نمک کی زیرزمین دیوار75 کلو میٹر تک لمبی ہوسکتی ہے

نمک کے گنبدوں اور نمک کی دیواروں کی کھلے آسمان کے نیچے موجودگی اس حقیقت کا ثبوت یا نشاندہی ہے کہ جتنا نمک، نکاسی آب کے نالے اور بارشیں بہا کر لے جاتی ہیں، اتنا ہی، نمک کے یہ عظیم اجسام اوپر کھسک آتے ہیں۔ نتیجتاً نمک کے ان اجسام کی سطح زمین پر موجودگی قائم رہتی ہے۔ کیوں کہ اس نمک کی دیوار کی مغربی سائیڈ مجھے صحیح و سالم مل گئی تھی، اس لیے میں نے اسے خاصی تفصیل سے چیک کیا اور کی جابجا نمونہ گیری کی۔ یہ مغربی سائیڈ تفصیل سے دیکھ لینے اور اس کی نمونہ گیری کر لینے کے بعد ہی میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ نمک کا کوئی عام علاقہ نہیں ہے، بلکہ دراصل یہ نمک کی ایک مثالی زیر زمین دیوار ہے۔ نمک کی زیر زمین دیواریں کیا ہیں اور وہ کیسے وجود آتی ہیں اس کے لیے قارئین کو میرا مشورہ ہے کہ وہ مشہور جرمن جیولوجسٹ جناب ایف ٹروشائم (F.Trusheim) کے مقالے (Machanism of Salt Migration n Northern Germany) کا مطالعہ فرمائیں، جو AAPG Bulletin کے ستمبر 1960ء کے شمار میں شائع ہوا ہے۔ یہ کتاب ایک عام قاری کے لیے ہے۔ یہاں سالٹ ٹیکٹونکس (Salt tectonics) کے میکنزم کو زیر بحث لانا قارئین کے اکثر حلقوں میں مناسب نہیں سمجھا جائے گا، اس لئے بس اتنا بتادینا کافی ہوگا، کہ نمک کی کوئی موٹی اور افقی حالت میں پڑی ہوئی تہہ جب زمین کی گہرائیوں میں اپنے اوپر لدی ہوئی دیگر تہوں کے بوجھ سے تنگ آجاتی ہے یا اس کی قدرت سے عطا کردہ قوت برداشت (elastic limit) سے بات آگے چلی جاتی ہے تو وہ مثل جیلی یا مثل گوندھے ہوئے آٹے کے برتاؤ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ جس جگہ اوپر پڑے ہوئے بوجھ کا دباؤ نسبتاً کم ہوتا ہے، وہاں سے ایک موٹے (ایک کلومیٹر سے دس کلومیٹر قطر تک کے) پائپ کی شکل میں یا ایک کلومیٹر سے کئی کلومیٹر تک چوڑی اور 75 کلومیٹر تک لمبی دیوار کی شکل میں اوپر اٹھنا شروع کر دیتی ہے۔ اگرچہ نمک کے اس عظیم ماس (mass) کے اوپر اٹھنے کی رفتار بہت سست (چند ملی میٹر فی سال سے چند سینٹی میٹر فی سال) ہوتی ہے، مگر اس میں بلا کی طاقت ہوتی ہے اور یہ اپنے اوپر پڑی ہوئی ہر قسم کی چٹان کو پہلے اوپر اٹھاتی ہوئی اور پھر اسے چیرتی ہوئی اوپر بڑھتا چلا آتی ہے اور چند لاکھ سے چند ملین برسوں میں سطح زمین پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ چونکہ زمین کی سطح کے نزدیک پہنچتے پہنچتے اس پر دباؤ بہت کم ہوچکا ہوتا ہے، اس لیے ایک بڑے پائپ کی شکل میں اوپر آجاتی ہے۔ پھر اوپر پھیل کر ایک چھتری یا مشروم کی شکل کا ہوجائے تو اسے نمک کا گنبد یا سالٹ ڈوم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور اگر یہ موٹی اور لمبی دیوار کی شکل کی ہوگئی ہو تو اسے نمک کی دیوار کہا جاتا ہے۔ نمک کے گنبدوں اور نمک کی دیواروں کی اونچائی پیر سے سر تک چند کلومیٹر سے لے کر 30 کلومیٹر تک ہو سکتی ہے۔
گرم سار اور سیمنان کے تمام علاقے اور سیمنان کے جنوب مشرقی علاقے تک نمک اور جپسم کی کانیں اور ان پر منحصر کیمیائی مرکبات بنانی والی فیکٹریاں پھیلی پڑی ہیں۔ مگر دلازیاں جپسم کی کان اس زمانے میں جبکہ میں وہاں تھا، بند پڑی تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ مین روڈ سے جس کے دونوں اطراف میں کیمیکل فیکٹریاں واقع تھیں، بہت دور واقع تھی اور ڈھلائی کے اخراجات کی مد میں دوسری قریبی کانوں سے مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔
ایرانیوں نے اپنے نمک یا نمک کی کونوں کے نام رکھنے میں بھی اپنے ذوق نفاست کا پاس کیا ہے۔ مثال کے طور پر دو نمک کی کانوں کے نام ملا خطہ کیجیے۔
نمک یا قوت۔ نمک موعود
ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں نام نمک کی کانوں کے نہ ہوں، بلکہ ان نمکوں کے ٹریڈ نام ہوں، جو ان کانوں سے نکلتے تھے، جہاں ان ناموں کے سائن بورڈ لگے ہوئے تھے۔
قوی اندازہ ہے کہ دلازیاں اور سیمنان کے علاقے میں جو جپسم پایا جاتا ہے اور جس کو خاصے بڑے پیمانے پر نکالا بھی جارہا ہے، وہ تہہ دار یا سیڈیمنٹری (Sedimentary) جپسم نہیں ہے۔ بلکہ وہ تمام کا تمام دلازیاں کے عظیم نمک کی دیوار کی کیپ راک کا جپسم ہے، جیسا کہ پاکستان میںکوہستان نمک اور کرک سالٹ رینجز (Karak Salt Ranges) میں پائے جانے والے اکثر جپسم کے ذخائر کے بارے میں صحیح ہے۔
مجھے دلازیاں سالٹ وال کے مغربی بازو کا مطالعہ کرنے اور اس کے معدنیاتی نمونے جمع کرنے میں دیر لگی تو پیچھے سے ٹیکسی ڈرائیور ہدایت صاحب نے واویلا شروع کر دیا کہ بہت دیر ہوگئی ہے، اب واپس پلٹو۔ اس وقت یا تو آفتاب غروب ہو چکا تھا یا ہونے والا تھا۔ نتیجتاً میں نے جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹا اور دلازیاں سالٹ وال کی آشکار (exposed) موٹائی کو ایک مرتبہ پھر عبور کرتا ہوا کسی نہ کسی طرح گاڑی تک پہنچ ہی گیا۔ ہدایت صاحب بہت برہم تھے کہ میری وجہ سے وہ اس گندے اور لعنت زدہ علاقے میں آنے پر مجبور ہوئے۔ بہرحال ان صاحب نے مجھے بفضل تعالیٰ خیریت سے مہمان پذیر تک پہنچادیا۔ ان سے آنے جانے کے سفر کے 60,000 ریال طے ہوئے تھے۔ مگر خراب جگہ ہونے کے ناطے میں نے انہیں 72,000 ریال ادا کر دیئے۔ شاید وہ اس سے بھی زیادہ کی امید کر رہے تھے، مگر منہ سے کچھ نہ بولے۔ مہمان پذیرکے واش روم میں جاکر پہلے تو میں نے جسم، جوتوں اور کپڑوں کے ان حصوں کو دھویا، جن کو نمک کی گندمی رنگ کی تلچھٹی مٹی نے آلودہ کر دیا تھا۔ پھر کپڑے بدلے اور سیدھا مہمان پذیر کی مشفق خاتون منیجر کے پاس پہنچا کہ وہ مجھے کسی ایسے ہوٹل، رستوران یا دکان کا پتہ بتادیں، جہاں مجھے اس وقت کچھ کھانے کو مل جائے۔ وہ محترمہ بولیں کہ کافی رات ہوچکی ہے، ہوٹل اور رستوران تو سب بند ہو چکے ہونگے۔ بس ایک جگہ امید ہے اور وہ ہے مجید (یا رشید) کبابیے کی دکان۔ اور اس دکان کا پتہ ان صاحبہ نے مجھے ایسے اچھے انداز میں سجھایا کہ میں مزید کسی سے پوچھے بغیر سیدھا مجید کبابیے کی دکان پر پہنچ گیا۔ حالانکہ درمیان میں کئی موڑ اور سڑکوں کا بدلنا شامل تھا۔ مگر وائے قسمت کہ مجید کبابیے صاحب بھی اپنی دکان بڑھا کر جاچکے تھے۔
اب میں نے خود قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ بازار میں نظر دوڑائی تو کچھ فاصلے پر داہنے ہاتھ کو دو عدد دکانوں کی روشنیاں نظر آئیں۔ پہلی دکان پر پہنچا تو وہاں دکاندار کی جگہ ایک دس بارہ سال کا چاق و چوبند لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ دکان میں نظر دوڑائی تو یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا کہ وہ اشیائے خور و نوش ہی کی دکان تھی۔ میں نے السلام علیکم کہا تو بچے نے مجھے قدرے حیرت سے دیکھ کر سلام کا جواب دیا۔ اس کے بعد بے خیالی میں میرے منہ سے اپنی ضرورت کے بارے میں کوئی انگریزی کا جملہ ادا ہوگیا۔ میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ جب ملک سے کبھی باہر ہوتا ہوں تو میری زبان پر کبھی فارسی، کبھی انگریزی اور کبھی جرمن جاری ہو جاتی ہے۔ میرے منہ سے انگریزی کے الفاظ سننے تھے کہ بچے پر حیرت و پریشانی کی عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ میری طرف انگلی کا اشارہ کر کے بولا کہ ’’شما انگلیسیا انگلیسیا‘‘۔ اس کے بعد اس غریب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً اپنی دکان سے باہر ننگے پیر ہی نیچے کودا اور دو بند دکان چھوڑ کر تیسری کھلی دکان پر پہنچ کر کسی سے ہذیانی انداز میں بات کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ اپنی عمر کے ایک اور لڑکے کے ساتھ دکان پر واپس پہنچ گیا اور میری طرف انگلی سے اشارہ کر کے بولا کہ ’انگلیسیا‘، ’انگلیسیا‘۔ دوسرے ’انگلش داں‘ لڑکے نے مجھے دیکھا تو اس کی نظریں مجھ پر گڑھی ہی رہ گئیں۔ وہ بولنے کی بہت کوشش کر رہا تھا، مگر الفاظ اس کے منہ سے ادا نہ ہوتے تھے۔ بڑی مشکل سے اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ’’You Stand Up‘‘، بمعنی ’’تم کھڑے ہوجاؤ!‘‘۔ مگر میں کیونکہ پہلے ہی کھڑا تھا اس لئے سمجھ گیا کہ غریب بچے نے یا تو معنی سمجھے بغیر کچھ انگریزی کے جملے رٹ لئے ہیں یا وہ ایک اجنبی کو دیکھ کر پریشانی کے عالم میں صحیح جملے کو غلط موقع پر بول گیا ہے۔ بہرحال میں نے اس بچے کے انگریزی کے جملے کو نظر انداز کرکے سامنے رکھی کھانے پینے کی اشیا کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کیا اشیا ہیں؟ اور یہ کہ میں کھانے پینے کی چیزوں کی تلاش میں ان کی دکان تک پہنچا ہوں۔ اب دونوں لڑکے اپنا خوف جھاڑ کر پکے دکاندار بن گئے۔ انہوں نے اپنی ہر چیز اور اس کے فوائد کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے اور مجھے اپنی دکان سے بہت سارا پنیر، شہد اور ایک براؤن یا مٹیالے رنگ کا بہت باریک سرمہ جیسا سفوف خریدنے پر مجبور کر دیا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی ہر چیز نہایت اعلیٰ قسم کی تھی۔ باوجودیکہ اس براؤن سفوف کی ماہیت کے بارے میں مجھے بچوں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی، مگر میری سمجھ میں خاک نہ آیا کہ آخر وہ ہے کیا شے۔ پہلے میں سمجھا کہ وہ صندل کی بہت باریک پسی ہوئی لکڑی ہے۔ مگر سونگھ کر دیکھا تو اس میں صندل کی ذرا سی بھی بو نہ تھی۔ چکھنے اور کھانے میں بھی اس کا بڑا عجیب مزہ تھا۔ مگر اس کے باوجود میں اپنے مہمان پذیر آکر اسے پنیر اور شہد میں ملا کر کھا گیا کہ منہ کو اچھا نہیں لگتا تو کیا پیٹ میں جاکر تو کسی نہ کسی فائدے کا باعث ہوگا ہی کیونکہ بچوں نے جو اس کی اتنی تعریف کی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment