سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کے جیل کے بجائے بیماری کے بہانے اسپتالوں میں عیش و آرام کرنے کا جائزہ لینے کے لئے ہفتے کو کراچی کے تین اسپتالوں پر چھاپے مارے۔ کلفٹن میں واقع ڈاکٹر عاصم حسین کے ضیاء الدین اسپتال میں شرجیل میمن کے وی آئی پی روم میں پہنچے تو وہاں سے شراب کی تین بوتلیں اور دیگر منشیات برآمد ہوئیں۔ تین افراد جنہوں نے خود کو شرجیل میمن کا ملازم قرار دیا، حراست میں لئے گئے۔ شراب کی بوتلیں اور منشیات تحویل میں لے کر جانچ پڑتال کے لئے لیبارٹیریز بھیج دی گئیں۔ کمرہ سیل کرکے شرجیل میمن کو واپس جیل بھیج دیا گیا، کیونکہ وہ مکمل طور پر صحت مند پائے گئے۔ محض عیاشی کے لئے پولیس، جیل حکام اور حکومت سندھ سے ملی بھگت کرکے اور بیمار بن کر اسپتال میں منتقل ہوگئے تھے۔ دوسری طرف جناح اسپتال اور امراض قلب کے بڑے اسپتالوں میں بیماری کے بہانے داخل ہونے والے انور مجید، ان کے بیٹے عبد الغنی مجید اور مشہور بینکار حسین لوائی کے کمروں پر بھی چیف جسٹس نے چھاپا مارا، وہاں سے تمام ریکارڈ تحویل میں لے لیا گیا۔ چیف جسٹس نے تینوں ملزمان کے علاج سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ پولیس نے شرجیل میمن کے خلاف کمزور سا مقدمہ درج کرکے شراب اور منشیات کی اسپتال میں موجودگی کا سارا ملبہ ملازمین پر ڈال دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلوں کے بارے میں بڑا عجیب مؤقف اختیار کیا کہ یہ تو شہد اور روغن زیتون کی بوتلیں ہیں۔ شراب کو ام الخبائث کہا جاتا ہے یعنی اس سے ہزار خباثتیں اور برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اسے شراب خانہ خراب بھی کہا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ شراب جس گھر یا معاشرے میں داخل ہوجائے، وہ بالآخر تباہ ہوکر رہتا ہے۔ پاکستان کو اگر ہم ایک گھر سے تعبیر کریں تو اس کی تباہی و بربادی میں سب سے اہم کردار شراب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہوس پرستی نے ادا کیا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں اور پارلیمان کے لاجز سے اکثر و بیشتر شراب کا برآمد ہونا واضح کرتا ہے کہ ملک پر حکمرانی کرنے والے بہت سے لوگ اقتدار کے علاوہ شراب کے نشے میں بھی بدمست رہتے ہیں۔ شراب سے انسان کا ذہنی توازن برقرار نہیں رہتا تو اس کا عادی اپنی ذاتی، خاندانی اور معاشرتی زندگی میں کیونکر توازن قائم و برقرار رکھ سکتا ہے۔ ماضی سے آج تک کئی حکمرانوں کی شراب نوشی کے قصے زباں زد عام ہیں، جن میں سب سے زیادہ بدنامی جنرل یحییٰ خان کے حصے میں آئی، جو شراب و شباب کے اس قدر رسیا تھے کہ مدہوشی کے عالم میں انہیں اپنے کپڑوں تک کا ہوش نہیں رہتا تھا۔ کئی فاحشہ عورتوں نے شراب نوشی اور اس کے بعد کی خرمستی میں ان کے ساتھ شریک ہونے کی شہرت حاصل کرلی تھی۔ جنرل یحییٰ کے ایک صاحبزادے نے یہ انکشاف کرکے اہل وطن کو حیرت میں ڈال دیا تھا کہ ان کے والد گرامی ذوالفقار علی بھٹو پر اتنے مشفق و مہربان تھے کہ اپنے ہاتھوں سے جام بھر بھر کر انہیں پلاتے تھے۔
اسپتال ذہنی و جسمانی مریضوں کے علاج کے لئے قائم کئے جاتے ہیں۔ شراب نوش کو ذہنی مریض قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پہلے خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیقؓ شراب نوشی کو شرف انسانیت کے خلاف فعل سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت میں بھی خبائث کی اس ماں کو ہاتھ لگانا تک پسند نہ کیا۔ پیپلز پارٹی کو جہاں ملک توڑنے اور وطن عزیز میں فحاشی پھیلانے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے، وہیں اس ملک کے باشندے گواہ ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ہر دور حکومت میں شراب نوشی اور فحاشی کو زیادہ فروغ حاصل رہا ہے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی ہر وقت چڑھی ہوئی آنکھیں ٹی وی کیمروں کے ذریعے ساری دنیا ایک مدت سے دیکھتی چلی آرہی ہے۔ جبکہ اس پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تو برملا کہتے تھے کہ ’’ہاں میں پیتا ہوں، لیکن شراب ہی تو پیتا ہوں، غریبوں کا خون تو نہیں پیتا‘‘ پھر انہوں نے شراب پر پابندی کا جو ڈراما رچایا، اس کی حقیقت بھی اہل علم بخوبی جانتے ہیں۔ کوئی تصور کرسکتا ہے کہ کسی درسگاہ سے ملحقہ اسپتال میں ملزموں اور مجرموں کو پناہ دے کر ان کے لئے عیاشی کے تمام اسباب فراہم کئے جاتے ہوں گے۔ یہ ’’اعزاز‘‘ بھی پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین کے ضیاء الدین اسپتال میں تمام فواحش ومنکرات کا اہتمام آج سے نہیں، کئی برسوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ آصف علی زرداری دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے جمہوریت اور عوام کی خاطر گیارہ سال جیل میں گزارے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وہ سندھ حکومت، پولیس، جیل حکام اور ڈاکٹر عاصم حسین کی مہربانی سے اپنا بیشتر وقت جیل سے باہر گزار کر کسی معائنے یا چھاپے کے وقت فوراً جیل پہنچ جاتے تھے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا ضیاء الدین اسپتال ان کے لئے نہ صرف بہترین پناہ گاہ تھی، بلکہ اس کے وی وی آئی پی کمروں میں انہیں وہ تمام سہولتیں حاصل تھیں جو مغرب کے اوباش معاشروں کے نائٹ کلبوں اور شراب خانوں میں بھی شاید میسر نہ ہوں۔ پیپلز پارٹی کے مختلف ادوار میں عوام کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے اور دعوے کرنے والوں نے شرجیل میمن کے کمرے سے برآمد ہونے والی شراب کی بوتلوں کو شہد اور زیتون کے تیل کی بوتلیں ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو شرجیل میمن کیوں کہتے کہ یہ بوتلیں میری نہیں ہیں۔ سارا ملبہ ملازموں پر ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر یہ کہ عدالتی عملے نے بوتلیں سونگھ کر یہ بتایا کہ بوتلیں شہد اور روغن زیتون کی نہیں، بلکہ ان سے شراب کی بو آرہی ہے۔ یاد رہے کہ شرجیل میمن سندھ کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات رہ چکے ہیں۔ وہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خصوصی احکام پر تین ماہ سے زائد مدت سے علاج کے بہانے ضیاء الدین اسپتال میں داد عیش دے رہے تھے۔ ایک قابل عبرت بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے نانا کے نام پر ضیاء الدین اسپتال قائم کیا تھا۔ مرحومین کے لئے لوگ یادگاریں قائم اور ایصال ثواب کرتے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین دہشت گردوں، قانون شکن اور جرائم پیشہ عناصر کو پناہ دے کر ان کا علاج کراتے اور عیاشی کے سامان فراہم کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ قرار واقعی سزا سے اب تک بچے ہوئے ہیں۔ ٭