ٹرمپ نامہ

ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
’’ملک میں جمہوریت کو خطرہ ہے، میرے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، معیشت بحال کرنا اور جرائم میں کمی میرا جرم ہے، مخصوص طاقتیں میڈیا کو میرے خلاف استعمال کر رہی ہیں، میرا کوئی مواخذہ نہیں کر سکتا، عوام کو جاگ کر رہنا ہوگا، اپوزیشن کی سازشیں ناکام بنائیں گے‘‘۔ یہ پڑھ کر تو لگتا ہے کہ کوئی پاکستانی رہنما اپنے اقتدار کو جاتا دیکھ رہا ہے اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ سے پہلے کا سیاسی ترانہ پڑھ رہا ہے، لیکن یہ کسی پاکستانی رہنما کا بیان نہیں، بلکہ امریکی صدر ٹرمپ کا اپنے حامیوں سے خطاب ہے۔ ٹرمپ جب صدر بنے تھے، تو ہم نے لکھا تھا کہ ٹرمپ پاکستانی سیاستدانوں سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں، اب ان کا تازہ خطاب سن کر تو لگتا ہے وہ خاصے نہیں بلکہ پورے ہی متاثر ہیں، ان کی وجہ سے امریکہ میں بھی ایسی سیاسی فلم چل رہی ہے، جو پاکستانی سیاست کا خاصہ رہی ہے۔ ٹرمپ کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آرہا ہے، تو انہوں نے خطاب بھی پاکستانی رہنمائوں جیسا کرنا شروع کردیا ہے، وہ بھی ہمارے رہنمائوں کی طرح خود کو ہی جمہوریت سمجھنے لگے ہیں، انہیں بھی اپنے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی سازش نظر آرہی ہے، پہلی بار انہوں نے اپنی زبان سے اپنے مواخذے کے امکان کا بھی ذکر کیا ہے۔
ٹرمپ کی گھبراہٹ کی وجہ بنی ہے معروف صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف باب ووڈ ورڈ کی نئی کتاب جو گیارہ ستمبر کو آنے والی ہے۔ باب ووڈ ورڈ ماضی میں صدر نکسن کے زوال کا سبب بن چکے ہیں، واٹر گیٹ اسکینڈل وہی سامنے لائے تھے، باب ووڈ ورڈ کے لئے سی آئی اے سمیت کس کس امریکی ادارے کے گیٹ کھلے ہوئے ہیں، یہ بھی ٹرمپ اچھی طرح جانتے ہیں اور پھر ان دروازوں کے کھلنے سے اقتدار کے دروازے بند ہونے کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ ووڈ ورڈ کو رکھا ہی اس کام کے لئے گیا ہے کہ جب ضرورت ہو ان کے ذریعے کسی صدر کے خلاف گیٹ کھلوا دیا جائے۔ صدر کلنٹن کو بھی ان کے ذریعے ہی ناکوں چنے چبوائے گئے تھے۔ اس لئے لگتا ہے کتاب آنے سے قبل ہی ٹرمپ کو زوال کا واٹر اپنی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے اور وہ جلسوں میں جارحانہ خطاب کے ذریعے اپنے تحفظ کے لئے بند باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایسے بند ہمیشہ کمزور ہی ثابت ہوتے ہیں، اس لئے انہوں نے مستقبل میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ طرز کی مہم چلانے کی بنیاد بھی رکھنی شروع کردی ہے، اس کا موقع انہیں نومبر میں ہونے والے کانگریس کے مڈٹرم الیکشن نے فراہم کردیا ہے، ٹرمپ مہم تو اپنی پارٹی کے امیدواروں کی چلانے جاتے ہیں، لیکن جہاں جاتے ہیں، رونا اپنا ہی روتے رہتے ہیں۔
باب ووڈ ورڈ نے اپنی نئی کتاب میں کیا لکھا ہے، یہ تو کتاب سامنے آنے پر ہی واضح ہوگا، لیکن کچھ حصے جو سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق ٹرمپ کے ساتھی اسے سیکورٹی کے لئے خطرہ اور احمق سمجھتے ہیں، عالمی تعلقات اور معیشت کے معاملات پر ان کے قریبی ساتھی صدر کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لئے وہ یہ مؤقف اپناتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کو ’’زحمت‘‘ نہیں دینا چاہتے، حالاں کہ اصل بات یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ امریکہ کیلئے زحمت کا سبب بن جاتے ہیں، اس لئے اب معاملات صدر سے خفیہ رکھے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر دفاع جیمز میٹس ٹرمپ کو بچہ اور ذہنی طور پر پانچویں جماعت کا بچہ سمجھتے ہیں، جبکہ چیف آف اسٹاف جان کیلی صدر کو احمق اور ملکی سلامتی کیلئے خطرہ۔
باب ووڈ ورڈ نے تو نئی انٹری دی ہے، ٹرمپ اس سے پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ میڈیا سے لڑ رہے تھے، اب ووڈ ورڈ کو دیکھتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے بھی ایک مضموں چھاپ ڈالا۔ اس مضمون کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بے نامی تھا، یہ بھی ٹرمپ کی برکات ہیں کہ اب امریکی اخبارات میں بے نامی مضمون چھپنے لگے ہیں، اس پر تو ٹرمپ کو خوش ہونا چاہئے، اس کا مطلب ہے کہ لوگ ان کی ناراضگی سے ڈرنے تو لگے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے بے نامی مضمون میں صدر ٹرمپ کو اخلاقیات سے عاری قرار دیا اور کہا کہ وائٹ ہائوس کا عملہ اب ان کے روئیے کی وجہ سے فائلیں چھپا دیتا ہے، تاکہ وہ ان پر دستخط نہ کر سکیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹرمپ سے جان چھڑانے کے لئے آئینی ترمیم پر بھی بات ہو رہی ہے، جس کے تحت نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت ایک ایسے صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ووٹ کر سکتے ہیں، جو اپنے اختیارات اور فرائص انجام دینے میں ناکام رہے۔ اب ٹرمپ کہاں خاموش رہنے والے تھے، انہوں نے مضمون لکھنے والے بے نام مصنف کو غدار اور ڈرپوک جبکہ اخبار کو جعلی قرار دے دیا۔ ٹرمپ نے ہتک عزت کے قوانین بدلنے کی بات کی اور ہمارے سیاستدانوں کی طرح کہا کہ سیاستدانوں کی اتنی ہتک ہوتی ہے، وہ کیوں خاموش رہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ باقی میڈیا سے تو لڑرہے تھے، لیکن فاکس نیوز ان کا پسندیدہ چینل تھا۔ مگر ان کے لئے بری خبر وہاں سے بھی آگئی اور اچانک ان کے پسندیدہ چینل کی ایک اینکر بھی اسکرپٹ سے ہٹ کر اپنی مرضی کی خبر پڑھ ڈالی، جس میں ٹرمپ کو صدارت کے لئے غیر موزوں قرار دے ڈالا۔ لگتا ہے یہ اینکر بھی کسی ’’گیٹ‘‘ سے ہوکر آئی تھی اور اسے کہیں اور نوکری ملنے کی یقین دہانی بھی ملی ہوئی تھی، تبھی وہ اپنا کیریئر دائو پر لگا کر ٹرمپ کا کیریئر خراب کرنے کی مہم میں شامل ہوگئی۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment