وزیراعظم عمران خان، ہوشیار باش!

صدر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گورنر اور وزیراعلیٰ بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل تحریک انصاف کے رہنما ہیں، جبکہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ بلوچستان میں گورنر محمد خان اچکزئی، پختونخوا ملی پارٹی اور وزیراعلیٰ جام کمال خان بلوچستان عوامی پارٹی کے ہیں، لیکن انہیں تحریک انصاف کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صرف سندھ کے وزیراعلیٰ کو چھوڑ کر قومی اسمبلی کے اسپیکر سے لے کر وفاق اور تین صوبوں میں تحریک انصاف کا تقریباً مکمل عمل دخل ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے صدر عارف علوی اور گورنر عمران اسماعیل کی وجہ سے یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ تحریک انصاف کی عملداری کم و بیش پورے ملک پر ہے۔ اس بنا پر عمران خان اور ان کی جماعت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کو اپنے وعدے کے مطابق مدینہ منورہ جیسی نہ سہی، اس کے عشر عشیر کے طور پر ہی فلاحی ریاست بنا کر دکھائیں۔ سابقہ حکومتوں کی طرح انہیں کسی مضبوط اپوزیشن سے بھی سابقہ نہیں پڑا ہے۔ کیونکہ اپوزیشن کا انتشار عہدئہ صدارت کے لئے انتخاب کے موقع پر پوری طرح کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی حکومت نیا پاکستان بنانے کی کوشش میں تنازعات اور متنازع شخصیات کو اپنے پروگرام اور اپنی صفوں میں شامل کرنے سے گریز کرے، تاکہ وہ عوام کی اکثریت کا عوام حاصل کر کے اسے قائم و برقرار رکھ سکے۔ تحریک انصاف اپنے نام و منشور کے اعتبار سے کوئی مذہبی جماعت نہیں ہے، لہٰذا یہ توقع رکھنا کہ اس میں کوئی غیر مسلم شامل نہیں ہو سکتا، فضول ہے۔ اس بنا پر تحریک انصاف کی انتخابی مہم کے دوران ایک معروف گویئے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا، جس کے بارے میں قادیانی ہونے کا گمان کیا جاتا رہا، لیکن حکومت سازی کے پہلے ہی ہفتے میں تحریک انصاف نے اپنی قادیانیت نوازی ثابت کرتے ہوئے عاطف میاں نامی ایک شخص کو اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل کر لیا ہے، جس سے ملک بھر کے عوام کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ پاکستان میں ایک سے بڑھ کر اقتصادی امور کے مسلمان ماہرین موجود ہیں۔ انہیں چھوڑ کر ایک قادیانی کا تقرر کرنا اور پھر الٹے سیدھے جواز پیش کر کے اس پر اڑے رہنا اہل وطن کے لئے ناقابل فہم ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل میں لیا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں نہیں۔ ان کی تقرری پر اعتراض کرنے والے انتہا پسند ہیں، ہم انتہا پسندوں کے آگے نہیں جھکیں گے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ کو جو ناپسند ہو، اسے بحیرئہ عرب میں پھینک دیں۔ فواد چوہدری نے انکشاف کیا کہ عاطف میاں کو آئندہ پانچ برسوں میں نوبل انعام ملنے والا ہے۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2014ء میں عمران خان نے کہا تھا کہ انہیں عاطف میاں کے قادیانی ہونے کا علم نہیں تھا، اب انہیں وزیر خزانہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس پر عاطف میاں نے عمران خان کو دھمکی آمیز لہجے میں جواب دیا تھا کہ ’’وہ خدا بننے کی کوشش نہ کریں‘‘۔ حیرت انگیز طور پر وزیر اعظم عمران خان نے اب انہیں پاکستان کے معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے والے ماہرین میں شامل کر لیا ہے۔ آئین پاکستان کی رو سے پاکستان کی تمام اقلیتوں کو بلاشبہ مسلمان اکثریت کے برابر شہری حقوق حاصل ہیں، لیکن قادیانیوں کا معاملہ دوسری اقلیتوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس سلسلے کی اہم ترین اور بنیادی بات یہ ہے کہ ان کے پیشوا نے ختم نبوت کے عقیدے میں نقب لگا کر خود کو نبی قرار دیا اور اس بنیاد پر تمام مسلمانوں کو غیر مسلم کہا۔ جبکہ مسلمانان عالم کا یہ متفقہ عقیدہ و ایمان ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اﷲ کے آخری نبی اور رسول ہیں، آپؐ کے بعد کوئی نبی قیامت تک نہیں آئے گا۔ چنانچہ جو احمق حضور اقدسؐ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے، وہ مرتد و کافر اور لائق نفرت و حقارت ہے۔ 1974ء میں کی جانے والی آئینی ترمیم کے مطابق قادیانیوں کے دونوں گروہ غیر مسلم ہیں۔ وہ اگر عام کافروں اور مشرکوں کی طرح پاکستان کے وفادار اور امن پسند شہری بن کر زندگی گزاریں تو انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ لیکن انگریزوں اور یہودیوں کے کاشتہ و پرداختہ قادیانیوں کے اس زہر آلود شجر کی جڑیں ربوہ سے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب تک پھیلی ہوئی ہیں، بلکہ ان کا اصل ہیڈ کوارٹر تل ابیب ہی میں ہے۔ یہود و ہنود کے انتہا پسند مذہبی پیشوا اور سیاستدانوں کی اسلام دشمنی اور مسلم کشی سے ساری دنیا واقف ہے۔ قادیانی گروہ کے لوگ جب اس عظیم ہستی کو آخری نبی نہیں مانتے، جس کے کلمے کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا تھا تو وہ اس وطن پاک کے کیونکر مخلص اور وفادار ہو سکتے ہیں اور اس گروہ کا کوئی شخص پاکستان کے اقتصادی مسائل کا حل کس جذبے اور نیت کے ساتھ پیش کر سکتا ہے۔ عاطف میاں کے تقرر پر اعتراض کرنے والوں کو فواد چوہدری کی جانب سے انتہا پسند قرار دینا ظاہر کرتا ہے کہ انہیں انتہا پسندی کا مفہوم معلوم ہے اور نہ وہ انتہا پسندوں کی شناخت کے قابل ہیں۔ ہر پاکستانی غیر مسلم باشندوں کا احترام کرتا اور ان کے تمام شہری حقوق تسلیم کرتا ہے، لیکن ایسے غیر مسلم جو ختم نبوت کے عقیدے پر کھلم کھلا حملے کریں، وہ اسلام اور پاکستان سے کسی طور بھی مخلص نہیں ہو سکتے۔ جھوٹے نبی کے پیروکار کو کسی بھی اہم شعبے میں اعلیٰ منصب پر فائز کرنا بجائے خود پاکستان دشمنی کے مترادف ہے۔ عاطف میاں کو اگر نوبل انعام مل گیا تو اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ نوبل انعام کے لئے شخصیات کی فہرست بناتے وقت مذہب اور سیاست کو بڑا دخل حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان میں نوبل انعام میں شرکت کا پہلا نام جو سامنے آیا وہ عبدالسلام نامی ایک سائنسدان کا تھا جو عقیدے کے اعتبار سے کٹر قادیانی تھا اور اب بھی فواد چوہدری کے مطابق ایک قادیانی عاطف میاں ہی کو نوبل انعام ملنے والا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان، جو اب خیر سے وزیراعظم بھی ہیں، اگر پاکستان کو فی الواقع مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش کرنے والے ہر ٹولے سے دور رہیں اور فواد چوہدری جیسے دانشوروں کو بقراطیت جھاڑنے سے روکیں۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment