جیولوجیکل سروے آف ایران کی عمارت سے نکل کر میں سیدھا سازمان نقشہ برداری ایران یا کارٹوگرافک انسٹیٹیوٹ آف ایران چلا گیا، جو قریب ہی واقع تھا۔ اس سے پیشتر گیتا شناسی کے ادارے کا ذکر کر چکا ہوں۔ یہ اس سے بڑا اور زیاہ شاندار ادارہ تھا۔ بلکہ نقشوں کی ڈیزائننگ اور پرنٹنگ کا اصل ادارہ یہی تھا اور اغلباً گیتا شناسی کا ادارہ صرف مارکیٹنگ کا ادارہ ہے۔ یہاں سے بھی ایران کے چند نقشے خریدے۔ جب کارٹو گرافک انسٹیٹیوٹ آف ایران کی عمارت سے سوئے میدان آزادی مارچ کر رہا تھا تو بے اختیار یہ خیال ذہن میں آیا کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے بھی عجیب اور شہنشاہانہ ہیں۔ میدان آزادی کے اس پار تہران یونیورسٹی ہے، جہاں میں بڑی امیدیں لے کر گیا تھا وہاں سے تو خوار ہوکر نکلا اور اس پر جہاں سے مجھے کوئی خاص امید نہ تھی، وہاں اس قادر مطلق نے اتنی عزت عطا فرمائی، اتنے اچھے لوگوں سے سابقہ کرا دیا اور اتنا خوشگوار وقت گزروا دیا کہ جتنا میں سوچ بھی نہ سکتا تھا۔
میدان آزادی پر کچھ دیر توقف کیا اور پھر بذریعہ ٹیکسی و پیدل خیابان آزادی و خیاباب ولی عصر سے گزرتے ہوئے دانش کیاں اسٹریٹ پہ جا پہنچا اور پھر وہاں سے نسکو (NISCO) کے شعبۂ خام مال کے آفس میں وارد ہوگیا، جہاں میں گزشتہ روز بھی آچکا تھا۔ ڈاکٹر مہوی کے آفس پہنچا تو وہاں پر ہام خاجہ پور صاحب مائننگ انجینئر سے پھر ملاقات ہوگئی کہ وہ اور غلام رضا ہاشمی (جیولوجسٹ) ڈاکٹر مہوی صاحب کے تحت ہی کام کرتے تھے۔ خاجہ پور صاحب مجھے ڈاکٹر مہوی صاحب کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر مہوی میرے ہم پیشہ یعنی جیولوجسٹ تھے۔ میں نے انہیں ایک خوش شکل، خوش مزاج، خوش گفتار اور پرخلوص انسان پایا۔ مگر میری طرح انہوں نے اپنے ملک کی جیولوجی کے ہر فیلڈ میں ٹانگ اڑا کر اپنے آپ کو ’’ہر فن مولا ہر فن ادھورا‘‘ کا مصداق نہ بنایا تھا، بلکہ اول تا آخر ایران کی کوئلے کی جیولوجی کے ماہر تھے اور اس فیلڈ میں ایران میں ان کے کام کے سب ہی معترف تھے۔ میں تو ان کے دفتر میں بغیر کسی پیشگی اجازت یا اطلاع کے جا دھمکا تھا۔ خاص طور سے ایسے وقت جب کہ وہ کہیں باہر جارہے تھے اور ان کی فلائٹ کا وقت بھی ہوگیا تھا۔ مگر اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ انہوں نے اس طرح بغیر نوٹس چلے آنے کا کوئی شکوہ نہ کیا، بلکہ مجھ حقیر کو خاصا وقت دیا اور مقدور بھر میری رہنمائی کی۔ ساتھ ساتھ وہ اپنی فلائٹ کی تیاری بھی کرتے رہے۔ ڈاکٹر مہوی نے مجھے بتایا کہ ایران کے کوئلے ذخائر پر کئی سو جیولوجیکل رپورٹس و تحقیقی مقالے دستیاب ہیں، مگر وہ زیادہ تر فارسی زبان میں ہیں۔ وقت کی انتہائی تنگی کے باوجود انہوں نے اپنے ریکارڈ سے انگریزی میں لکھی گئی ایک رپورٹ جس کا عنوان COAL DEPOSITS OF IRAN (ایران کے کوئلے کے ذخائر) نکال کر خاجہ پور کو اس ہدایت کے ساتھ دی کہ وہ اس کی ایک فوٹو کاپی کرا کے مجھے دیدیں۔ ڈاکٹر مہوی کے ہوائی اڈے کے لیے روانگی کے بعد خاجہ پور صاحب نے اپنا دفتری بھیج کر مارکیٹ سے اس رپورٹ کی ایک عدد فوٹو کاپی کرادی اور میں نے اس بل کی ادائیگی مبلغ 3700 ریال اپنی جیب سے کردی۔ یہ رپورٹ کسی روسی جیولوجسٹ کی تیار کردہ تھی۔ ایرانیوں کی اکثر پرانی اور بڑی کوئلے کی کانیں بھی روسیوں کی ہی تیار کردہ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کئی ایرانی کوئلے کی کانوں میں آویزاں، روسی زبان میں لکھی ہوئی ہدایات کی تختیاں اب بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ کانیں میکینائزڈ (mechanised) ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کے مطابق تیار کی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ان کے مقابلے میں پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس ایک کان بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے، گو ہم خود اپنے اوپر رحم نہیں کرتے۔ رپورٹ بعد میں میرے بہت کام آئی اور ایران کی جیولوجی پر میری تمام پریزنٹینشنز میں کوئلے کے ذخائر کا بیشتر جیولوجیکل مواد اسی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔
ڈاکٹر مہوی سے اس ملاقات اور ان سے ایرانی کوئلے کے ذخائر پر لکھی ارضیاتی رپورٹ کے حصول کے ساتھ ہی تہران میں میری پلان کردہ مصروفیات اپنے اختتام کو پہچ گئیں اور اب مجھے تہران سے بجانب مشرق واقع صوبہ سیمنان کے مرکزی شہر سیمنان کی طرف کوچ کرنے کی تیاری کرنی تھی، تاکہ اس علاقے کے مشہور زمانہ (ارضیاتی دنیا میں) نمک کے گنبدوں (salt domes) کو وزٹ کر سکوں اور ان کے بارے میں ابھی تک میں ارضیاتی لٹریچر میں جو کچھ پڑھا ہے، اس کی تصدیق یا تردید کر سکوں۔ سیمنان کے ٹرپ اور اس کے بعد ایران میں میرا باقی ماندہ وقت نمک کی جیولوجی کے لیے وقت تھا، کیوں کہ کوئلے اور خام لوہے کے بارے میں جو معلومات جمع کرنا تھیں، وہ بفضل تعالیٰ میں نے جمع کرلی تھیں۔
اپنے مہمان پذیر جاتے ہوئے جب اس مقام کے قریب پہنچا جہاں گزشتہ روز بظاہر ایران کی کسی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرنے والے افغانی کریم حیدری سے ملا تھا، تو میں نے دیکھا کہ وہ اسی مقام پر اور اسی انداز سے ایستادہ، گزرنے والوں پر نگاہیں رکھے ہوئے تھا۔ میں نے طے کیا کہ آج اپنے افغانی دوست سے نہیں ملتا اور اس کے لیے میں نے راہ گیروں کی بھیڑ میں شامل ہوکر اس کے سامنے چھپ کر نکلنے کی کوشش کی۔ مگر اس اللہ کے بندے نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں اور پیشتر اس کے کہ میں اسے دیکھتا، وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ میں اس سے چھپ کر گزرنا چاہتا ہوں تو وہ بھیڑ کو چیرتا ہوا انتہائی چابکدستی سے میری پشت پر آگیا اور مجھے یکایک اس طرح دبوچ لیا جیسے کہیں چھپے ہوئے چوہے کو کوئی چالاک بلی دبوچ لیتی ہے۔ بعد ازاں میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بولا ’’دوست بغیر ملے ہوئے ہی جارہے تھے؟‘‘۔ میں نے شرمندگی کا اظہار کیا، معذرت طلب کی اور اسے بتایا کہ دراصل آج مجھے کئی کام کرنے تھے اور کل کے کوچ کی تیاری بھی کرنی تھی، اس لیے مجھ سے یہ زیادتی سرزد ہوگئی۔ میں نے تسلیم کیا کہ میری یہ حرکت آئین مروت اور آئین دوست داری کے خلاف تھی۔ اس نے میری معذرت قبول کرلی اور پھر پہلے جیسے خوشگوار موڈ میں آگیا اور مجھ سے گزشتہ روز کھینچے ہوئے اپنے فوٹو کا تقاضا کیا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ تو ابھی میرے کیمرے کے اندر ہی محفوظ ہے اور جیسا کہ میں نے گزشتہ روز اسے بتایا تھا کہ میں اس فلم کو پاکستان پہنچ کر پرنٹ کرواؤنگا اور وہیں سے بذریعہ ڈاک اسے اس کی تصویر روانہ کروں گا۔ وہ مطمئن ہوگیا کچھ اور گپ شپ لگائی اور پھر ہم جدا ہوگئے۔ میں نے پاکستان آکر حسب وعدہ اسے اس کی تصویر بذریعہ ڈاک روانہ کی۔ مگر اس کی طرف سے کوئی اقرار مندی موصول نہ ہوسکی۔ کاش یہ کتاب یا اس کا فارسی ترجہ اس کی نظر سے گزرے اور وہ جان لے کہ میں نے اس سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کیا تھا۔
کریم حیدری کو خدا حافظ کہہ کر اپنے مہمان پذیر کی جانب رواں تھا اور نہیں یاد کہ میں نے کتنا فاصلہ طے کیا تھا کہ میں نے دور سے فٹ پاتھ کی سائیڈ میں دیوار سے لگی اور ایک ٹوکری کے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک خاصی معمر خاتون کو دیکھا اور اس کو دیکھ کر آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کی ٹوکری میں بہت سارے سفید رنگ کے دھاگے سے بنے (اغلباً کروشیا کے ذریعے بنے ہوئے) بوتلوں یا صراحیوں کے کور (غلاف) تھے۔ خاتون مفلسی کی ماری ہوئی مگر کسی اچھے خاندان کی رکن معلوم ہوتی تھی۔ ہر راہ گیر جو اس کے قریب سے گزرتا تھا وہ بے قراری سے ایک یا دو مختلف قسم کے کور اٹھاتی اور راہ گیر کی طرف لہراتی اور ساتھ ہی حیا کے جذبات سے مغلوب ہوکر کچھ کہنا چاہتی، مگر اس کے منہ سے آواز نہ نکل سکتی۔ میںکافی دیر کچھ فاصلے پرکھڑا ہوکر یہ منظر دیکھتا رہا۔ اس عرصے میں وہ ایک بھی راہ گیر کو اپنی طرف متوجہ نہ کر پائی، نہ ہی اپنا کوئی آئٹم فروخت کر پائی۔ یہ حال دیکھ کر میں اس بزرگ خاتون کے پاس جاکر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اس کے دو عدد کور اٹھائے، قیمت معلوم کی اور بتائی ہوئی قیمت سے کچھ زیادہ ریال اسے پیش کردیئے۔ خاتون بقیہ رقم ادا کرنے کے لیے اپنی جیبوں میںہاتھ ڈالنے لگی، مگر میں نے اشارے کی زبان سے اس سے عرض کیا کہ بس ٹھیک ہے۔ اس پر خاتون نے بے اختیار دعا کے لیے خدا کے حضور ہاٹھ اٹھا دیئے۔ یقین جانئے کہ میرے پورے ایران کے دورے میں وہ لمحہ میرے لئے سب سے زیادہ خوشی اور اطمینان کا لمحہ تھا۔ میں نے اس خاتون کے دونوں کوروں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا اور پھر اپنے مہمان پذیر کی جانب چل دیا۔ آپ شاید یقین نہ کریں کہ ایران سے واپسی پر میں نے اپنے گھر والوں کے لیے نمکین ایرانی پستوں اور کچھ دیگر کھانے کی چیزوں کے علاوہ کوئی دیگر تحفہ نہ خریدا اور وہی تحفہ انہیں پیش کر کے میں نے کہا کہ اس سے زیادہ قیمتی تحفہ پورے ایران میں آپ لوگوں کے لیے نہ تھا۔ مگر میرے اس جذبے کو گھر میں کسی نے نہ سراہا۔ ان دونوں غلافوں میں سے ایک میرے پاس میری والدہ مرحومہ کے تبرکات کے ساتھ بھی محفوظ ہے۔ (جاری ہے)