ابو ظہبی میں عید الاضحی

آج بارش نہیں ہو رہی تھی۔ آج بادل بھی نہیں تھا، لیکن گاڑی کے شیشوں پر بار بار وائپر چلانا پڑ رہا تھا۔ کاشف کی پاتھ فائندڈر کی چھت سے پرنالے بہہ رہے تھے۔ ہوا میں رطوبت اس قدر زیادہ تھی کہ گاڑی کے آگے دھند چھا جاتی اور سڑک غائب ہو جاتی تھی۔ اس لیے ہر دس سیکنڈ بعد وائپر چلانا پڑ رہا تھا۔ فیصل بار بار چہرے سے پسینے کی بوندیں صاف کر رہا تھا۔ گاڑی کے مسافر باآواز بلند تکبیرات تشریق پڑھ رہے تھے: اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، لاالٰہ الا اللہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد۔ بلند آواز کے زیرو بم سے گاڑی پل چڑھتی اور اترتی محسوس ہوتی تھی۔ (واضح رہے کہ وہاں تکبیرات میں پہلے تین مرتبہ اللہ اکبر کہا جاتا ہے۔) سب مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے باآواز بلند تکبیرات کا ورد کرتے سوئے مسجد جا رہے تھے۔ کیونکہ قریب کوئی عیدگاہ نہیں تھی۔ فیصل کو مسجدیں دریافت کرنے کا بے حد شوق ہے۔ کسی بھی نئی مسجد کا پتہ چلنے پر اس میں نماز پڑھنے چل دیتا ہے۔ دنیا کی ہر اچھی سے اچھی جگہ کے مقابلے میں مسجد اسے بے حد سکون بخشتی ہے۔ میں اسے مرد درویش (موتی چننے والا) سمجھتا ہوں۔ چند روز پہلے وہ ایک نئی اور خوب صورت مسجد دریافت کر کے آیا تھا۔ اس نے دل میں عہد کیا تھا کہ اس مرتبہ عید الاضحی کی نماز اسی مسجد میں ادا کرے گا۔ اس وقت وہ ہمیں نماز کے لیے اسی مسجد میں لیے جا رہا تھا۔
مسجد کے پارکنگ ایریا سے ملحق تین جگہوں پر چھوٹے چھوٹے اسٹیپ والی لمبی لمبی سیڑھیاں چڑھنے پر مسجد کے برآمدے میں داخل ہو گئے۔ مسجد کے مین ہال میں نظر ڈالی، وہاں بیس پچیس لوگ نیند کے زیراثر قبلہ رو ہو کر مؤدب بیٹھے تھے۔ لگتا تھا کہ صبح کی نماز سے پہلے ہی سے ان کا قیام یہیں پر ہے۔ باآواز بلند تکبیرات نے انہیں مستعد رکھا ہوا تھا۔ مسجد کا وسیع و عریض ہال خالی پڑا تھا۔ اس قدر کم حاضری پر اہل ابوظہبی کا کوئی دوش نہ تھا۔ نئی مسجد دیکھنے اور دکھانے کے جوش میں فیصل ہمیں وقت سے کافی پہلے لے آیا تھا۔ ’’مرد درویش‘‘ جو ٹھہرا۔ لوگ ابھی اشراق پڑھ رہے تھے۔ جلدی آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں اگلی صفوں میں جگہ مل گئی۔ فیصل نے میری کرسی جو وہ گھر سے لے آیا تھا، مناسب سی جگہ پر لگا دی کہ آنے جانے والوں کے لیے رکاوٹ نہ بنوں۔ اچانک ہی میرے اوپر سائے کا لپکا سا ہوا۔ طویل قامت بھاری تن و توش کے ایک عرب شیخ میرے قریب پہنچے اور رومال میں لپٹا ہوا ’’اگل‘‘ جائے نماز پر پٹخ دیا اور تحیۃ المسجد کے نفلوں کی نیت باندھ لی۔ ’’اگل‘‘ کالے رنگ کا بنا ہوا ایک خوبصورت حلقہ ہوتا ہے، جو سر پر رومال کے اوپر چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ حلقہ وہاں کے لباس کا حصہ بھی ہے اور روایت بھی۔ سر ڈھانپنے کی انہوں نے کوئی زحمت نہیں کی تھی، لیکن ان کا قیام، رکوع و سجود طویل تھے۔ عجز و نیاز اس پر مستزاد تھا۔ بعد میں فیصل کو جب ان کا یہ انداز بتایا تو اس نے بتایا، ان لوگوں کا یہی طریق ہے۔ ان کے اس رویئے پر اب ہمیں کوئی حیرانی نہیں ہوتی، یہ معمول کی بات ہے۔ جائے نماز پر قدم رکھتے ہی لگے گا کہ کہیں سے لڑ کر آئے ہیں۔ لیکن جب نماز کی نیت باندھ لیتے ہیں تو آبریشم کی طرح نرم پڑ جاتے ہیں۔
مسجد ابھی تک خالی خالی دکھائی دے رہی تھی، لیکن تسبیحات باآواز بلند کورس کے انداز میں پڑھی جا رہی تھیں۔ آنے والے تقریباً ہر دوسرے تیسرے آدمی کے ساتھ کوئی نہ کوئی بچہ ضرور تھا تاکہ نئی نسل اسلامی اقدار و روایات سے روشناس ہو سکے اور جب وہ بڑا ہو جائے تو اسلامک ہسٹری سے واقف مسلمان ہو اور وقت آنے پر وہ اپنے بچوں کی مسلم اصولوں پر راہنمائی کر سکے۔ عید کے بارے میں بتا سکے کہ یہ ہمارے لیے خوشی کا دن کیوں ہے؟ اس دن کیا ہوا تھا؟ مسلمانوں کے لیے یہ دن کس اہمیت کا حامل ہے تاکہ عظیم امت محمدیہ، عظیم سے عظیم تر ہو جائے۔ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم کی بجا آوری کے لیے منیٰ میں لے آئے۔ حضرت اسماعیلؑ نے حکم خداوندی کے تحت آداب فرزندی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کر دیا۔ اللہ نے ان کی قربانی قبول فرمائی اور ان کی جگہ جنت سے مینڈھا بھیج دیا۔ یہ عید اسی واقعے کی یادگار ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال حسب استطاعت اللہ کے حضور قربانی پیش کرتے ہیں۔
میرا رخ قبلے کی طرف تھا۔ تمام داخلی دروازے میرے پیچھے تھے۔ آنے والوں کی تعداد کا اندازہ کرنے کے لیے مجھے مڑ کر پیچھے دیکھنا پڑتا تھا۔ آنے والوں کی رفتار تقریباً ایک ہی تھی۔ اچانک تکبیرات پڑھنے والوں میں ایک خوشگوار سی تبدیلی آگئی۔ ایک نئی، تیز اور بے حد خوب صورت آواز نے پڑھنے والوں کو لیڈ کرنا شروع کر دیا۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، لاالٰہ الا اللہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد۔
اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔
اللہ کی کبریائی کا یہ وجد آفریں ترانہ ایک لے اور ایک ہی دھن میں پڑھا جارہا تھا۔ اس کے تسلسل نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ مسجد کے مرکزی ہال نے تسبیحات کی گونج میں اپنی گونج بھی شامل کر دی تھی۔ نقشہ کچھ یوں بن گیا کہ لیڈ کرنے والا ’’اللہ اکبر‘‘ کہتا، جسے وہ اپنی خوب صورت آواز میں اتنی طوالت دیتا، جتنی لمبی اس کی اپنی سانس تھی۔ ایک لمحے کے ہزارویں حصے کے وقفے کے بعد طویل و عریض ہال اپنی گونج کے ذریعے اللہ اکبر کہنا شروع کرتا اور ہال بھی اتنی ہی طوالت اختیار کرتا۔ ہال کے تکبیر ختم کرتے ہی ایک لمحے کے ہزارویں حصے بعد لیڈ کرنے والا اگلی تکبیر شروع کر چکا ہوتا۔ یہ ایک ایسا تسلسل تھا، جس میں کوئی وقفہ نہ تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔ اس صورت حال نے تقدیس کا ایسا بھرپور ماحول پیدا کر دیا کہ فضا نور کے رنگوں میں ڈوب گئی۔ رنگ رنگ کے لوگ ایک ہی رنگ میں رنگ گئے۔ اس وقت مجھے نبی کریمؐ کی وہ بات یاد آگئی، جو آپؐ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمائی تھی۔
’’تم میں اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ شعار ہے۔ بے شک اللہ علیم و خبیر ہے۔ دیکھو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر اور کسی سرخ کو کسی کالے سیاہ پر کوئی فضیلت و امتیاز نہیں۔ مگر ہاں! تقویٰ کے سبب۔‘‘
ایسا لگ رہا تھا جیسے میں پندرہ سو سال پیچھے چلا گیا ہوں۔ صحابہ کرامؓ کی وفائوں کے رنگ ہم سب پر حاوی ہو گئے ہوں۔ لبیک یا رسول اللہؐ کی صدائیں گونج رہی ہوں۔ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہو رہے ہوں۔ امام صاحب کے کھڑے ہوتے ہی سب لوگ صف بندی کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اب جو ہال پر نگاہ ڈالی تو تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ لوگ دیواروں کے ساتھ انتظار میں لگے کھڑے تھے کہ صف بندی کے دوران اگلی صفوں میں گنجائش نکل آئے۔ تو وہ بھی صف میں شامل ہو جائیں۔
مین ہال کے پیچھے بھی اتنا ہی بڑا ہال تھا، جو کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ ابوظہبی میں پاکستان کی طرح بچوں کو آخری صف میں بھیجنے کا رواج نہیں، وہ بھی بڑوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اتنے بڑے ہجوم میں بچوں کا بچھڑ جانے کا احتمال رہتا ہے۔ اس لیے ان کا بڑوں کے ساتھ ہی رہنا بہتر تھا۔ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرماتے تھے اور خود سے جدا نہیں فرماتے تھے۔
بچپن میں حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ اپنے ناناؐ کے پیچھے مسجد آجاتے تھے۔ حضور اکرمؐ سجدے میں جاتے تو دونوں نواسے آپؐ کی پشت مبارک پر سوار ہو جاتے۔ حضورؐ اس وقت تک سجدے سے سر نہ اٹھاتے جب تک وہ ازخود اتر نہ جاتے۔ نماز مروجہ طریقے پر پڑھی گئی، جو پاکستان، سعودی عرب اور تمام دنیا میں پڑھی جاتی ہے۔ نماز میں اور نماز کے بعد بھی امام صاحب نے تکبیرات پڑھائیں اور خطبے ہوئے۔ عالم اسلام کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔
نماز سے فراغت کے بعد یہاں معانقے کا رواج ہے۔ سب ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ اسلام ہمیں محبت اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ اس لیے یہاں بھی اس کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ گورے اور کالے۔ عربی اور عجمی خوش دلی سے باہم گلے مل رہے تھے۔ یہاں خواتین بھی مسجد میں ہی نماز ادا کرتی ہیں۔ ان کے لیے تمام مساجد میں الگ حصہ بنا ہوتا ہے۔
امارات میں حنبلی اور شافعی مسلک کی اکثریت ہے۔
حنفی اور اثنا عشری مسالک کے لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ لیکن نماز ایک ہی مسجد اور ایک ہی صف میں پڑھتے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کرتا۔ لکم دینکم ولی دین۔ میرا دین میرے لیے اور تمہارا دین تمہارے لیے ہے۔ کوئی بحث نہیں، کوئی فساد نہیں۔ نماز کے بعد شیعہ سنی سے اور سنی شیعہ سے گلے مل رہا ہوتا ہے۔ یہاں نماز باجماعت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اگر آپ کی جماعت نکل گئی تو دوسری جماعت تیار ہے اور اگر دوسری بھی نکل گئی تو تیسری تیار ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ انفرادی طور پر بھی لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ نماز کے بعد لوگوں کو واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی اور نہ ہی بھگدڑ مچتی ہے۔ لوگ بڑے اطمینان سے گھر جاتے ہیں۔
نماز سے فراغت کے بعد ہم مسجد سے باہر آئے تو عید پڑھنے والوں کی ٹولیاں ابھی تک آرہی تھیں۔ یہ دیکھ کر کہ نماز تو ہو چکی، ان کے چہروں پر مایوسی چھا گئی اور وہ دل ہی دل میں اپنے تساہل پر پشیمان ہو رہے تھے۔ عید کی نماز ایک ہی مرتبہ باجماعت پڑھی جاتی ہے۔ دوسری یا تیسری جماعت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ پورے یو اے ای میں نماز کا وقت بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ اس لیے کسی اور مسجد میں عید کی باجماعت نماز ملنے کی توقع عبث ہے۔
ابوظہبی میں قربانی کا سسٹم
جانوروں کی خریداری کے لیے منڈیاں لگتی ہیں۔ اتنی صاف ستھری کہ جیسے کوئی شاپنگ سینٹر ہو۔ گندگی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ ہر منڈی کے ساتھ مذبح خانہ ہوتا ہے۔ جانور کو گھر لانے کی اجازت نہیں۔ حکومت نے اتنا اچھا انتظام کر رکھا ہے کہ کسی کو قربانی کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ آپ منڈی جائیں۔ اپنی پسند کا جانور خریدیں، اس کی رسید حاصل کریں۔ آپ کی قربانی پر نمبر لگ جائے گا۔ نمبر آنے پر آپ کو فون آجائے گا کہ آپ فلاں وقت تک سلاٹر ہائوس پہنچ جائیں۔ قربانی سے پہلے حکومت بہت تھوڑی سی فیس لے گی اور نمبر کے ساتھ آپ کو قربان گاہ کی انتظارگاہ میں پہنچنے کی ہدایت کرے گی۔ آپ کا جانور آپ کے پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ چکا ہو گا۔ تھوڑی دیر میں آپ کا نمبر پکارا جائے گا۔ آپ آفیسر کو اپنا نمبر اور رسید دکھائیں گے تو وہ آپ سے پوچھے گا کہ تکبیر آپ خود ڈالیں گے یا ہم ذبح کر دیں؟ اجازت ملنے پر قصائی جانور ذبح کر دے گا۔
مشین ایک منٹ میں کھال اتار دے گی۔ صفائی کے بعد قصائی جانور چار ٹکڑے کر کے آپ کے ہاتھ میں تھما دے گا۔ باقی کام آپ شہر کے قصائی سے کروائیں گے۔ کلیجی، پھیپھڑے، دل، گردے، سری، پائے نام کی کوئی چیز آپ کو نہیں ملے گی۔ یہ سب کچرے میں جائیں گے۔ انہیں لے جانے پر گورنمنٹ کی طرف سے پابندی ہے۔ مبادا کہ شہر میں گندگی پھیلے اور لوگ بیمار ہوں۔ عید قرباں گزر جاتی ہے، لیکن شہر میں گندگی کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
گھر واپس پہنچے تو کاشف اور فیصل حلوہ پوری لینے چل دیئے۔ شہر میں کوئی لاہوری حلوائی ہے، جو حلوہ پوری تیار کرتا ہے۔ جب واپس آئے تو پوری کے نام پراٹھے نکلے۔ اب بحث کرنے اور نخرے دکھانے کی ہمت نہیں تھی۔ چند منٹ بعد وہ ہمارے معدوں میں اتر چکے تھے۔ بکرے قربان گاہ میں کھڑے تھے۔ آج تو گوشت آنے کی امید کم ہی تھی، البتہ کل شام تک ان کی بریانی سے ملاقات ممکن تھی۔ پوری نما پراٹھوں نے نیند کو مہمیز لگا دی تھی۔ سو کر اٹھے تو اگلی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔

Comments (0)
Add Comment