کار والے نے اچانک ہی بریک لگائی تھی، وہ تو خیر ہوئی کہ سیلانی کی موٹر سائیکل کی رفتار کم تھی، ورنہ وہ اس نئی نکور لشکارے مارتی کار کے بمپر پر میں موٹرسائکل گھسا چکا ہوتا۔ سیلانی کو بہت غصہ آیا، کراچی کے آئی آئی چندریگر روڈ اور ایم اے جناح روڈ پر کوئی یہ حرکت کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے، بلکہ بندہ اس کے لئے تیار ہوتا ہے، وہاں تارکول کے سیاہ قالین پر گاڑیاں ایسے ہی چپک چپک کر چل رہی ہوتی ہیں، پھر کوئی موٹر سائیکل والا دائیں سے اور کوئی بائیں سے برے وقت کی طرح اچانک سامنے آہی جاتا ہے، لیکن یہ تو شہر اقتدار و بااختیار ہے۔ اسلام آباد کی چوڑی چوڑی سڑکوں پر کراچی جیسا رش نہیں، پھر کوئی ایسی بے تکی بریک لگائے تو پیچھے والوں کی پیشانی پر بل پڑنا فطری سی بات ہے۔ سیلانی نے غصے میں ہیلمٹ اتارا کہ کار والے کو دو سنا کر دل کی بھڑاس نکال لے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ موٹر سائیکل سائیڈ اسٹینڈ پر کھڑی کرتا کار کا دروازہ کھلا اور ایک سفید ریش بزرگ کار سے باہر نکلے اور آگے بڑھ کر کار کے بونٹ کے سامنے کچھ اٹھانے کے لئے جھک گئے، وہ اٹھے تو ان کے ہاتھوں میں ایک پینا فلیکس کا پوسٹر تھا، اسلام آباد میں کسی ادارے کی جانب سے یوم دفاع پر مرکزی شاہراؤں کی اسٹریٹ لائٹس پر شہدائے وطن کی تصاویر کے پوسٹر نمایاں انداز میں آویزاں کئے گئے ہیں، ان میں پولیس کے شہداء بھی ہیں اور وطن کے وہ سپوت بھی جنہوں نے خاکی وردی کا رنگ اپنے لہو سے سرخ کر دیا۔ چھ ستمبر کے حوالے سے بنائے گئے اس پوسٹر پر بھی آرمی کے کسی نوجوان کپتان کی تصویر تھی، جو اپنی کڑیل جوانی وطن پر وار کر دھرتی کی آغوش میں کسی معصوم بچے کی طرح سو رہا تھا۔ اس بزرگ نے احترام سے وہ پوسٹر اٹھا لیا اور اسے کہیں رکھنے کے لئے دائیں بائیں کوئی مناسب جگہ تلاش کرنے لگے۔ یہ سب دیکھ کر سیلانی کا غصہ شرمندگی میں بدل گیا۔ اس نے موٹر سائیکل سائیڈ اسٹینڈ پر کھڑی کی اور ہیلمٹ اتارکر ہیڈ لائٹس پر اڑسا اور تیزی سے ان کے پاس پہنچ گیا۔
’’مجھے دیجئے۔‘‘ سیلانی نے ان سے وہ پوسٹر لینے کے لئے ہاتھ آگے کر دیئے۔
’’یہ اچانک ہی گاڑی کے سامنے آگیا، باندھنے والے نے ٹھیک سے باندھا نہیں تھا۔‘‘ انہیں احساس تھا کہ ایسے اچانک بریک لگانا بہت ہی غلط اور خطرناک ہے، اسی لئے پوسٹر دیتے ہوئے انہوں نے وضاحت بھی کر دی۔
سیلانی مسکرادیا ’’سر! آپ نے ٹھیک ’’غلط کام‘‘ کیا، میں بھی ہوتا تو ایسا ہی کرتا۔‘‘
جواباً وہ بھی مسکرا دیئے ’’خوش رہو‘‘ سیلانی نے ان کے ہاتھ سے پوسٹر لیا اور جا کر اسی کھمبے سے کس کر باندھ دیا، وہ کھڑے دیکھتے رہے۔ سیلانی پلٹا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھادیا اور کہا:
’’یقینا اسلام آباد کے نہیں ہو۔‘‘
’’آپ کے بارے میں بھی میرا یہی خیال ہے۔‘‘
’’ہا، ہا،ہا،ہا… ٹھیک پہچانا، میں ایف ایٹ کی نجم مارکیٹ کے قریب رہتا ہوں، کبھی فرصت ہو تو ضرور تشریف لانا۔‘‘ انہوں نے سفید رنگ کا وزیٹنگ کارڈ سیلانی کی جانب بڑھا دیا۔
یہ لقمان سلیمی صاحب سے سیلانی کا پہلا تعارف تھا، لقمان صاحب حیدر آباد کے ہیں، ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، ان کا بیٹا اسلام آباد میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر ملازم ہے، لقمان صاحب اپنے صاحبزادے
کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں ۔
سیلانی کو آج کل کچھ زیادہ ہی فرصت ہے، کرنے کو کچھ خاص کام نہیں، یہاں کچھ دوست بنے ہیں، جن کے ساتھ وہ اس خوبصورت اور سپاٹ رویئے والے شہر میںگشت کرتا پھرتا ہے۔ اسلام آباد کا حسن یہاں آنے والے کسی کے بھی قدم روک سکتا ہے، لیکن اس شہر کی سردمہری ان قدموں کے رکے رہنے کے لئے امتحان بن جاتی ہے۔ افسروں اور ماتحتوں کے اس شہر میں کسی سے کوئی دوسرا رشتہ استوار کرنا آسان نہیں۔ لقمان صاحب کو بھی اس شہر سے یہی گلہ ہے اور سیلانی کو بھی اسلام آباد کی سردمہری کھل رہی ہے۔
سیلانی نے لقمان صاحب سے وزیٹنگ کارڈ لیتے ہوئے کہا ’’میرے پاس تو آج کل فرصت ہی فرصت ہے۔‘‘
’’تو بسم اللہ آجایئے۔‘‘
سیلانی ان کی دعوت قبول کرنے ہی والا تھا کہ سائرن بجاتی موٹر سائیکل قریب آکر رک گئی۔ باوردی پولیس اہلکار نے ہیلمٹ کا شیشہ سرکاتے ہوئے کہا ’’جناب! کوئی مسئلہ ہو گیا ہے؟‘‘
’’نہیں، نہیں بس جا رہے ہیں۔‘‘ لقمان صاحب نے کار میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
سیلانی نے بھی موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ ایف سیکٹر اسلام آباد کا متمول علاقہ ہے۔ لقمان صاحب کی کار ایک بنگلے کے سامنے جا کر رک گئی۔ انہوں نے کار کھڑی کی اور گاڑی سے باہر آگئے۔ سیلانی نے بھی وہیں موٹر سائیکل کھڑی کی اور ان اتفاقاً میزبان بننے والے بزرگ کے پیچھے پیچھے ایک خوبصورت سے ڈرائینگ روم میں آگیا۔ مہمان خانے کی سجاوٹ مکینوں کے ذوق اور اسٹیٹس ظاہر کر رہی تھی۔ سیلانی آرام دہ صوفے میں دھنس کر بیٹھ گیا۔
’’ہم ایگریکلچرل ڈیپارٹمنٹ سے ریٹائرڈ ہیں، تین صاحبزادے ہیں، ایک اسلام آباد میں، دوسرا کراچی اور تیسرا کینیڈا میں ہوتا ہے اور ہم کبھی یہاں اور کبھی وہاں ہوتے ہیں۔‘‘ لقمان صاحب نے مختصراً اپنا تعارف کرایا اور پھر معذرت خواہانہ انداز میں کہنے لگے: ’’اچھا ہوا آپ زیادہ اسپیڈ میں نہیں تھے، ورنہ گر جاتے اور مجھے بہت افسوس ہوتا… لیکن مجھ سے رہا نہیں گیا، سچی بات ہے یہ ملک اللہ رب العزت کا احسان ہے اور اس کی حفاظت کرنے والوں کے ہم احسان مند نہ ہوں تو کس کے ہوں، اب اس پوسٹر پر اس کپتان کی تصویر دیکھی آپ نے؟ کیا عمر رہی ہوگی اس بچے کی، یہ عمر تو کالج یونیورسٹی جانے کی ہوتی ہے، خواب دیکھنے کی ہوتی ہے اور اس جوانی میں وہ جانے کہاں اس ملک کے لئے، ہم سب کے لئے سینے پر گولی کھا کر شہید ہوگیا۔‘‘
’’بالکل بجا فرمایا آپ نے۔‘‘
لقمان صاحب محفل مجلس کے آدمی ہیں۔ اسلام آباد کا سرد رویہ انہیں زیادہ بھاتا نہیں۔ انہیں حیدرآباد کے پڑوسی کراچی کا سیلانی ملا تو بہت خوش ہوئے۔ بات سے بات نکلی اور چھ ستمبر 1965ء تک پہنچ گئی۔ کہنے لگے میں ان دنوں لاہور میں اپنے تایا کے پاس تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے، جب ریڈیو پاکستان پر صدر ایوب خان کی گرجدار آواز سنائی دی۔ انہوں نے بتایا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لاہور میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا ہو۔ لوگ گھروں سے باہر ایسے نکلے کہ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے اور کسی کے ہاتھ میں کدال۔ وہی منظر تھا جو ترکی میں طیب اردگان کے خلاف بغاوت کا تھا، آپ نے تو تصویریں دیکھ رکھی ہوں گی، ترک خواتین باغیوں کی پٹائی کے لئے جھاڑو، کفگیر اور وائپر لئے باہر نکل آئی تھیں، بالکل ایسا ہی منظر ان دنوں بھی تھا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل کر آئے۔ ایسا تو نہیں تھا کہ پریشانی نہیں تھی۔ پریشانی تو تھی، لیکن پھر جب پاک فوج کے ٹرک اور جیپیں گزرنے لگیں تو ساری پریشانی خدشے، دھول بن کر اڑ گئے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جانے کیسے میری مٹھیاں یوں بھنچ گئیں اور میں نے ہاتھ اٹھا کر جو نعرہ لگایا، پاکستان زندہ باد کی آواز ایسی گونجدار اور زوردار تھی کہ جیسے پورے شہر نے مل کر نعرے کا جواب دیا ہو۔‘‘
لقمان صاحب کا سرخ و سپید چہرہ جوش سے تمتمانے لگا، ان کے کانوں کی لویں سرخ ہوگئیں۔ وہ بتانے لگے ’’جب پاک فوج کے قافلوںکو اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے بارڈر پر جاتے دیکھا تو لاہوریوں نے سارا خوف اتار کر پھینک دیا، پھر تو یہ حال تھا کہ ریڈیوسے اعلان ہو رہا ہے کہ اسپتالوں میں خون کا عطیہ دیں تو لگتا تھا سارا شہر خون دینے آگیا ہے۔ میرے تایا کے گردے میں پتھری تھی، ان کا کوئی دس دن پہلے آپریشن ہوا تھا، وہ بھی اسپتال پہنچ گئے کہ ہم بھی خون کا عطیہ دیں گے۔ تائی امی کی کلائی میں چوڑیاں پڑی رہتی تھیں۔ ہم نے انہیں کبھی بھی خالی کلائیوں کے ساتھ نہیں دیکھا تھا، جن میں دو طلائی چوڑیاں تو لازمی ہوتی تھیں، بھئی انہوں نے وہ چوڑیاں اتار کر بیٹے کے ہاتھ پر رکھ دیں کہ جا کر فنڈ میں دے آؤ۔ بڑا ہی عجیب جذبہ تھا۔ آپ کو تو پتہ ہوگا کہ جب فضائی حملہ ہوتا ہے تو خطرے کا سائرن بجایا جاتا ہے، سائرن بجتے ہی لوگ مورچوں میں گھس جاتے ہیں، محفوظ مقامات کی جانب بھاگتے ہیں اور 65ء میں حال یہ تھا کہ ادھر سائرن بجا اور ادھر لاہور ی لڑاکا طیاروں کی لڑائی دیکھنے چھتوں پر پہنچ گئے…‘‘ چھ ستمبر کا احوال بتاتے بتاتے لقمان صاحب بھی جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ وہ سیلانی کے سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے چھت کو بس گھورے جا رہے تھے۔
وہ خاموش ہوئے تو کمرے میں خامشی پھیل گئی، سیلانی ان کی جانب منتظر نظروں سے دیکھنے لگا، یہ خامشی ملازم کے آنے سے ٹوٹی جو طشتری میں چائے ناشتے کا سامان لئے ہوئے تھا، سیلانی نے چائے کا کپ لیا اور کہنے لگا ’’آپ نے جنگ کے سارے دن لاہور ہی میں گزارے؟‘‘
’’ہاں میں وہیں رہا تھا، ہم نے اور ہمارے کزنز نے تو آگے جانے کے لئے رضاکاروں میں نام بھی لکھوا دیا تھا، دیکھو! یہ پاکستان بڑی نعمت ہے، یقین جانئے ماں باپ سے بڑی نعمت ہے، وطن کی قدر کرنی ہے تو بے وطنوں سے ملو اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے وطن کی قدر نہیں کی۔‘‘
لقمان سلیمی صاحب سچ کہہ رہے تھے کہ قائد اعظم کے بعد ان کی جیب کے کھوٹے سکے ’’کھرے‘‘ ہو گئے، ہوا کا رخ دیکھ کر لیگ میں آنے والے اقتدار کی راہداریوں میں بہت آگے آگئے تھے، پھر پے در پے غلطیاں، ایک کے بعد ایک غلطی اور حماقت جس کا خمیازہ بالآخر ہمیں 1971ء میں بھگتنا پڑا، پاکستان دو لخت ہو گیا، چلیں سینے پر پتھر رکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ جو ہوا سو ہوا، لیکن ان غلطیوں سے سبق کس نے لیا؟ بنگالی غدار نہیں تھے، انہیں سازشوں اور احساس محرومی نے ہم سے دور کیا، 65ء میں فوج اور عوام ایک تھے، بھارت ایک قدم آگے نہ بڑھ سکا۔ 71ء میں یہ ایکا ٹوٹا تو بھارتی جرنیل ڈھاکہ کے پلٹن گراؤنڈ میں آپہنچا، مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش ہوگیا… آج بھی دشمن پہلے سے زیادہ منظم اور جدید ہتھکنڈوں سے لیس ہو کر عوام کو ان سب اداروں سے دور کرنے کی چالیں چل رہا ہے، جن کے کاندھوں پر دفاع وطن کی براہ راست ذمہ داری ہے۔ عوام کو ان اداروں سے برگشتہ کیا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے ہماری کچھ غلطیاں ان کا کام آسان کئے دے رہی ہیں۔ ہمیں ان کی یہ آسانی مشکل میں بدلنا ہوگی، ہم بھلے کسی چونڈہ کے میدان میں دشمن کے کسی ٹینک کے سامنے نہ لیٹیں، لیکن سوشل میڈیا پر لڑی جانے والی جنگ میں جانے انجانے میں دشمن کے پروپیگنڈے کا کام تو آسان نہ کریں… سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے چائے کی چسکی لی اور پینسٹھ کے جذبوں کے شاہد کو گواہی دیتے ہوئے عزت واحترام سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔