ہمیں آپ جیسے وطن کے بیٹوں پر فخر ہے۔‘‘ سیلانی یہ کہہ کر تنویر حسین کو سامنے کیا اور محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ تیز گام چھک چھک چھکا چھک سے راولپنڈی کا فاصلہ سمیٹنے لگی اور سیلانی عام سی شکل و صورت کے خاص ’’مٹھے پتر‘‘ کو محبت، خلوص اور عقیدت سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔٭

Comments (0)
Add Comment