وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکا نے پاکستان کی کسی امداد، تعاون یا قرضے کی رقم نہیں روکی ہے، بلکہ وہ رقم ادا کرنے سے انکار کیا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہم پہلے ہی خرچ کرچکے ہیں، امریکا اس رقم کو لوٹانے کا ذمے دار ہے۔ شاہ محمود قریشی نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکا نے سابقہ حکومت کے دور ہی سے اس فنڈ کو معطل کر رکھا تھا۔ یاد رہے کہ امریکا نے پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ہفتے کو تیس کروڑ ڈالر کی ’’فوجی امداد‘‘ منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل سابقہ دور حکومت میں بھی امریکا کی جانب سے یہی الزام لگا کر ساٹھ کروڑ ڈالر کی رقم روکی گئی تھی۔ امریکا پاکستان کو یہ رقم فراہم کرکے کوئی احسان نہیں کرے گا جو کوئی امداد ہے نہ قرضہ یا بھیک اس کی ادائیگی امریکا کے ذمے ہے۔ یہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی وہ واجب الادا رقم ہے جو پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خرچ کی ہے۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے افغان جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کی جو پالیسی اختیار کی تھی اور جس کے نتیجے میں پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا، اس کی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا اور دہشت گردی نے پاکستان میں بھی قدم جمالئے تھے۔ امریکا نے اس کے جواب میں کولیشن فنڈ کے نام سے پاکستان کے نقصانات کو پورا کرنے کے لئے رقوم کی فراہمی شروع کی۔ پاکستان اپنی حدود میں دہشت گردی کا تقریباً خاتمہ کرچکا ہے۔ یہاں اب دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے ہیں نہ تنظیمیں۔ ساری خرابی اور گڑبڑ افغانستان میں مرتکز ہوگئی ہے، جہاں امریکا جدید ترین اسلحے اور حساس دفاعی ٹیکنالوجی کے ساتھ اب تک اپنے ہزاروں فوجیوں کے ساتھ موجود و مسلط ہے۔ سترہ برسوں میں امریکا افغان جنگ میں جس بری طرح ناکام اور شکست سے دوچار ہوا ہے، وہ حالیہ تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے کے وقت امریکی بش انتظامیہ کا خیال تھا کہ اس ملک کو چند گھنٹوں یا چند روز میں فتح کرکے ایک جانب اس کے وسائل پر قبضہ کر لیا جائے گا تو دوسری جانب پاکستان، چین اور وسط ایشیا کی سوویت یونین سے آزاد ہونے والی مسلم ریاستوں کے علاوہ خلیجی ممالک پر بھی نظر رکھنا اور ان پر رعب قائم کرنا آسان ہوگا۔ امریکہ کیلئے عبرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ سترہ برسوں میں افغانستان کے دارالحکومت کابل پر بھی اپنا قبضہ مستحکم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بلکہ اس کے اپنے اور اتحادی فوجیوں کو ذلت و رسوائی کے ساتھ وہاں سے بے دخل ہونا پڑا، جبکہ پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکی و اتحادی فوجیوں کے ساتھ عالمی توقعات سے کہیں زیادہ تعاون کیا تھا۔ قبل ازیں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا، اس وقت افغان مجاہدین کو پاکستان کا بھرپور تعاون حاصل تھا، جس کے نتیجے میں دنیا کی اس دوسری سپر پاور کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو کر اپنے زیر تسلط مسلم ریاستوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔
پاکستان کی پوری مدد کے باوجود امریکہ سترہ سال میں افغانستان پر کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکا، تو اسے شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ اس کے برعکس وہ پاکستان کی جانب سے خرچ کی جانے والی رقم ادا کرنے کے بجائے دھمکیاں دے رہا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین میں دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کارروائیاں کرنے میں ناکام رہا۔ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے زعم میں مبتلا امریکا بہادر افغانستان میں تو کوئی تیر نہیں مار سکا، لیکن جنگ میں اپنے قریبی ساتھی ملک کے ساتھ دغا بازی کرکے عالمی برادری کیلئے یہ پیغام چھوڑ رہا ہے کہ آئندہ کوئی ملک اس پر اعتماد نہ کرے۔ اس کی خاطر جانی قربانیاں دے نہ مالی نقصانات برداشت کرے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کل (پانچ ستمبر کو) کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ان کے ساتھ گفتگو میں پاک و امریکا تعلقات پر کھل کر پاکستان کا مؤقف بیان کریں گے۔ شاہ محمود قریشی کے خیال میں اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں پاکستان اور امریکا کے مابین گفت و شنید بھی منقطع ہو چکی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خیال میں امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد پر امریکا کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے کی امید ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں باہمی عدم اعتماد اور کشیدگی کے تمام پہلوؤں کو سمجھنا اور اسے کم کرنا ہے۔ ہم دو طرفہ اعتماد اور عزت و احترام کو ملحوظ رکھ کر اپنے تعلقات کو بڑھائیں گے۔ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی مشترکہ مفادات ہیں۔ اہل وطن اپنے وزیر خارجہ کی اس بات سے اختلاف کریں گے کہ پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح امریکا کے ساتھ بھی برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار رکھے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ہماری پچھلی حکومتوں نے غلامی کی حد تک امریکی بالادستی قبول کرکے امریکا کو اپنے ملک اور عوام پر مسلط کر دیا۔ اس نے پاکستان اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے منصوبوں میں دلچسپی لینے اور مدد کرنے کے بجائے ہمیشہ سطحی اور نمائشی طور پر صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون کیا۔ دوسری طرف ہم نے امریکا سے گراں قیمت پر جو اسلحہ خریدا، 1965ء کی پاک و بھارت جنگ میں اس نے اپنے ہی فروخت کردہ اسلحے کے فاضل پرزے فراہم کرنے سے انکار کرکے پاکستان کو دھوکا دیا۔ اس طرح بھارت کی بالواسطہ مدد کرکے پاکستان کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ سقوط مشرقی پاکستان میں بھی سوویت یونین اور بھارت کی طرح امریکہ نے ہمارے ملک کو دو ٹکڑے کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی نشاندہی پچاس کی دہائی میں پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے، جو بنگالی نژاد تھے، یہ کہہ کر کی تھی کہ امریکا مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ بدیہی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کو امریکا سے دوستی اور تعاون کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ امریکا خود افغانستان کی صورتحال سے نکلنے کیلئے پاکستان کی مدد کا محتاج ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں تو امریکا سیاسی و اخلاقی اور مالی زوال کی اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کہتے ہیں کہ ہماری سیاست، ہمارا عام رہن سہن اور انداز تخاطب سب ہی گر چکا ہے۔ ہم بے عزتی، فضول تنازعات اور مصنوعی غصے کا اظہار کرکے بے بنیاد خوف میں مبتلا ہیں۔ دو مرتبہ عہدئہ صدارت پر فائز رہنے والے سابق امریکی صدر بارک اوباما کا یہ بیان امریکا کے ہمہ گیر زوال اور پستی کا نقشہ پیش کرنے کیلئے کافی ہے۔