ہمارے ہاں ایسی عظیم مائیں بھی ہیں…

ہم گزشتہ مضمون میں ملائیشیا کے جنوبی چینی سمندر کے کنارے والی ریاست ترنگانو کا ذکر کر رہے تھے۔ جہاں کی UMT یونیورسٹی میں میرپور خاص کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’میر شہداد خان تالپور‘‘ کے میر اللہ داد ولد محمد رحیم تالپور پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ ان کی دعوت پر میرے دل میں ایک بار پھر ملائیشیا جانے کا شوق پیدا ہوا۔ کیونکہ ملائیشیا کی اس ریاست کا اپنا ایک جادو ہے۔ ملائیشیا جانے والوں کو میں ہمیشہ یہی مشورہ دیتا ہوں کہ اگر انہیں فرصت میسر ہو تو ترنگانو اور قریبی ریاست کیلنتان ضرور جائیں۔
ترنگانو یاست کو ’’دارالامان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ملائیشیا کی کچھ ریاستوں کے والیان نے اپنی ریاستوں کے عربی نام بھی رکھے ہیں۔ اسی طرح سلینگور ریاست کو ’’دارالاحسان‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیداح ریاست دارالامان اور پہانگ ریاست دارالمعمور کہلاتی ہے۔ ترنگانو ریاست کا دارالحکومت کیالا ترنگانو ہے۔ یہ شہر دریائے ترنگانو کے ایک سرے پر واقع ہے۔ یعنی اس مقام پر یہ دریا ساؤتھ چائنا سمندر میں گرتا ہے۔ یہ ایک قدیم شہر اور بندرگاہ ہے۔ ایک زمانے میں یہ ریاست، سیام یعنی آج کے تھائی لینڈ کے قبضے میں تھی۔ سیامی لوگ اسے ’’ترنگ کانو‘‘ کہتے تھے۔
ترنگانو ریاست کی اراضی 5 ہزار مربع میل ہے۔ یعنی جیکب آباد اور لاڑکانہ ضلع کو ملا دیا جائے تو اتنی اراضی ترنگانو کی بنے گی۔ پورے ملائیشیا کی آبادی کم ہے اور ترنگانو، کیلنتان ریاستوں کی آبادی ویسے ہی بہت کم ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پوری ترنگانو ریاست میں دس لاکھ افراد رہتے ہیں اور ادھر ہمارے ہاں صرف جیکب آباد کی آبادی 15 لاکھ ہے اور لاڑکانہ کی 25 لاکھ!
ترنگانو ریاست سات مختصر ضلعوں میں تقسیم ہے جو ملئی زبان میں دائرہ (Daerah) کہتے ہیں۔ یہاں بولی جانے والی ملئی زبان کوالالمپور اور جوہر بارو میں بولی جانے والی زبان سے قدرے مختلف ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں جنوبی سندھ میں بولی جانے والی سندھی زبان اور شمالی میں بولی جانے والی زبان میں کچھ فرق ہے اور تھر کی سندھی ان دونوں سے مختلف ہے۔ اہم سمندری روٹ پر واقع ہونے کے سبب اس ریاست میں صدیوں سے غیر ملکیوں کی آمد و رفت رہی ہے۔ تحریری طور پر اس کا احوال چھٹی صدی سے چینی تاجروں اور جہاز رانوں کی ڈائریوں سے ملتا ہے۔ ملائیشیا کی دیگر ریاستوں کی طرح اس ریاست ترنگانو میں بھی اسلام کی آمد سے قبل بدھ اور ہندو دھرم موجود رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام سب سے پہلے اس ریاست میں آیا۔ مقامی لوگ اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ 1303ء میں کیالا برانگ نامی شہر سے ایک کتبہ دریافت ہوا تھا جس پر عربی تحریر تھی۔
کیالا برانگ اور اس ریاست کے دارالحکومت کیالا ترنگانو سے یاد آیا اور قارئین کو بتاتا چلوں کہ ملائیشیا میں کئی ایسے شہر ہیں جن کے ناموں میں لفظ ’’کیالا‘‘ ایسے آتا ہے جیسے سندھ کے کئی شہروں کے ناموں میں لفظ ’’ٹنڈو‘‘ آتا ہے۔ مثلاً ٹنڈوآدم، ٹنڈو جام، ٹنڈو الٰہیار وغیرہ۔ اسی طرح ملائیشیا کے شہر کیالا ترنگانو، کیالالمپور، کیالا کنگسار، کیالا مودا، کیالا بیسار، کیالا سنگائی بارو… وغیرہ ہیں۔ ’’کیالا‘‘ ملئی لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ’’لب دریا‘‘۔ کیالا ترنگانو، کیالا کنگسار اور کیالا لنگاٹ یعنی ترنگانو، کنگسار اور لنگاٹ دریاؤں کا قرب و جوار، جہاں آج کا کوالالمپور واقع ہے وہاں سے ایک دلدلی دریا گزرتا ہے۔ اس لئے اس شہر کا نام ’’دلدل والی ندی کے قریب‘‘ پڑا۔ اسی طرح مودا (Muda) یعنی جوان، بارو(Baru) یعنی نیا، سنگائی (Sungai) یعنی دریا ان کے ساتھ لفظ کیالا لگایا گیا ہے۔
ملائیشیا میں گھنے جنگل موجود ہونے کے سبب سو سال قبل تک ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کا ذریعہ دریا تھے۔ چاروں طرف سمندر میں سفر کرنے والے، مچھیرے اور لوٹ مار کرنے والے قزاق دریا اور سمندر کے سنگم پر پہنچ کر اندر داخل ہو جاتے تھے۔ جس طرح ہمارے تمام قدیم شہر دریاؤں کے کنارے پر واقع ہیں، اسی طرح ملائیشیا، انڈونیشیا اور سنگاپور میں بھی قدیم شہر لب دریا آباد ہیں۔ سمندر سے دریا میں داخل ہونے والے لوگ کئی شہروں تک پہنچ جاتے تھے۔ ان شہروں میں سے کئی کے نام کیالا سے شروع ہوتے ہیں۔
1724ء میں ترنگانو نے ایک خود مختار ریاست کی شکل اختیار کی۔ تُن زین العابدین اس کے پہلے سلطان بنے، جو اس وقت جوہر ریاست کے سلطان کے چھوٹے بھائی تھے۔ جوہر ریاست مغربی ملائیشیا کے بالکل آخری سرے پر جنوب میں واقع ہے۔ اس ریاست کا دارالحکومت ’’جوہر بارو‘‘ کازوے کے ذریعے سنگاپور جزیرے سے ملا ہوا ہے۔ انیسویں صدی میں ریاست کا سلطان ہر سال سیام حکومت کو خراج ادا کرتا تھا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ سیام حکومت کے قبضے کے دوران ترنگانو نے خوب ترقی کی تھی اور خوشحال ریاست رہی۔ 1919ء میں سیامیوں نے انگریزوں سے ایک معاہدہ کیا۔ جس کے مطابق ترنگانو ریاست انگریزوں کے حوالے کر دی گئی۔ انگریزوں نے اپنا نظام چلانے کے لیے ریاست کے سربراہ کے طور پر سلطان ہی کو رکھا۔ لیکن وہ اپنے مقرر کیے ہوئے انگریز مشیروں کے ذریعے سلطان سے تمام کام اپنی مرضی کے مطابق لیتے تھے۔ ملئی لوگوں کو یہ سسٹم پسند نہ آیا۔ انہیں دبانے کے لیے انگریزوں نے 1928ء میں فوجی طاقت بھی استعمال کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے ترنگانو کے ساتھ ملائیشیا کی دیگر تین ریاستیں: کیلنتان، کیداح اور پرلس بھی سیام (تھائی لینڈ) کے حوالے کر دیں۔ جاپان کی شکست کے بعد یہ تمام ریاستیں دوبارہ انگریزوں کے قبضے میں آگئیں۔ لیکن اس کے بعد جلد ہی 1957ء میں ملائیشیا کو خود مختاری ملی۔
بہرحال ہم ملائیشیا کی ریاست ترنگانو کا احوال یہاں کی مشہور UMT یونیورسٹی کے حوالے سے بیان کر رہے تھے۔ جہاں ضلع میرپورخاص کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے میر اللہ داد تالپور Aquaculture سبجیکٹ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
اس یونیورسٹی کی چار فیکلٹیز ہیں:
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی،
مینجمنٹ اینڈ اکانومی
ایگرو ٹیکنالوجی اینڈ فوڈ سائنس
میری ٹائم اسٹڈیز اینڈ میرین سائنس۔
یونیورسٹی کی خاتون چانسلر اس ریاست کے سلطان اور موجودہ بادشاہ کی بیگم ’’ملکہ تیانکو نورزہرہ‘‘ ہیں۔ میں ان کے متعلق تحریر کر چکا ہوں کہ ان کا تعلق کسی شاہی خاندان سے نہیں ہے۔ ملکہ سلطانہ نور زہرہ 1973ء میں کیداح ریاست کے شہر الور اسٹار میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام روزینہ بنت عادل ہے۔ لیکن شادی کے بعد ان کا نام نور زہرہ رکھا گیا۔ انہوں نے ایک عام لڑکی کی حیثیت سے الور اسٹار کے انگریزی اسکول ’’سینٹ نکولس کانوونٹ اسکول‘‘ سے گریجویشن کیا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر بن محمد کا تعلق بھی الور اسٹار سے ہے۔ جہاں ان کے والد محمد صاحب اسکول ٹیچر تھے۔ مہاتیر کے والد متحدہ ہندوستان سے ہجرت کرکے ملایا آئے تھے۔ ان کی والدہ ’’وان تیمپاوان‘‘ یہاں کی مقامی ملئی خاتون تھیں۔
میں یہاں میر اللہ داد تالپور کے متعلق چند سطریں تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو ہمارے ملک کے ذہین طلبہ میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اس یونیورسٹی میں ہمارے ملک کا نام بلند کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی زندگی ہمارے آج کے نوجوان طلبہ اور ان کے والدین کے لیے سبق آموز بھی ہے۔
میر اللہ داد تالپور 9 جون 1963ء کو میرپورخاص کے ایک چھوٹے سے گاؤں میر شہداد تالپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر محمد رحیم ایک غریب محنت کش تھے۔ ابھی وہ پانچ برس ہی کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اللہ داد نے بتایا کہ ان کی والدہ گو کہ ایک دیہاتی خاتون تھیں اور وہ کچھ زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں۔ لیکن انہوں نے پختہ عزم کر لیا تھا کہ ہر حالت میں اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ وہ ہر وقت تعلیم کے لیے اللہ داد کی حوصلہ افزائی کرتیں۔
اللہ داد نے حیدرآباد کے نور محمد ہائی اسکول سے میٹرک کیا اور مسلم کالج سے انٹر کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ بی ایس سی آنرس اور ایم ایس سی میں ان کے سبجیکٹ ’’فریش واٹر بیالوجی‘‘ اور ’’فشریز‘‘ تھے۔ انہوں نے دونوں میں فرسٹ کلاس پہلی پوزیشن حاصل کی۔ سندھ گورنمنٹ فشریز ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کے لیے 1993ء میں کمیشن کا امتحان ہوا، اس میں بھی پاس ہونے والے امیدواروں میں اللہ داد نے ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔ وہ آج کل اس ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے 1995ء میں امریکہ کی آبرن یونیورسٹی الاباما سے پوسٹ گریجویشن ڈپلوما کیا، اس میں ان کا سبجیکٹ Aquaculture تھا۔ اب گزشتہ سال سے ملائیشیا کی اس یونیورسٹی UMT سے اس موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اس سبجیکٹ میں کئی چیزیں آجاتی ہیں۔ مثلاً
Broad Stock Management of Sea base
Water Quality Management Live Feed Culture
Fresh Water Prawn and crab breeding
وغیرہ وغیرہ۔
میر اللہ داد تالپور کی بیگم مسز گل نساء تالپور بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ وہ سندھ گورنمنٹ کے پاپولیشن ویلفیئر ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ آج کل وہ تعطیلات کے دن گزارنے کے لیے یہاں ترنگانو آئی ہوئی ہیں۔ کیوں کہ ان کے بچے بھی یہیں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ والدین طرح ان کے بچے بھی تعلیم میں نام پیدا کر رہے ہیں۔ ان کی بڑی صاحبزادی ردا بتول کوالالمپور میں بی بی اے کر رہی ہیں۔ میٹرک اور انٹر میں بھی ان کا اے ون گریڈ رہا۔
میراللہ داد کے دیگر دو بچے محمد معظم اور شازمہ زہرہ ملئی زبان روانی سے بولتے ہیں۔ وہ یہاں کے ملئی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ انہوں نے بھی سب کو حیرت میں ڈال دیا، جب سالانہ امتحان میں انہوں نے اپنی اپنی کلاس میں ٹاپ کیا۔
’’ اس کا تمام کریڈٹ آپ کی والدہ کو جاتا ہے۔‘‘ میں نے میر اللہ داد تالپور سے کہا۔ ’’ وہ عظیم خاتون تھیں۔ غربت اور دیہی ماحول میں تنہائی کے باوجود انہوں نے آپ کو تعلیم یافتہ بنا کر ایک اچھا شہری بنایا۔‘‘
میں وطن لوٹ کر اپنے پٹارو کے دوستوں سے ملنے میرپورخاص جانے کا پروگرام رکھتا تھا۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ میر اللہ داد تالپور کی والدہ سے بھی ضرور ملوں گا۔ لیکن ان کی زبانی یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ تین سال قبل ان کا انتقال ہو چکا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment