آصف زرداری کو امید سے زیادہ یقین تھا کہ عمران خان کے لیے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے وہ نہ صرف منی لانڈرنگ مقدمے سے بچ جائیں گے، بلکہ سندھ میں من مانی سے حکومت بھی چلائیں گے۔ مگر شرجیل میمن کی نام نہاد سب جیل پر چھاپہ پڑنے اور جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے پانامہ طرز کی جے آئی ٹی بننے کے بعد آصف زرداری کے سارے خواب چکناچور ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وہ لوگ پریشان ہیں، جن کو آنے والے دنوں کا اندازہ ہے۔
’’ہر تو از آگاہ تر رخ زرد تر‘‘
یعنی: جس کو بھی حقیقت کا علم تھا، اس کے رخسار زرد تھے۔
پیپلز پارٹی کے غیر سنجیدہ اور غیر سیاسی حلقے کو مستقبل قریب میں پیش آنے والے حالات کا کوئی اندازہ نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی عملی طور پر ان لوگوں کا پارٹی میں وزن زیادہ ہے، جو ہر رات دیر تک محفلیں جماتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ بچوں کی طرح ’’چور پولیس‘‘ والا کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ اپنے ذاتی حلقوں میں اس بات کا فخر سے اقرار کرتے ہیں کہ شرجیل میمن کے کمرے پر چیف جسٹس کے پڑنے والے چھاپے میں ملنے والا سامان وہی تھا، جس کی بات چیف جسٹس کر رہے ہیں، مگر چیف جسٹس نے اس وقت شراب اور منشیات تحویل میں لینے کے احکامات دینا بھول گئے اور جب وہ انور مجید کے کمرے میں تھے، انہیں تب محسوس ہوا کہ انہوں نے ثبوت پولیس کے حوالے نہیں کیے۔ اس وقت تک شرجیل میمن اپنا کام کر چکے تھے۔ انہوں نے شراب کی بوتلوں کو واش بیسن میں انڈیلا اور بوتلوں کو اچھی طرح دھو کر ان میں شہد اور زیتون کا تیل بھر دیا۔ اس طرح ثبوت ضائع ہوگئے۔ اب صرف دعوے ہیں۔ دعوؤں سے کیا حاصل ہوگا؟ یہ سوال اٹھا کر وہ لوگ اور زور سے ہنستے ہیں۔
کیا یہ المیہ نہیں کہ اس وقت سندھ سرکار کی باگ ایسے ہاتھوں میں ہے، جن کو بھی نہیں معلوم کہ چیف جسٹس کو ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ منصف کے سامنے ثبوت اس لیے پیش کیے جاتے ہیں کہ اسے یقین ہو جائے، مگر جب ایک بات چیف جسٹس نے اپنے آنکھوں سے دیکھی ہے اور چیف جسٹس کے سامنے شرجیل میمن نے اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ شراب ہے، مگر میری نہیں ہے تو وہ چند گھنٹوں کے بعد ثبوت مٹا کر یہ دعویٰ کس طرح کر سکتے ہیں کہ بوتلوں میں شراب نہیں، زیتون اور شہد تھا۔ وہ لوگ جو اپنی بچکانہ چالاکیوں پر اپنے آپ کو داد دیتے ہیں، وہ اس معمولی بات سے آگاہ نہیں کہ اس طرح وہ چیف جسٹس کو نہ صرف تنگ کر رہے ہیں، بلکہ اپنے آپ پر زیادہ جرائم کا بوجھ لاد رہے ہیں۔ کیا ایک ملزم چیف جسٹس کو جھٹلا سکتا ہے۔ چیف جسٹس کے سامنے عدلیہ کے عملے نے بوتل سونگھ کر بتایا کہ اس میں شراب ہے اور چیف جسٹس کے جانے کے بعد بوتلوں میں شہد اور تیل بھر کر میڈیا میں ایک تماشہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح شرجیل میمن نہ صرف شراب اور منشیات رکھنے بلکہ ثبوت مٹانے کے مقدمے میں بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ شراب کی بوتلیں عدالت میں منگوا کر ملزم کے وکیل اور ایوان عدالت میں موجود عوام کے سامنے پیش کریں۔ چیف جسٹس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اعلان کیا کہ شرجیل میمن کی سب جیل صدارتی سوئیٹ جیسی تھی اور وہاں پر شراب اور منشیات موجود تھی۔ شرجیل میمن کسی طرح بھی بیمار نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہ لوگ جو میڈیا کے ذریعے شہد اور زیتون کے تیل کی تشہیر کر رہے ہیں، ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ چیف جسٹس کو اس قسم کی چالاکی کا اندازہ تھا، اس لیے میڈیا میں یہ بھی رپورٹ ہوا تھا کہ چیف جسٹس نے اپنے کیمرے سے تصویریں بنائی تھیں۔ حالانکہ چیف جسٹس کو ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نہ صرف شرجیل میمن کی علالت کی حقیقت سے آگاہ ہیں، بلکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جناح اسپتال کی ڈاکٹر سیمی جمالی نے انہیں جس شخص کے بارے میں بتایا کہ وہ انور مجید کے صاحب زادے ہیں اور ان کا ایم آئی آر ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے مشین میں موجود جس شخص کی ٹانگیں دیکھیں، اس کے بارے میں بھی ان کو معلوم تھا کہ وہ شخص انور مجید کا بیٹا عبد الغنی نہیں تھا۔ یہی سبب تھا کہ چیف جسٹس نے تلخ طنز بھری مسکراہٹ سے ڈاکٹر سیمی جمالی کی طرف دیکھا اور وہاں سے چلے گئے۔ حالانکہ ان کے لیے یہ مشکل نہیں تھا کہ وہ ایم آر آئی مشین میں موجود مریض کو باہر نکالنے کو کہتے، مگر یہ سب کچھ چیف جسٹس نے اپنی شان کے برخلاف سمجھا اور ان کی شان کے خلاف بھی ہوتا۔
پیپلز پارٹی مکے وہ افراد جو آصف زرداری کے قریب اور سیاسی سمجھ سے بہت دور ہیں، ان کو اندازہ نہیں کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی حوالے سے کس موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہ وہ پاکستان نہیں، جس میں سب کو سب معاف ہو جاتا تھا۔ اب تو پرانے حساب بھی کھل رہے ہیں۔ سیاست کو کرپشن کا محفوظ کاروبار سمجھنے کا دور اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ سیاست کی معرفت ہونے والی کرپشن نے اس ملک کے معاشی اور معاشرتی بنیادوں کھوکھلا کر دیا ہے۔ پاکستان فطری طور پر بہت مضبوط ملک ہے۔ اگر پاکستان اس قدر مضبوط نہ ہوتا تو جس قدر
پاکستان کو گزشتہ سات عشروں کے دوران لوٹا گیا ہے، اس کی جگہ اگر دوسرا ملک ہوتا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔ یہ پاکستان ہے، جو اقتداری کشکمش اور حکمرانی کے عجیب و غریب تجربات سے گزر کر بھی جنوبی ایشیا کا ایک اہم ترین ملک ہے۔ اس ملک کے خزانے پر ڈاکے ڈالے گئے ہیں۔ مگر پھر بھی یہ ملک اپنے کھیتوں سے لہلہاتا ہے اور اس ملک کے کارخانوں میں مزدور محنت میں مصروف ہیں۔ مجرم سیاست مزدوروں کو زندہ جلا دیتی ہے، مگر پھر بھی کراچی کی معیشت کا پہیہ نہیں رکتا۔ یہ ایک ملک کی قوت ہے۔ اگر اس ملک سے دیانت اور دانش والی حقیقی سیاست کا سنگم ہوتا تو یہ ملک دنیا میں ایک مثالی ملک کی حیثیت سے پہچانا جاتا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملک پر ایسے حکمران رہے ہیں، جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کی کلیجی کے لیے ملکی مفادات کے بکروں کو بے پروائی سے کاٹا ہے۔
تاریخ میں ہمیشہ ادوار ہوتے ہیں۔ جس طرح دھرتی پر مختلف موسم آتے جاتے ہیں، اسی طرح تاریخ کے مختلف ادوار بھی مختلف موسموں کی طرح آتے جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان پر اس موسم کے سائے ہیں، جس موسم میں کرپٹ عناصر اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ الطاف حسین ایک سیاسی مسخرے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ اس سیاسی جوکر کو کراچی جیسے شہر میں مافیا جیسی جماعت کی سربراہی مل گئی۔ اس سیاسی مسخرے نے سفاکی کی انتہا کر دی۔ مگر وہ اسی جگہ پر پہنچا، جہاں اس کی اصل اوقات تھی۔ وہ شخص جو میڈیا کو انگلی کے اشاروں پر نچاتا تھا، اب اس کا نام اور اس کی تصویر میڈیا کے لیے ناقابل اشاعت ہے۔ باقی سوشل میڈیا پر سب کو آزادی ہے۔ وہ بھی سوشل میڈیا پر لوگوں کو ہنسانے کے لیے آزاد ہے۔ وہ شخص جو کراچی کا ہٹلر تھا، اب وہ سوشل میڈیا کا کلاؤن بن چکا ہے۔
’’پہنچی وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر تھی‘‘
میاں نواز شریف نے جس طرح سیاست کو خاندانی میراث میں تبدیل کیا۔ ان کا یہ رویہ سیاسی نہ تھا۔ میاں نواز شریف پانامہ کیس میں سزا ملنے کے بعد جس طرح کی انقلابی اور اصولی باتیں کر رہے ہیں، اگر وہ باتیں اقتدار کے دوران عمل میں لاتے تو آج پاکستان میں پانچ فیصد وہ خوشحالی نظر آتی، جو ان کے خاندان کی پہچان ہے۔ میاں نواز شریف جب بھی جلاوطنی یا جیل میں ہوتے ہیں، تب وہ بااصول بن جاتے ہیں، مگر جب وہ آزاد ہوتے ہیں یا اقتدار میں ہوتے ہیں تو پاکستان کی روایتی سیاست کے راستے پر چلتے رہتے ہیں۔
پاکستان اس وقت روایت شکن دور سے گزر رہا ہے۔ اس میں عمران خان کا کوئی کارنامہ نہیں، مگر یہ حالات کا فیصلہ ہے کہ وہ سارے سیاستدان جنہوں نے اس ملک کو اذیت سے دوچار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ جنہوں نے پاکستان کو دشمن اور مفتوح ملک سمجھ کر لوٹا۔ جنہوں نے ملک کی سیاسی قوت کو کرپٹ بنایا۔ جنہوں نے عوام کے دکھوں میں اضافہ کیا۔ جنہوں نے قوم کو مایوس اور ملک کو رسوا کیا۔ جنہوں نے پاکستان جیسے سونا اگلتے ملک کو مقروض کیا۔ جنہوں نے ملک دشمنوں سے مل کر پاکستان کو بین الاقوامی سازشوں کی زنجیروں میں جکڑنے کی سازش کی۔ وہ اب اپنی سزا کو پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسی کوئی قوت نہیں، جو ملکی حالات کو اس تھیوری پر چلائے کہ تینوں بڑی جماعتوں کو اپنی روایتی قیادت سے جان چھڑانا ہے۔ وہ ہر جماعت سے مائنس ون والا فارمولہ الطاف حسین اور نواز شریف کے بعد اب زرداری کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ اس بار بھی اتفاق سے آصف زرداری کی جماعت قومی اسمبلی میں اقتداری سیاست کی اسٹرٹیجک پوزیشن میں موجود ہے، مگر پھر بھی وہ پارٹی اپنے حادثاتی قائد آصف زرداری کو احتساب سے نہیں بچا سکتی۔
جرمن مفکر نٹشے نے لکھا ہے کہ کبھی ہم سب ایک بہت بڑے ارادے کے آگے بے بس ہوکر وہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو کچھ ہم کرنا نہیں چاہتے۔ آصف زرداری اس بار بھی کھیل اچھا کھیلا تھا۔ ان کی چالیں دیکھ کر ان کے ساتھیوں نے یہ نعرے لگانے شروع کیے تھے کہ:
’’دوسری باری پھر زرداری‘‘
زرداری کا خیال تھا کہ وہ عمران خان مجبور کردیں گے کہ انہیں ایک بار پھر اس ایوان صدر کی رونق بنائیں، جہاں وہ گوشہ عافیت میں عیاشیاں کریں، مگر حالات کا جبر آصف زرداری کو اس طرف دھکیل رہا ہے، جس طرف زرداری کی مخالفت میں لگنے والے ان نعروں کا شور بڑھ رہا ہے کہ:
’’اب تیری باری زرداری‘‘ ٭
٭٭٭٭٭