مریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اپنے سترہ رکنی وفد کے ساتھ پاکستان کا مختصر دورہ کرکے گزشتہ روز بھارت چلے گئے جہاں وہ دو روز قیام کریں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی وفد کی آمد اور اعلیٰ سطحی مذاکرات سے دونوں ممالک کے درمیان موجود طویل تعطل ٹوٹ گیا ہے اور دو طرفہ تعلقات کی تجدید پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ہماری اولین ترجیح قومی مفاد ہے۔ واشنگٹن کے ساتھ ہم عزت اور برابری کے تعلقات چاہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق امریکا نے تسلیم کرلیا ہے کہ افغان مسئلے کا حل طاقت کے ذریعے نہیں نکل سکتا۔ افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر بھی امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے آمادگی کا اشارہ ملا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ امریکا نے پاکستان کے ساٹھ کروڑ کے بعد اب جو تیس کروڑ ڈالر روک رکھے ہیں، اس پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ امریکا نے ڈومور کا مطالبہ نہیں کیا تو ہمیں بھی ’’نومور‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ مائیک پومپیو نے شاہ محمود قریشی کو دورہ امریکا کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی۔ افغانستان میں پاکستان کے کردار کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے زور دیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف مستقل کارروائی کی جائے۔ امریکی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ پاکستان اس لحاظ سے بڑا اہم تھا کہ دونوں ممالک کے دفاعی و تجارتی تعلقات ایک مدت سے کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ مائیک پومپیو کی امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈیفورڈ کے ساتھ آمد سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں امریکا کو خطے میں پاکستان کی پوزیشن اور اہمیت کا بخوبی احساس ہوچکا ہے۔ امریکا نے مائیک پومپیو کی روانگی سے پہلے پاکستان کے تیس کروڑ ڈالر کے واجبات روک کر حسب عادت دباؤ کا حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی، جسے پاکستان نے ناکام بنادیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکی حکمرانوں کی کمزوریوں سے واقف ہیں کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اور ان کا امریکیوں سے بہت سابقہ پڑ چکا ہے۔ انہوں نے روکی ہوئی رقم پر سرے سے کوئی بات ہی نہیں کی اور کہا کہ ہم پاکستانی دال روٹی کھا کر گزارہ کرسکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا اپنے ہمراہ جنرل ڈیفورڈ کو لانا غیر معمولی بات تھی اسی لئے پروگرام کے بر خلاف وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ان کے ساتھ ملاقات سے انکار نہیں کیا۔ تاہم پاکستان کی جانب سے امریکی سرد مہری کا جواب اس طرح دیا گیا کہ مائیک پومپیو اور ان کے وفد کا پاکستانی وزیر خارجہ یا کسی اور حکومتی شخصیت کے بجائے وزارت خارجہ کے ایک افسر نے نورخان ائیر بیس پر استقبال کیا۔ اس کے برعکس امریکی وفد پاکستان سے بھارت پہنچا تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس کا استقبال کیا۔ مائیک پومپیو کی جانب سے پاکستان پر عسکریت پسندوں کے خلاف مستقل کارروائی کا مطالبہ ضرور کیا گیا، لیکن کوئی دھمکی یا سخت بات سامنے نہیں آئی۔ امریکا کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ اس نے پاکستان کو نظر انداز کیا تو اول، وہ خود افغانستان میں مزید مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ دوم یہ کہ پاکستان کی چین سے گہری دوستی کے علاوہ روس اور ایران کے ساتھ تعلقات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ خطے کے اس نئے گروپ میں آئندہ چل کر افغانستان بھی شامل ہوگیا تو امریکا کے لئے ’’نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن‘‘ کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ وہ بالادستی کے تمامتر زعم اور طرم خانی کے باوجود جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کے ممالک میں اپنی حیثیت کھوتا چلا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان سے جلد انخلا کا اشارہ بھی دیا ہے۔ عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستان سے مستقل کارروائی کا امریکی مطالبہ بھی اب روایتی سا رہ گیا ہے۔ امریکا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان نے اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کا تقریباً صفایا کردیا ہے۔ اب یہ امریکا کی ذمے داری ہے کہ وہ افغانستان میں ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرے اور طالبان سے مذاکرات کرکے وہاں سے اپنے فوجیوں کی واپسی کی راہ ہموار کرے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی وفد پر یہ بھی واضح کردیا کہ اب بلیم گیم اور شیم گیم سے کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔ دلیل اور دانش سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلے ہی ہفتے میں ’’یوٹرن‘‘ کی دو مثالیں
تبدیلی اور نئے پاکستان کے ساتھ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے اور لٹیروں سے قومی دولت چھین کر سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے نعروں اور دعوئوں والی تحریک انصاف کی حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی ایک ہفتے کے دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عمران خان کی ’’یوٹرن‘‘ والی پالیسی پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں دو روپے فی یونٹ اضافہ کرکے صارفین پر دو کھرب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے جبکہ گیس کی قیمتوں میں بھی چھیالیس فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ ان دو شعبوں میں بے ایمانی، بدعنوانی، نااہلی اور چوری کو روکنے سے پہلے غریبوں کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا کسی طور بھی اچھی حکمرانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ابتدائے حکومت میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کا یہ انداز ہے تو پانچ برسوں کے دوران عوام پر مظالم کے مزید کیا پہاڑ توڑے جائیں گے۔ وطن عزیز میں بجلی کی قلت ہے نہ گیس کی کمی۔ جس چیز کی کمی ہے وہ صرف اہل دیانتدار حکمرانوں کی ہے، صرف دعوے اور وعدے کرکے غریبوں کو بہلانے کے بجائے بنیادی اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے گیس اور بجلی کے علاوہ دیگر اشیا اور خدمات کو سستے داموں عام آدمی کی پہنچ میں لانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر حالیہ انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی ہے اور پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا جو بلند بانگ دعویٰ کیا ہے، وہ باتوں سے نہیں عمل سے پورا ہوگا۔ اس میں اگر موجودہ حکومت ناکام رہتی ہے تو اسے بھی زرداری اور شریف خاندان جیسے انجام سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ اصل تبدیلی یہ آئی ہے کہ عوام کا سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے۔ اب وہ فریب دینے والوں کو ہر گز نہیں بخشیں گے۔ ٭