موت پر سب کا اتفاق ہے

دنیا میں صرف ایک چیز ہے، جس پر تمام انسانوں کا اتفاق ہے۔ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں اختلاف کیا۔ انبیاءؑکے بھیجے جانے پر اختلاف کیا۔ ان کی عصمت و پاکبازی پر اختلاف کیا۔ مگر وہ چیز جس پر تمام انسانوں کا اتفاق ہے، وہ موت ہے۔ مرنا یقینی ہے۔ کب مرنا ہے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ سو فیصد یقین ایک لمحے کا بھی نہیں ہے۔ جو سانس اندر گیا وہ باہر نہ آئے، یہی موت ہے۔ جو دل پیدائش سے اب تک دھڑک رہا ہے، وہ رک جائے، موت ہے اور یہ اتفاق جبری ہے۔ سب انسان اس اتفاق پر مجبور ہیں، کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا ہماری طرح زندہ اور صحت مند تھے۔ وہ مٹی میں چلے گئے۔ اچانک موت کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو گنا نہیں جا سکتا۔
آج کے اس مضمون کا مقصد ایسے واقعات کا انتخاب ہے، جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو موت سے پہلے موت کا علم کرا دیا تھا اور وہ موت کے انتظار میں اس کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے۔
اچانک موت کے یہ دو واقعے عجیب ہیں۔ حضرت علقمہؒ کی والدہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت حضرت عائشہ صدیقہؓ کے گھر میں داخل ہوئی اور اس نے حضور اکرمؐ کے گھر کے قریب نماز پڑھی۔ وہ اچھی خاصی تندرست تھی۔ جب اس نے سجدہ کیا تو سر نہ اٹھایا۔ پتہ لگا کہ وہ وفات پا چکی ہے۔ سبحان اللہ! یہ صحابیہؓ کیسی آسان اور مبارک موت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے جا ملی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا تمام تعریف اس اللہ پاک کی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے۔
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میرے لئے میرے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ کی موت کے بارے میں بڑی عبرت ہے۔ وہ اپنے سونے کی جگہ سونے گئے۔ جب لوگ ان کو بیدار کرنے کے لئے وہاں گئے تو دیکھا کہ وہ وفات پا چکے ہیں۔ اس اچانک موت پر ام المومنینؓ کے دل میں بدگمانی پیدا ہوئی کہ میرے بھائی کے ساتھ شرارت کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے اور یہ خیال پیدا ہوا کہ ان میں جان تھی اور ان کو زندہ دفنا دیا گیا۔ لیکن اس عورت کی اچانک موت کے واقعے سے ان کو عبرت ہوئی اور جو وہم ان کے دل میں تھا، اس قصے سے ختم ہو گیا۔ (حیات الصحابہ۔ ج 3۔ ص34)
حضرت سلمان فارسیؓ کی وفات
امام شعبیؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ کی بیوی بقیرہ نامی کا بیان ہے کہ حضرت سلمانؓ کی وفات کا وقت قریب ہوا۔ وہ اپنے بالا خانے میں تھے۔ اس کے چار دروازے تھے۔ انہوں نے بیوی سے کہا: اے بقیرہ! یہ سارے دروازے کھول دے۔ اس لئے کہ میرے پاس آج بہت زیارت کرنے والے آئیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سے دروازے سے داخل ہوں گے۔ پھر انہوں نے اپنا مشک منگوایا اور فرمایا اسے ایک برتن میں رکھ کر پانی میں گھول دے۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد فرمایا: اسے میرے بستر کے چاروں طرف چھڑک دے اور تم تھوڑی دیر کے لیے نیچے چلی جاؤ، تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا (کہ کیا معاملہ ہے؟) تم آکر میرے بستر کی طرف دیکھنا۔
بقیرہؓ کہتی ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد میں بالاخانے پر چڑھی اور بستر کی طرف دیکھا۔ ان کی روح قبض کی جا چکی تھی اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کہ وہ اپنے بستر پر (آرام سے) سو رہے ہیں۔ جیسے وہ پہلے سویا کرتے تھے۔ شعبیؒ کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ وفات سے قبل انہوں نے خوشبو والی بات کے بعد فرمایا کہ میرے پاس ایسی مخلوق آئے گی جو خوشبو حاصل کرے گی، مگر کھانا نہیں کھائے گی۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے پاس فرشتے آئیں گے، جو خوشبو حاصل کریں گے اور کھانا نہیں کھائیں گے۔ یعنی فرشتوں کا نام متعین کردیا۔ (حوالہ بالا۔ ص۔ 36)
راقم کو یہ واقعہ پڑھ کر کئی باتوں پر تعجب ہوا۔ سب سے پہلے تو اس بات پر کہ موت کا وقت قریب ہونے کا سبب اکثر کوئی مرض ہوتا ہے اور یہ مرض بہت سخت اور تکلیف دہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے یہ غالب گمان ہوتا ہے کہ اس سے جانبر ہونا مشکل ہوگا۔ اس حالت میں موت کا استقبال ایسے اہتمام سے کرنا بہت ہی عجیب اور نادر ہے۔
اس سے بھی زیادہ عجیب یہ بات ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ کو کچھ دیر بعد موت کے واقع ہونے کا یقین سو فیصد کے قریب معلوم ہوتا ہے۔ دروازوں کے کھولنے کا حکم، مشک کو بستر کے اطراف چھڑکنے کا حکم، بیوی کو بالاخانے سے اترنے کا حکم اور یہ فرمانا کہ تھوڑی دیر بعد تم آکر بستر کی طرف دیکھنا تو تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ یہ سب باتیں ا ن کے غیر متزلزل یقین کی علامت ہیں۔ لگتا ہی نہیں کہ انہیں ’’کچھ دیر بعد‘‘ موت کے آنے میں کوئی ادنیٰ شبہ ہو۔ بغیر کسی مرض کے وفات ہونا شاذ و نادر ہوتا ہے۔ جیسا کہ اوپر موت کے واقعے میں ظاہر ہوا۔ موت بغیر تکلیف کے نہیں ہوتی۔ چاہے وہ تکلیف چند سیکنڈ ہی کی ہو۔ وہ عورت بھی موت کی تکلیف سے ضرور گزری ہوگی اور حضرت سلمانؓ کے واقعے میں بھی ایسا ہی ہونا ممکن ہے۔
ایک بچے کا جنازہ
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے: فرماتی ہیں کہ رسول اکرمؐ سے عرض کیا گیا کہ وہ ایک انصاری بچے کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے چلیں۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس بچے کے لیے خوشخبری ہو۔ وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے۔ نہ اس نے کوئی برائی کی ہے اور نہ برائی کرنے کا زمانہ پایا ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: اے عائشہ! خواہ واقعہ اس کے خلاف ہو۔ بیشک اللہ پاک نے جنت پیدا کی اور اس میں بسنے والے پیدا کر چکا اور اس وقت (پیدا کر چکا) جب کہ مخلوق اپنے باپ کی پشتوں میں تھی اور اس نے جہنم پیدا کیا اور اس میں رہنے والے پیدا کئے، جبکہ وہ ابھی تک اپنے باپ کی پشتوں میں تھے (حوالہ بالا۔ از مسلم)
اس میں آنحضرتؐ نے تقدیر پر ایمان رکھنے کی تلقین کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت دوزخ اور ان میں رہنے والے پیدا فرما چکے ہیں۔ کسی کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ کہنا کہ وہ جنتی ہے یا دوزخی، آخرت میں پہنچ کر ہی ممکن ہوگا۔ دنیا میں تو یہ ممکن نہیں۔ البتہ علامتوں سے اندازہ ہو سکتا ہے۔
حضرت عبادہؓ کی وفات
ولید بن عبادہؒ فرماتے ہیں کہ میں (اپنے والد) حضرت عبادہؓ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ بیمار تھے۔ جب مجھے ان کے بارے میں موت کا گمان غالب ہوا تو میں نے کہا: ابا جان! آپ مجھے وصیت کیجئے اور میرے بارے میں کوشش کیجئے۔ حضرت عبادہؓ نے فرمایا: مجھے بٹھاؤ۔ جب لوگوں نے انہیں بٹھایا تو فرمایا: اے میرے بیٹے! تو ایمان کا ذائقہ اس وقت تک نہیں چکھ سکتا اور اللہ کے علم کی حقیقت تک پہنچنے کا حق ادا نہیں کر سکتا، جب تک تو تقدیر کے بھلے اور برے پر ایمان نہ لائے۔ (یعنی تقدیر پر ایمان لائے بغیر آدمی مسلمان نہیں ہوتا)
میں نے عرض کیا: ابا جان! مجھے اس کا علم کیسے ہو کہ تقدیر کی بھلائی اور برائی کیا ہے؟ فرمایا: تو یقین کرلے کہ جو چیز تجھ سے چوک گئی، یعنی تجھے نہیں ملی، وہ تجھ تک پہنچنے والی نہیں تھی اور جو چیز تجھے پہنچی، وہ تجھ تک ضرور پہنچنی تھی (اسے کوئی روک نہیں سکتا تھا) اے میرے بیٹے! سب سے پہلے وہ چیز جسے اللہ نے پیدا کیا، قلم ہے۔ پھر اس سے فرمایا: لکھ! چنانچہ وہ اسی وقت جاری ہوگیا اور اس نے وہ سب کچھ لکھ دیا جو قیامت تک واقع ہونے والا تھا۔ اے میرے بیٹے! اگر تو مر گیا اور اس عقیدے پر نہ رہا تو تو جہنم میں داخل ہوگا۔ (حوالہ بالا۔ از ترمذی)
خاندان کے دو عجیب واقعے
ان واقعات کو لکھنے کے بعد راقم کو اپنے خاندان میں ہونے والے دو عجیب واقعے یاد آگئے۔ ایک واقعے کا تعلق راقم کے قصبہ پیدائش یعنی دیوبند یوپی انڈیا سے ہے۔ (وطن کے لفظ سے راقم نے اس لئے گریز کیا ہے کہ وطن تو ہمارا پاکستان ہے)۔ راقم کے والد حضرت مفتی محمد شفیعؒ کے ایک بھانجے جو ماشاء اللہ عالم تھے اور آخر میں دیوبند کے مقبول اساتذہ میں تھے۔ بڑے عجیب شخص تھے۔ کچھ درویشی رنگ تھا۔ مگر سب کے ساتھ بے تکلف اور ہنسنے ہنسانے والے تھے۔ ہماری پھوپی یعنی والد صاحب کی بہن کے شوہر ہماری یاد سے پہلے وفات پا چکے تھے۔
باوجود معاشی تنگی کے اپنے سب بھانجوں کی پرورش والد صاحبؒ نے ہی کی تھی۔ ان تمام بھانجوں میں صرف یہی بھانجے پڑھ لکھ کر عالم بنے۔ ان کا نام سید تھا۔ والد صاحبؒ سے سب بھانجوں کو باپ جیسی محبت تھی۔ ان کی موت بھی عجیب طریقے سے بالکل اچانک ہوئی۔ مدرسے سے سبق پڑھا کر گھر آئے تو کچھ تھکان محسوس ہوئی۔ پیاس لگی۔ ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور بیوی سے کہا: مجھے پیاس لگی ہے، پانی پلا دو۔ بیوی پانی لینے گئی۔ ان کو کچھ خراٹے کی سی آواز آئی۔ واپس آئی تو دیکھا وہ یہ دنیا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس جا چکے تھے۔ نہ کوئی بیماری۔ نہ تیمارداری۔ کسی کو ادنیٰ تکلیف دیئے بغیر دنیا سے چلے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دوسرا واقعہ
وہ والد صاحبؒ کے بھانجے کا واقعہ تھا۔ یہ راقم کی بھانجی اور ان کے بیٹے کا واقعہ ہے۔ میری یہ بھانجی دو مہینے سے بیمار تھی۔ سخت نمونیہ ہوگیا تھا۔ اسپتال میں تقریباً دو ہفتے وینٹی لیٹر پر رہیں۔ پھر صحت یاب ہوئیں اور ڈاکٹر نے کہا یہ خطرے سے باہر ہیں، ایک دو دن میں چھٹی دیدیں گے۔ ان کی عمر ساٹھ سال سے متجاوز تھی۔
دوسری طرف ان کے اکیلے بیٹے بھی ان ہی دنوں میں کسی تکلیف کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے اور سخت جاں کنی کی حالت میں اسپتال میں داخل ہوئے۔ اب ماں اور بیٹا دونوں اسپتال میں تھے۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے جاننے والے ڈاکٹر ان کے معالج تھے۔ ایک مرتبہ راقم ان کی عیادت کے لئے گیا۔ دونوں کے اسپتال الگ الگ تھے۔ اس لئے تیمار داروں اور عیادت کرنے والوں کو پریشانی ہوتی تھی۔ دونوں کے ڈاکٹروں سے راقم نے ان کا حال دریافت کیا تو بھانجی کے لئے ڈاکٹروں نے بہت امید افزاء بات کی۔ مگر بیٹے کے معاملے میں انہوں نے زندگی سے مایوسی کا اظہار کیا۔ واقعہ تو طویل ہے، مگر حق تعالیٰ شانہ کی قدرت دیکھئے کہ جس کی زندگی کی پیش گوئی تھی، وہ اسپتال ہی میں بہت تکلیف اٹھا کر اپنے رب سے جا ملی اور جس بیٹے کی زندگی کے لیے ڈاکٹروں نے جواب دیدیا تھا۔ وہ الحمد للہ اب تندرست ہو کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش ہے۔ اب سب واقعات کا پیغام بہت واضح ہے کہ موت یقینی ہے اور جتنی یقینی اس سے اتنی ہی غفلت ہے، جبکہ کچھ پتہ نہیں کہ کونسا دن آخری ہوگا۔ روز ہزاروں اور شاید لاکھوں لوگ مرتے ہیں۔ جس کی موت کا وقت کل کا ہے، اس کا تو یہی آخری دن ہے۔ اس لئے موت سے غفلت بہت خطرناک ہے۔ اگر اب تک غفلت میں وقت گزر گیا تو ابھی مہلت باقی ہے، گناہوں سے توبہ کرلیں اور اپنے اعمال، اخلاق کی اصلاح کی فکر میں لگ جائیں۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ٭

Comments (0)
Add Comment