اور اک روح نے اللہ کی قربت پائی

بغیرچینی کی سیاہ چائے کا ایک گھونٹ بھر کر مولانا فرمانے لگے۔ ’’جب 31 دسمبر 1979ء کو روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو ان کے کاندھوں پر ببرک کارمل سوار تھا۔ اسے کابل میں بٹھانے کے لیے روسی فوجیوں نے صدارتی محل پر حملہ کیا اور حفیظ اللہ امین کو خاندان سمیت مار دیا۔ لیکن مرنے سے پہلے امین اور اس کے محافظوں نے زبردست مزاحمت کی اور چوبیس گھنٹے تک لڑائی جاری رکھی۔ تاہم ان کی تعداد کم تھی اور ہتھیار محدود۔ سو وہ سب مارے گئے۔ ببرک حکومت بنانے کے بعد روسیوں نے افغانستان کے دوسرے شہروں پر بھی فوجی چڑھائی شروع کر دی۔ تب ایک بڑا فوجی کانوائے گردیز کے قریب واقع زدران میں بھی آیا۔ کانوائے کی اطلاع ملنے پر ہمارے مجاہدین نے مورچے سنبھال لیے۔ ان کے پاس دوسری جنگ عظیم کے زمانے کی تھری ناٹ تھری رائفلیں اور توڑے دار بندوقیں تھیں۔ کچھ درہ آدم خیل کے اسلحہ بازار سے خریدا گیا کچا اسلحہ بھی تھا۔ لیکن جوش۔ جذبے اور گوریلا جنگ میں وہ روسیوں سے آگے تھے۔ زدران میں آنے والے روسی فوجی کانوائے کو مجاہدین نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اور آگے بڑھنے کا راستہ مسدود کر دیا۔ دو دن کی جنگ کے بعد مجاہدین نے کانوائے تباہ کر دیا۔ اور تمام روسیوں کو مار دیا۔ ساز و سامان کی تلاشی میں ہمیں ایک بڑے فوجی ٹرک پر لدے درجنوں پائپ ملے۔ جن کے نیچے ٹریگر لگے تھے۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہ کیا چیز ہیں؟ سب نے آپس میں پوچھا۔ مگر کسی کو پتہ نہ چلا کہ کس کام آتے ہیں۔ بالآخر ایک ساتھی نے اس کا جواب ڈھونڈ لیا۔ وہ بولے کہ یہ بارش کا پانی چھت سے نیچے گرانے والا پرنالہ ہے۔ اور روسی اسے اپنی بیرکوں کی چھت پر لگاتے ہوں گے۔ بحث کی گنجائش نہ تھی۔ کیونکہ کسی اور کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ سب نے اتفاق رائے سے درجنوں ’’پرنالے‘‘ مجاہدین اور قریبی گائوں والوں میں مفت بانٹ دیئے۔ تاکہ طوفانی بارشوں سے چھتوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔ اس واقعے کو کئی دن گزر گئے۔ پھر ہمارے مجاہدین نے ایک قریبی فوجی چوکی پر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔ چوکی پر تعینات کئی افغان فوجی مارے گئے اور بعض کو مجاہدین نے گرفتار کر لیا۔ گرفتار ہونے والے فوجی مجاہدین کے مرکز پر لائے گئے۔ ہم نے ان سے بہت اچھا سلوک کیا۔ ہمارے علما نے انہیں سمجھایا کہ وہ کفر کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس سے ان کا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ سمجھانے بجھانے پر کئی قیدی تائب ہو گئے۔ اور انہوں نے مجاہدین کے خلاف ہتھیار نہ اٹھانے کا وعدہ کیا۔ چند دن مہمان نوازی کے بعد مجاہدین نے انہیں اختیار دیا کہ اب وہ آزاد ہیں۔ چاہیں تو گھر چلے جائیں اور چاہیں تو مجاہدین میں شامل ہو جائیں۔ آزادی ملنے پر کئی ایک گھر چلے گئے۔ اور بعض وہیں رک گئے۔ رکنے والوں میں سے ایک نے مرکز کے کچن کی چھت پر لگے پرنالے کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ آپ کہاں سے لائے ہیں؟ مجاہدین نے بتایا کہ روسی قافلے کا مال غنیمت ہے۔ اس پر وہ ہنسا اور بولا۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ یہ کس کام آتا ہے؟ مجاہدین بولے۔ ظاہر ہے بارش کا پانی نکالنے کے۔ اس پر وہ اور ہنسا اور بولا۔ برادر جان۔ یہ راکٹ لانچر ہے۔ اس سے ٹینک تباہ کیا جاتا ہے۔ آپ نے اسے کس کام پر لگا دیا؟ پھر وہ بولا۔ اس کے ساتھ راکٹ اور فیوز وغیرہ بھی ہوں گے۔ وہ کہاں ہیں؟ مجاہدین نے بتایا کہ ہاں کافی کچھ سامان تھا۔ وہ ہم نے غاروں میں ڈال دیا ہے۔ اس پر فوجی بولا۔ ایک لانچر اور وہ سامان لاکر مجھے دو۔ مجاہدین لے آئے۔ اس نے لانچر میں
راکٹ فٹ کیا۔ ایک ویران پہاڑ کی طرف رخ کر کے نشانہ لیا اور ٹریگر دبا دیا۔ زبردست دھماکے کے ساتھ راکٹ نکلا اور چٹان کا ایک بڑا ٹکڑا اڑا دیا۔ یہ دیکھ کر مجاہدین خوشی سے نہال ہو گئے۔ انہوں نے ہر طرف ہرکارے دوڑا دیئے کہ جس کی چھت پر یہ ’’پرنالہ‘‘ لگا ہو۔ معاوضہ دے کر لے آئو۔ اگلے ایک ہفتے میں سارے ’’پرنالے‘‘ معمولی قیمت پر خرید کر واپس لائے گئے۔ تب انہی فوجیوں نے مجاہدین کو راکٹ لانچر چلانے کی تربیت دینی شروع کر دی۔ چند دن بعد مجاہدین اس میں ماہر ہو گئے۔ بس پھر کیا تھا؟ ہم نے ان راکٹوں سے بہت فائدہ اٹھایا۔ اور روسیوں کو تہس نہس کر دیا۔ ہر چوکی پر یا کانوائے پر حملے کے بعد سب سے پہلی چیز ہم یہی ڈھونڈتے تھے۔ اور محفوظ کر کے لے آتے تھے۔ یہ تھی کہانی آر پی جی سیون راکٹ لانچر مجاہدین کے پاس آنے کی‘‘۔ یہ داستان 1984ء کی ایک سرد شام کو ایک سینئر صحافی نے تب سنی۔ جب وہ پکتیا میں مجاہدین کے ایک اہم مرکز ژاور میں مولانا کے ساتھ بیٹھے تھے۔ مرکز کا اصل نام مرکز سید احمد شاہ شہید تھا۔ لیکن وہ ژاور کے نام سے ساری دنیا میں معروف ہوا۔ اس کہانی کے راوی تھے مولانا جلال الدین حقانی۔ جی ہاں۔ مجاہد کبیر مولانا حقانی۔ جنہوں نے روس اور امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ ایک زمیندار گھرانے کے فرزند نے عالم دین سے گوریلا کمانڈر بننے کا سفر صرف اس لیے طے کیا کہ ان کے اسلامی ملک پر کافروں نے قبضہ کر لیا تھا۔ اور اپنی تہذیب ان پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ اس غاصبانہ قبضے کے خلاف اٹھنے والی اولین آوازوں میں مولانا جلال الدین حقانی کی آواز بہت نمایاں تھی۔ ان کی ساری زندگی جہاد میں گزری۔ اور اسی جہاد کی بدولت وہ لیجنڈ بن گئے۔ آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔ ان جیسا کوئی تھا نہ ہو گا۔ علم۔ حلم۔ تقوے۔ ایمان۔ بہادری۔ جنگی مہارت
اور مہمان نوازی میں ان جیسا ملنا تو درکنار اریب قریب بھی کوئی نہ ہوگا۔ وہ اللہ کا انعام تھے۔ افغانوں کے لیے۔ مسلمانوں کے لیے۔ اور ساری دنیا کے مظلوم انسانوں کے لیے۔ مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق کے شاگرد خاص۔ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل۔ اور وہیں کے استاد۔ جو روسیوں کے خلاف جہاد میں اپنا دینی مدرسہ بھی چلاتے رہے۔ متحدہ عرب امارات کے مرحوم سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان ان کے عاشق تھے۔ کئی کئی دن مہمان رکھتے۔ طبیعت سیر نہ ہوتی اور مزید رکنے پر اصرار کرتے۔ اور مولانا کو دیکھئے۔ دنیا کے امیر ترین حکمرانوں میں سے ایک ان کا عاشق جانباز تھا۔ لیکن کبھی اپنے لیے اور بچوں کے لیے کچھ قبول نہ کیا۔ پیسہ نہ پلاٹ۔ کاروبار نہ نوکری۔ بس مجاہدین اور دینی مدارس کے لیے امداد پر زور دیتے رہے۔ وہ پیسہ پائی پاس نہ رکھتے تھے۔ لیکن مجاہدین کی امداد کے لیے آنے والے ایک ایک روپے کا حساب لیتے تھے۔ ان کے بیٹے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ نیک اطوار۔ خود دار۔ متقی۔ عالم۔ دیانت دار اور شجاعت سے بھرے ہوئے۔ سب سے بڑے سراج الدین حقانی المعروف خلیفہ ان کے حقیقی جانشین ہیں۔ وہی شکل۔ وہی صورت۔ وہی ہمت۔ وہی غیرت۔ وہی جانبازی۔ وہی مہمان نوازی۔ دیکھنے والے نے انہیں چھوٹا سا بچہ دیکھا تھا۔ جب 80ء کے دنوں میں مولانا کا خاندان ہجرت کر کے میران شاہ آیا تھا۔ تب وہ چند برس کے بچے تھے۔ مگر پیشانی روشن اور بلند تھی اور اطوار باپ کی طرح باوقار تھے۔ دیکھنے والے نے تب بھی ان میں بہت کچھ دیکھ لیا تھا۔ وہ اپنے باپ کا دوسرا روپ ہیں۔ اور انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ مولانا نے ساری زندگی رب کی رضا کی خاطر گزاری۔ اور اسی میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ اے اللہ۔ گواہ رہنا کہ مولانا جلال الدین حقانی پورے ایمان پر آئے۔ اس پر قائم رہے۔ اور اسی حالت میں رخصت ہوئے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے تیرے نبیؐ کی سنت کو زندہ کیا۔ اور تیری خوشنودی کے لیے اپنا خاندان کٹوا دیا۔ اے اللہ تو ان سے راضی ہو جا۔ راضی ہو جا۔ راضی ہو جا۔ آمین۔ ٭

Comments (0)
Add Comment