موسم سرما کے سورج کی مانند، وہ دور بہت جلد بیت گیا۔ اب ہم تاریخ کے تاریک دور میں زندہ رہنے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہ دور بہت حیران کردینے کی حد تک حسین تھا۔ وہ ایک ایسا دور تھا جس کا تذکرہ کرنے سے قبل ہمیں پھر سے انگریز ناول نگار چارلس ڈکنس کے مشہور ناول ’’دو شہروں کی کہانی‘‘ کی ابتدا دہرانی پڑے گی۔ جس میں ڈکنس کہتا ہے کہ ’’وہ ایک بہترین دور تھا۔ وہ ایک بدترین دور تھا۔ وہ دانائی کا دور تھا۔ وہ دیوانی کا دور تھا۔‘‘
سیدھی بات، وہ سنگین آمریت اور سیاسی سرکشی کا دور تھا۔ اس دور میں بہت ساری دلکش رنگ و روپ تھے۔ ایک تو اس دور میں بہترین ادب تخلیق ہوتا تھا۔ رائٹرز روح کی گہرائی سے ایسے الفاظ تلاش کر لاتے تھے کہ سمندر کے موتی شرما جائیں۔ وہ تخلیقی قوت کے حوالے سے ایک بھرپور دور تھا۔ اس دور میں صرف روپوش کارکنوں کی ڈائریاں مکمل ہونے کے بعد ناول بن جاتی تھیں اور وہ خطوط افسانے بن گئے، جو کسی دوپہر یا کسی شام کو پوسٹ نہ ہو پائے۔
اس دور میں جیلوں کے اندر وہ سیاسی قیدی موجود ہوا کرتے تھے جن کے لیے ’’ضمیر کے قیدی‘‘ کے الفاظ لکھے جاتے تھے۔ یہ محاورہ برطانیہ کے باضمیر رائٹر پیٹر بینیسن نے ساٹھ برس پہلے ’’لندن آبزرور‘‘ کے ایک مضمون میں پہلی بار لکھا تھا۔ ان تین الفاظ میں برطانیہ کی جیل میں بھوک ہڑتال پر مرجانے والے بوبی سینڈس سے لے کر جنوبی افریقہ میں قید تنہائی کاٹنے والے نیلسن منڈیلا تک وہ انگنت لوگ شامل تھے، جن کے لیے نکاراگوا کے ایک انقلابی شاعر نے لکھا تھا:
’’اگر تم ہمیں سننا چاہتے ہوتو سنو وہ آوازیںجو جیل کی سلاخوں سے چھنتی ہیں‘‘
یہ ایک عجیب دور تھا۔ جس طرح میکسم گورکی نے لکھا ہے کہ ’’میں غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکا، مگر جب میرے شعور نے آنکھیں کھولیں، تب میں نے محسوس کیا کہ یہ دنیا میری درسگاہ ہے۔‘‘ اسی طرح اس دور میں جیل سیاسی قیدیوں کے لیے سیاسی تعلیم کے مراکز تھے۔ فیض احمد فیض اور ان کے ساتھیوں پر چلنے والے بغاوت کے مقدمے کی بات تو بہت پہلے کی ہے۔ وہ تو گزشتہ صدی کی پانچویںعشرے کی بات ہے۔ اس دور کی یادوں کو سمیٹ کر کیپٹن ظفر اللہ پوشنی نے’’زندگی زنداں دلی کا نام ہے‘‘ جیسی کتاب تحریر کی۔ مگر اس کے بعد بھی جو لوگ سیاسی مقدمات میں اندر گئے وہ باہر آئے تو پہلے سے مضبوط اور اپنے آدرش پر ڈٹے نظر آئے۔ شیخ ایاز نے ساٹھ اور ستّر کی دہائی کے دوران جیل میں جو شاعری کی، وہ بینظیر ہے۔ جیل میں لکھی ہوئی ان کی ’’ڈائری‘‘ کسی عالمی سطح کے ناول سے کم نہیں۔ یہ سب ایک دور کی بغاوت تھی۔ اس بغاوت کا حسن تھا۔ وہ بغاوت کا حسن غربت میں پلی ہوئی لڑکی کے حسن کی طرح بہت جلد بجھ گیا۔
اب ہماری جیلوں میں سیاسی قیدی ہونے کا دعوی کرنے والے لوگ یا تو کرپٹ ہیں یا کرمنل! جیلوں کے اس جہان کو کس نے بدنام کیا؟ وہ لوگ کون ہیں جنہوں نے جیلوں میں جلنے والی شعور کی مشعلوں کو بجھایا اور سیاسی کرپشن کی ڈسکو روشنیاں سجائیں؟ یہ کون لوگ تھے، جن کی وجہ سے مقدس محبت جیسی سیاست ایک گناہ گار کہانی بن گئی۔ وہ سیاست جو کبھی کوئے یار تھی، وہ بدنام گلی کیوں اور کیسے بنی؟ اس سوال کی تحقیق موہن جو دڑو کی تباہی کی تحقیق جتنی مشکل تو نہیں ہے۔ یہ کل کی بات ہے، جب سیاست میں کرپشن ایک ناقابل برداشت الزام تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب سیاست میں لوگ دولت لٹانے اور عزت کمانے آتے تھے۔ اب سیاست عزت لٹانے اور دولت کمانے کا دھندہ بن گئی ہے۔ وہ سیاست جو کبھی گاؤں کی گوری کی طرح بہت شرمیلی اور بہت بھولی بھالی تھی۔ جس کی ناک میں لونگ اور کلائی میں شیشے کی چوڑیاں ہوتی تھیں۔ جو سایہ دیکھ کر بھی سر پر دوپٹہ رکھ دیتی تھی۔ اس سیاست کو آج ریمپ پر کیٹ واک کرنے والی مادل کس نے بنایا؟ کس نے اسے وہ راستہ دکھایا، جس راستے پر میک اپ میں روپوش آنٹیاں نظر آتی ہیں۔
سیاست کے اس زوال کا سبب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے سیاست کو کاروبار بنایا اور قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ جب ان کی حکومت کرپشن کے باعث ختم ہوئی اور وہ جیلوں میں چلے گئے، تب انہوں نے کرپشن کے پیسے سے جیلوں میں بیٹھ کر آسانیاں خریدنے کی کوشش کی۔ وہ جیلوں میں بیٹھ کر وہ ساری عیاشیاں کرتے تھے، جن عیاشیوں کا تصور جیلوں میں ان سے پہلے نہیں ہوتا تھا۔ ان لوگوں نے نہ صرف سیاست بلکہ جزا اور سزا کے سارے اقتدار اور اوزار تباہ کردیئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو دن کو جیل میں ہوتے تھے اور رات کو اپنے گھر میں عیاشی کے ساتھ سوتے تھے۔ کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کو ان لوگوں نے چابی کے طور پر استعمال کیا اور انہوں نے ہر تالا کھولا۔ ان کے لیے جیل ایک مذاق بن گیا۔ سیاست میں اصولوں کو دفن کرنے والے یہ لوگ جب کمزور ہونے والے حکمرانوں سے سمجھوتے کرتے تو انتظامی مدد سے وہ بیماری کا بہانہ بنا کر اسپتالوں میں منتقل ہو جاتے اور وہ اسپتال سرکاری نہیں، بلکہ غیر سرکاری ہوتے۔ وہ اسپتال فائیو اسٹار ہوٹل کے کمروں جیسے ہوتے۔ جہاں انہیں وہ ہر عیاشی آسانی سے مل جاتی جو فائیو اسٹار ہوٹل میں ملنا مشکل ہوتی۔
جیل کی سختی سے بچنے والی یہ ترکیب سب سے زیادہ کس نے استعمال کی؟ یہ اس شخص نے استعمال کی، جو جیل میں ہوتا تھا تو چھڑی کے بغیر اس کا چلنا مشکل ہوتا تھا۔ وہ عدالت میں جب پیش ہونے کے لیے آتا تو اپنے ساتھ چھڑی لاتا اور لنگڑا کر چلتا، مگر جیسے ہی جیل سے نکلتا تو بغیر علاج کے ہشاش بشاش نظر آتا۔ وہ شخص جس نے سیاسی رشتوں کو ذاتی رشتوں میں تبدیل کیا اور قید کے دنوں میں جن لوگوں نے اس کی مدد کی، ان لوگوں کو وہ کرپشن کے مایا نگر میں لے آیا۔ ان لوگوں نے کرپشن کی معرفت اتنی عیاشیاں دیکھیں کہ وہ حیران ہو گئے۔ سیاست کے سایہ دار شجر کو کرپشن کی کلہاڑی سے کس نے کاٹا؟ کس نے سیاست کو کاروبار بنایا؟ کس نے کرپشن کی دولت کو آلہ دین کا وہ چراغ بنایا، جس کو رگڑنے سے ہر چیز حاضر ہو سکتی ہے۔ کیا حسن اور کیا جوانی؟ کیا رنگینیاں اور کیا خوشبوئوں کے طوفان؟ کیا راگ کیا رقص اور کیا شوبز کے عکس!!؟
آج ہماری سیاست میں وہ لوگ دیوانے سمجھے جاتے ہیں، جو کسی اصول اور آدرش کی بات کرتے ہیں۔ کل سیاست علم تھی اور عشق تھی۔ آج سیاست ایک دھوکہ ہے اور دھوکے سے کمائی ہوئی دولت ہے۔ کل سیاست میں کتاب عزت کی علامت سمجھی جاتی تھی اور آج کتاب کو ڈرائنگ روم میں سجانے کے لیے بھی نہیں رکھا جاتا۔ سیاست سے کتابوں کو جلاوطن کس نے کیا؟ نیندوں سے خوابوں کو جلاوطن کس نے کیا؟ کل جب سیاست میں کارڈ کا تذکرہ آتا تھا، تب کارکنان اور لیڈران بہت جذباتی ہو جاتے تھے، مگر اب سیاست نہ صرف ایشو کا کارڈ، بلکہ اس سے بھی کمتر ایک انٹرنیشنل بینک کا اے ٹی ایم کارڈ بن چکی ہے۔ سیاست کو سربازار رسوا کرنے والے افراد کے نام کیوں لکھیں؟ بات خوف ہی نہیں ہے۔ بات احتیاط کی بھی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے قارئین کو کچھ ضروری خالی خانے خود پر کرنے چاہئیں۔
سیاست کی رگوں میں کرپشن کا زہر جن افراد نے اتارا، ان افراد کی وجہ سے آج سیاست ایک اعزاز اور ایک انعام نہیں، بلکہ ایک تہمت اور ایک الزام ہے۔ ہمارا جدید میڈیا ہماری جدید سیاست سے مل کر جو ناچ ناچ رہا ہے، وہ تماشہ دیکھنے کے بعد سیاست سے ان لوگوں کو گھن آنے لگی ہے، جن لوگوں کے دل میں کبھی قوم اور عوام کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ سویا ہی سہی، مگر ہوتا ضرور تھا۔ سیاست کو بدنام اور برا بنانے کے پیچھے بھی ایک سیاست ہے۔ جس طرح فرانس کے دانشور سارتر کی شریک حیات اور فیمینسٹ سوچ کی مبلغ ادیبہ سائمن ڈی بوار نے لکھا تھا کہ ’’جو کہتا ہے کہ میرا سیاست سے تعلق نہیں ہے، وہ بھی ایک سیاست کی نمائندگی کر رہا ہے۔‘‘ اسی طرح سیاست کو برا بنانے میں بھی ایک سیاست پنہاں ہے۔ اس سیاست کے رخ سے اس وقت نقاب اٹھتا ہے، جب سیاست اور انتظامی تعلق سے تنگ آکر ملک کا چیف جسٹس صبح کو مہنگے اسپتال کے وی آئی پی کمرے میں پہنچتا ہے تو اسے نام نہاد بیمار قیدی عیاش انگریز کی طرح دیر تک سوتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب چیف جسٹس کا عملہ اس ’’سب جیل‘‘ کی تلاشی لیتا ہے، تب انہیں شراب اور منشیات ملتی ہیں۔ مگر اسی دن میڈیا میں اس شراب کو شہد اور زیتون کا تیل قرار دیا جاتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مذکورہ قیدی نے شراب نوشی نہیں کی۔ کیوں کہ ایسا دعویٰ کرنے والوں کو معلوم تھا کہ ٹیسٹ ٹھیک آئیں گے۔ جس ماحول میں اسپتال میں سی سی ٹی وی کیمروں کی موجودگی میں نہ صرف شراب کی بوتلیں تبدیل ہو جاتی ہیں، بلکہ پورا نقشہ تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس ماحول میں بلڈ سیمپل تبدیل کرانے میں کتنی دیر لگتی ہے؟
اور اس ہیرا پھیری اور گندے ہاتھوں کی گناہ گار صفائی کو جب سیاست کہا جاتا ہے تو پھر اس سیاست کے دائرے میں داخل کون ہوگا؟ جس سیاست میں پہلے اپنے آپ پر اور پھر ہر کسی پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ ہم سیاست کے اس دور زوال میں رہتے ہیں۔ وہ سیاست جو کبھی پہاڑی چشمے پر بہار کے چاند کا عکس تھی، وہ سیاست اب شہر کے ابلتے ہوئے گٹر پر گرہن والے چاند کا سایہ ہے۔کیا سیاست کا یہ زوال مستقل رہے گا؟
٭