1965ءکی جنگ کی یادیں پھر سے تازہ ہو گئیں۔ لاہور کے مشہور و معروف حکیم اور دانشور حکیم نیر واسطی صاحب مرحوم و مغفور 1965ء کی جنگ کے دوران مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔ جب واپس پہنچے تو انہوں نے ریڈیو پاکستان سے جنگ کے متعلق اپنے تاثرات بیان کئے۔ فرمایا:
لاہور کی وہ خاتون جو 18 سال سے مدینہ منورہ میں مقیم ہے اور روضہ پاک کی جالی کے پاس بیٹھی رہتی ہے۔ اس نے بتایا کہ 6 ستمبر کو میں نے حضور اعلیٰ کو اس قدر پریشان دیکھا، جیسا پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
ایک بزرگ جو روضہ اطہر پر مجھ سے ملتے تھے۔ 6 ستمبر کو کہیں دکھائی نہ دیئے۔ ایک مرید نے بتایا کہ آپ جہاد کے لیے پاکستان گئے ہیں۔
ایک اور بزرگ نے فرمایا کہ ’’جنگ بدر کے تمام شہید پاکستان پہنچ چکے ہیں تاکہ جہاد میں شامل ہو سکیں۔‘‘
پھر اکتوبر 1965ء میں کراچی کے ایک اخبار میں کئی ایک خبریں اس موضوع پر شائع ہوئی تھیں، جن میں بھارتی قیدیوں کے بیانات بھی شامل تھے۔ ان بیانات کے مطالعے سے ظاہر تھا کہ بھارتی سپاہی پاکستان کی اس فوج سے خائف تھے جو تلواروں سے لڑتی تھی اور جس کی تلواروں سے بجلی کے شعلے نکلتے تھے۔
شہدائے بدر: آج میں ان شہدا کے حضور کھڑا تھا۔ شرم سے میرا سر جھکا ہوا تھا۔ میں ان کی جانب سر اٹھا کر نہ دیکھ سکتا تھا، اس لیے کہ وہ ہماری مدد کے لیے اتنی دور سے جنگ میں شرکت کرنے کے لیے یہاں آئے تھے، لیکن ہم نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ الٹا ہم نے جنگ بندی کا حکم دے دیا تھا اور وہ حیرت سے ہمارا منہ تکتے رہ گئے کہ یہ پاکستان نے کیا کر دیا۔
ان دنوں خوشاب کے بزرگ ایڈووکیٹ نے کئی ایک خط صدر کے نام لکھے تھے، جن میں بار بار تاکید کی تھی کہ جنگ بندی کو تسلیم نہ کرنا۔
قدرت اللہ شہاب ان دنوں ہالینڈ میں سفیر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے بھی صدر ایوب کو خط لکھ کر مشورہ دیا تھا کہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کو طول دے دیا جائے۔ گفت و شنید میں جنگ بندی کے مقررہ وقت کو ٹال دیا جائے۔ اگر جنگ بندی ضروری ہو تو عارضی تعطل کے فوری بعد لڑائی ازسرنو چھیڑ دی جائے۔
پتہ نہیں کیوں پاکستان کے سربراہوں کو ہمیشہ بزرگوں کی طرف سے مشورے اور ہدایات موصول ہوتی رہی ہیں۔
بہرحال ہمار سربراہوں نے ذاتیات کی بنا پر ہمیشہ جنگ کو ٹالنا چاہا۔ صدر ایوب اقتدار ہاتھ سے جانے کے خوف سے جنگ کرنے کے حق میں نہ تھے۔ جنرل یحییٰ مغربی پاکستان میں اپنی حکومت قائم رکھنے کی غرض سے ایسٹ پاکستان کو دشمنوں کے حوالے کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے۔
پاکستان کو کوئی ایسا سربراہ نصیب نہ ہوا تھا، جو مجاہدانہ شان سے اللہ کے نام پر جنگ کرتا، جو شہیدان بدر کی امداد پر ایمان رکھتا اور ان کا ساتھ دیتا۔
شہیدان بدر کے روبرو میرا سر شرمساری کی وجہ سے جھکا ہوا تھا۔
(پھر مجھے معلوم یاد نہیں پتہ نہیں ہم کب موٹر میں بیٹھے، کب موٹر چلی، کتنی دیر چلتی رہی)
(ممتاز مفتی کی کتاب لبیک سے اقتباس)
٭٭٭٭٭