تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی منگل چار ستمبر کو پاکستان کے تیرہویں صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کے انتخاب کا باقاعدہ اور سرکاری اعلان آج (بدھ کو) کو کیا جائے گا۔ ڈاکٹر عارف علوی کو قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے تین سو تریپن انتخابی ووٹ ملے، جبکہ ان کے پہلے مد مقابل مولانا فضل الرحمان کو ایک سو چوراسی اور تیسرے صدارتی امیدوار بیرسٹر اعتزاز احسن کو ایک سو تیئس ووٹ ملے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہوتے ہی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے سب سے پہلے اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا ضروری سمجھا کہ اس نے تحریک انصاف کو ایک اور کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اس کے بعد عارف علوی نے اپنی پارٹی کے چیئرمین عمران خان کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھیوں نے شب و روز محنت کرکے مجھے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ تاہم میں ان کے ساتھ پوری قوم کا بھی شکر گزار ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ میں خود کو صرف اپنی پارٹی، تحریک انصاف کا نہیں، بلکہ تمام جماعتوں اور پوری قوم کا صدر ثابت کرنے کی کوشش کروں گا۔ نو منتخب صدر عارف علوی نو ستمبر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کل چار سو تیس ووٹوں میں سے عارف علوی کو دو سو بارہ، مولانا فضل الرحمان کو ایک سو اکتیس اور اعتزاز احسن کو اکاسی ووٹ حاصل ہوئے، جبکہ پارلیمان کے چھ ووٹ مسترد کردیئے گئے۔ پنجاب میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یاور علی نے ووٹنگ کے دوران صدارت کے فرائض انجام دیئے، جبکہ پنجاب کے الیکشن کمشنر ظفر اقبال حسین نے ریٹرننگ افسر کی ذمے داری سنبھالی۔ اس طرح سندھ میں صوبائی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ، پشاور میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور بلوچستان میں ہائی کورٹ کی چیف جسٹس سیدہ طاہرہ نے پریزائیڈنگ افسر کے فرائض انجام دیئے۔ پارلیمان میں انتخابات کا عمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی صدارت میں انجام پذیر ہوا۔ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا پورے صدارتی انتخاب کے ریٹرننگ آفیسر تھے۔ صدر کے عہدے پر فائز ہونے والے ڈاکٹر عارف علوی پیشے کے لحاظ سے دانتوں کے امراض کے ماہر اور سرجن ہیں۔ انہوں نے ایک متحرک سیاستدان اور رکن پارلیمان کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔ وہ انتیس جولائی 1949ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اندرون ملک پنجاب اور بیرون ملک امریکا سے امراض دندان کے علاج اور سرجری کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کا شمار تحریک انصاف کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ انہوں نے طالبعلمی کے زمانے سے سیاست کا آغاز کیا۔ وہ اپنے کالج میں طلبا یونین کے صدر رہے۔ اسلامی جمعیت طلبا کے پلیٹ فارم سے جنرل ایوب خان کے دور میں وہ طلبا تحریک میں بہت سرگرم تھے۔ ایک مظاہرے کے دوران ان پر دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا، لیکن وہ بچ گئے۔ تاہم ان کے دائیں بازو میں آج بھی ایک گولی پیوست ہے، جسے عارف علوی اپنی جمہوری جدوجہد کی علامت کے طور پر جسم کا ایک حصہ بنائے ہوئے ہیں۔
نو منتخب صدر عارف علوی اس وقت تحریک انصاف سے وابستہ ہوئے جب عمران خان نے 1996ء میں اس کی بنیاد ڈالی تھی۔ 1997ء میں وہ سندھ اسمبلی کے انتخابات میں پی ایس 89 کی نشست پر شکست سے دوچار ہوئے۔ اسی سال انہیں سندھ میں تحریک انصاف کا چیئرمین بنایا گیا۔ 2002ء میں عارف علوی پی ایس 90 کے امیدوار تھے۔ یہاں بھی وہ ہار گئے۔ 2006ء میں انہیں پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنا دیا گیا۔ اس عہدے پر وہ 2013ء تک کام کرتے رہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں انہوں نے این اے 250 کی نشست پر ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت کو شکست دی۔ یاد رہے کہ کراچی میں یہ ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے عروج کا زمانہ تھا اور اس کے امیدواروں کے مقابلے میں کسی دوسرے کا جیت جانا تقریباً ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 247 پر کامیابی حاصل کی۔ عارف علوی کے والد برصغیر کے مشہور ماہر امراض دندان تھے۔ ان سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم اور کانگریسی رہنما جواہر لال نہرو نے بھی علاج کرایا تھا۔ نومنتخب صدر کے والد ڈاکٹر حبیب الرحمان الٰہی علوی نے 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان آنے کے بعد کراچی کے علاقے صدر میں اپنا ڈینٹل کلینک کھول لیا تھا۔ ڈاکٹر عارف علوی کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے دادا جماعت اسلامی کے رکن تھے اور ان کے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن سے بڑے گہرے اور قریبی تعلقات تھے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اٹھارہ اگست کو وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے دو روز بعد ہی ڈاکٹر عارف علوی کو عہدہ صدارت کے لئے نامزد کردیا تھا۔ ڈاکٹر عارف علوی متحدہ اپوزیشن کے شدید اختلافات نیز پیپلز پارٹی کی جانب سے بیرسٹر اعتزاز احسن اور مسلم لیگ کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو صدارتی امیدوار نامزد کئے جانے کے بعد باآسانی کامیاب ہوکر اس منصب پر پہنچے ہیں۔ انہیں ایک معتدل مزاج انسان تصور کیا جاتا ہے، جو محاذ آرائی کے بجائے صلح کل کے حامی ہیں۔ انہیں مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ کے عوام میں احترام اور اعتماد کا درجہ حاصل ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تحریک انصاف کے اثرو نفوذ کی وجہ سے صدر عارف علوی وہاں بھی یقیناً مقبولیت کے حامل ہوں گے۔ اس تمام پس منظر کے باوجود نومنتخب صدر کی اہلیت اور کارکردگی کا اندازہ ان کے آئندہ اقدامات ہی سے ہو سکے گا کہ وہ اپنے قومی فرائض کی انجام دہی میں کس طرح تمام امتیازات، تعصبات اور گروہی مفادات سے بلند ہوکر اپنی اہمیت، صلاحیت اور کارکردگی کا لوہا منواتے ہیں۔ انہیں قدم قدم پر لوہے کے چنوں سے واسطہ پڑے گا، جن کا علاج کرنے کے لئے دندان سازی کے ہلکے پھلکے اور نرم و نازک آلات و اوزار کافی نہیں ہوں گے۔٭