مسعود ابدالی
وزیراعظم عمران خان نے جس اقتصادی مشاورتی کونسل کا اعلان کیا ہے، اس میں ایک نام پروفیسر عاطف میاں کا بھی ہے۔ 39 سالہ پروفیسر عاطف مشہور و موقر جامعہ پرنسٹن Princeton میں اقتصادیات کے استاد ہیں۔ موصوف کی قابلیت پر تو کوئی شک نہیں کہ جوان سال ماہر معاشیات کے کئی مقالوں کو علمائے معاشیات نے پسند کیا ہے۔ پروفیسر عاطف قادیانی ہیں اور یہ بات بھی بہت زیادہ اہم نہیں کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ سرکاری اہلکار کا انتخاب صلاحیت کی بنیاد پر ہونا چاہئے اور اس کے عقیدے سے مملکت کو کوئی سروکار نہیں۔ لیکن ملک کے آئین سے غیر مشروط وفاداری ہر سرکاری اہلکار کیلئے ضروری ہے۔ فوج کے سیکنڈ لیفٹیننٹ اور پولیس کے معمولی سپاہی سے لے کر صدر تک مملکت کا ہر ذمہ دار ملکی آئین کے دفاع کا پابند ہے اور ختم نبوت ترمیم ملکی آئین کا جزو لاینفک ہے۔
دوسری طرف عاطف میاں محض ایک ماہر معاشیات نہیں، بلکہ ان کی وجہ شہرت ایک Activist کی ہے۔ وہ پاکستانی آئین سے ’’ختم نبوت‘‘ ترمیم ختم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں اور اس کام میں وہ قادیانیوں کے ’’خلیفہ‘‘ مرزا مسرور احمد کے مشیر ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے پروفیسر عاطف نے کہا: ’’بھٹو نے ’’ناقص اصول‘‘ کو تسلیم کرتے ہوئے فرقہ پرست مولویوں کے میدان سیاست میں داخلے کو قانونی تحفظ فراہم کیا، یہاں تک کہ اب شہریوں کے حقوق ان کے عقیدے کی بنیاد پر طے کئے جاتے ہیں۔ ضیاء الحق نے عقیدے کی بنیاد پر سیاست میں فرقہ پرست جماعتوں کیلئے راستہ ہموار کیا۔ اسے بدلنے کی ضرورت ہے، اگر پاکستان ترقی کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔‘‘ (حوالہ ایکسپریس ٹرائبیون)
اگر سیاق و سباق کے حوالے سے اس بیان کو دیکھا جائے تو ’’ناقص اصول‘‘ سے مراد ختم نبوت ترمیم اور ناموس رسالت کے قوانین ہیں اور پروفیسر عاطف کے خیال میں انہیں تبدیل کئے بغیر ملک معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دیئے جانے کے موضوع پر پروفیسر صاحب امریکہ اور کینیڈا کے کئی مراکزِ دانش (Thinks Tanks) میں تقریر کرتے رہے ہیں۔
امریکی کانگریس میں ایک Ahmadiya Cauces بھی ہے، جس کے سربراہ مسلم مخالف رکن کانگریس پیٹر کنگ ہیں۔ اس پارلیمانی گروپ میں رہراباکر اور دوسرے پاکستان دشمن ارکان کانگریس شامل ہیں۔ احمدیہ کاکس کو پاکستانی آئین میں ختم نبوت ترمیم پر سخت اعتراض ہے۔ اس کاکس میں کبھی کبھی مرزا مسرور بھی شرکت کرتا ہے اور پروفیسر عاطف مرزا صاحب کو Talking Point فراہم کرتے ہیں۔
پروفیسر عاطف کے خیال میں پاکستان کی سب سے بڑی غلطی جوہری دھماکہ تھی، جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت تنہائی کا شکار ہوگئی۔ ان کا خیال ہے کہ ملک کی معیشت جوہری ہتھیار بنانے کی عیاشی کی متحمل نہیں ہے۔ عاطف میاں فوج کو ملکی معیشت پر بوجھ سمجھتے ہیں۔ عاطف میاں کے خیال میں پاکستان کی سوئی کشمیر پر اٹکی ہوئی ہے، جس نے معیشت پر بھی جمود طاری کردیا ہے اور اگر پاکستان ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے کشمیر کو بھلا کر آگے دیکھنا ہو گا۔ عاطف میاں کی نامزدگی کے ساتھ ہی جبران ناصر سے لے کر توہین رسالت میں ملوث freethinkers اور Atheist Pakistan وغیرہ نے سوشل میڈیا پر بھرپور مہم شروع کر رکھی ہے۔
اس پس منظر میں عاطف کی اقتصادی ٹیم میں شمولیت سے بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ عاطف ماہر اقتصادیات سے زیادہ ایک متنازعہ سیاسی کارکن ہیں۔ ہمارے دانشور برداشت اور روشن خیالی کے جتنے بھی لیکچر دیں، پاکستان کے لوگ ختم نبوت کے بارے میں بے حد حساس ہیں۔ یہ درست کہ پاکستانی سرکار دوعالمؐ کے طریقوں کے مطابق زندگی نہیں گزارتے، لیکن ان کی غالب اکثریت ناموس رسالت پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہے۔ خیال ہے کہ عاطف کے پاس امریکی پاسپورٹ بھی ہے اور اگر خدا نخواستہ تشدد کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا تو امریکہ پاکستان کے درمیان سنگین سفارتی تنازعہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے اپنی ٹیم میں جن ماہرین کو شامل کیا ہے، وہ سب بہت ہی تجربہ کار اور اچھی شہرت کے حامل ہیں اور پروفیسر عاطف کے بغیر بھی معیشت کے میدان میں عمدہ مشورے دے سکتے ہیں۔ اس حساس معاملے میں احتیاط سب کے مفاد میں ہے۔
امریکی امداد :
امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کے اعلامئے کے مطابق پاکستان کیلئے مختص امداد میں سے 30 کروڑ ڈالر روکنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ امریکی حکومت کے مطابق امداد کی منسوخی کی وجہ شدت پسندوں کے خلاف پاکستان کے عزم میں کمی ہے۔امداد کی بندش کے حق میں دلیل دیتے ہوئے پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان ان باغیوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کررہا ہے جو 17 برس سے ہمسایہ افغانستان کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں۔
اس سال کے شروع میں امریکی کانگریس نے پاکستان کیلئے مختص رقم میں 50 کروڑ ڈالر کی کٹوتی کرتے ہوئے مزید 30 کروڑ ڈالر کے اجرا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اخلاص سے مشروط کردیا تھا اور اس ’’خلوص‘‘ کی تصدیق امریکی وزیردفاع کی ذمہ داری تھی۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکی وزیردفاع جنرل میٹس اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان سرکشوں کے خلاف ٹھوس اقدام نہیں کررہا۔ چنانچہ یہ رقم معطل کردی گئی۔ اشک شوئی کیلئے پینٹاگون نے کہا کہ اگر پاکستان اب بھی اپنارویہ تبدیل کرلے تو امداد بحال ہوسکتی ہے۔ اب کٹوتی کے ساتھ پاکستان کیلئے مختص 90 کروڑ ڈالر میں سے 80 کروڑ کاٹے جاچکے ہیں۔ پینٹاگون کے ذرائع نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ 2002ء سے اب تک پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی مدد فراہم کی گئی ہے۔
یہ تو تھا امریکہ بہادر کا سرکاری اعلان، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس رقم کو امداد کہہ کر پاکستان پر احسان جتایا جا رہا ہے، وہ دراصل کولیشن سپورٹ فنڈ ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ مدد یا خیرات نہیں، بلکہ ان خدمات اور سامان کا معاوضہ ہے، جو افغانستان کے امریکی آپریشن کیلئے پاکستان فراہم کررہاہے۔ افغانستان میں برسرِ پیکار امریکی فوج کی رسد کیلئے پاکستان کی فضائی حدود اور زمینی راستے استعمال ہورہے ہیں۔ اس پر اٹھنے والے اخراجات یعنی پورٹ چارجز، درآمدی ٹیکس، راہداری و چنگی، ٹرکوں کا کرایہ، کارواں کے حفاظتی اقدامات، ڈیزل، منرل واٹر، اسباب خوردونوش، سگریٹ، ڈائپررز اور امریکی فوج کیلئے پاکستان سے فراہم کئے جانے والے دیگر سازوسامان کا معاوضہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں پاکستان کو ادا کیا جاتا ہے جسے امریکہ امداد کہتا ہے اور پاکستانی حکام نے بھی اس ہٹ دھرمی پر اعتراض نہیں کیا۔ پورٹ قاسم کی ایک پوری گودی امریکی جہاز راں کمپنی President Shipping Line نے کرائے پر لے رکھی ہے۔ بندرگاہ سے بھاری سامان لیکر ٹرک اور ٹریلر پورے پاکستان کو روندتے ہوئے تورخم یا چمن کے راستے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں اس ہیوی ٹریفک سے پاکستان کی شاہراہوں کو جس ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے، اس کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے یا نہیں۔
جیسا کہ قارئین نے نوٹ کیا ہوگا یہ وہ اخراجات ہیں، جن کی پاکستان ادائیگی کر چکا ہے اور اب یہ رقم پاکستان کی طرف واجب الادا ہے۔ کاروباری اصول کے مطابق ادائیگی میں تاخیر پر پاکستان لیٹ چارچ کا مستحق ہے، لیکن واشنگٹن اور صدر ٹرمپ جس انداز میں اس کا اعلان کرتے ہیں، اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ گویا امریکہ پاکستان کو پال رہا ہے۔ اب چونکہ امریکہ اخراجات کی اداییگی کے معاملے میں نادہندہ ثابت ہوگیا ہے، پاکستان کو چاہئے کہ وہ سامان و خدمات کی فراہمی اس وقت تک بند رکھے، جب تک امریکہ سابقہ حساب بے باق نہیں کر دیتا اور مستقبل میں معاملہ نقد یا Cashi in advanve کی شکل میں ہونا چاہئے۔ اخلاق کا تقاضہ تو یہ ہے کہ پاکستان کو معصوم افغانوں کے قتل میں حملہ آوروں کا طرف دار نہیں بننا چاہئے۔ اسی کے ساتھ آڈیٹر جنرل پاکستان کو 33 ارب ڈالر کے بارے میں پاکستانی عوام کو بتانا چاہے جو مبینہ طور پر پاکستان کو گزشتہ 17 سال کے دوران عطا کئے گئے۔ اگر امریکی حکومت کا دعویٰ صحیح ہے تو یہ رقم پرویز مشرف، صدر زرداری اور نوار شریف کی حکومتوں نے لئے ہیں۔ اس کا حساب کتاب کس کے پاس ہے؟