عیش و عشرت کو اندیشہ زوال نہ ہو

لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
حالات اتنے مخدوش تھے کہ الیکشن ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ دشمن بھی چاہتے تھے کہ الیکشن نہ ہو اور ملک یونہی ہنگامی حالات کا شکار رہے۔ خدا خدا کرکے الیکشن ہوگئے اور نئی اسمبلی منتخب ہوگئی۔ گزشتہ اکہتر سال میں اکہتر بار اقتدار کی تبدیلی ہوئی ہوگی۔ مگر تبدیلی کے دوران کبھی کسی حکمران کا خون نہیں ہوا۔ پہلی بڑی تبدیلی 1958ء میں آئی۔ دوسری بڑی تبدیلی 1971ء میں آئی، پھر 1977ء میں، پھر 1988ء میں، پھر 1999ء میں پھر 2008ء میں۔ ان تبدیلیوں میں شورو ہنگامہ تو بڑا ہوا۔ لیکن کبھی کسی حکمران کا خون کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ اسی دوران اگر افغانستان، ایران، ترکی، عراق، شام، مصر، لیبیا اور کئی دوسرے مسلمان ممالک پر نظر ڈالیں تو وہاں اقتدار کی تبدیلی کے وقت کسی نہ کسی کا خون بہانے کی نوبت آئی۔ پاکستان کے عوام اب بھی بے شعور اور جذباتی ہیں۔ لیکن خونخوار نہیں۔ مغربی ممالک میں بڑی زبردست سیاسی اور تہذیبی ترقی ہوئی ہے۔ ابھی پاکستان اس منزل سے بہت دور ہے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح سے اس راہ پر چل رہا ہے۔ پاکستان کے لئے موجودہ حکمران کے ۔
بارے میں ایک بات بہت حوصلہ افزا ہے۔ وہ مغربی تعلیم سے آراستہ ہیں۔ انہوں نے دنیا خوب دیکھ رکھی ہے۔ لیکن ان کی منزل ریاست مدینہ ہے۔ ابھی تو ان کا دعویٰ ہے۔ انہیں اس کے لئے پانچ سال کا عرصہ دیا گیا ہے۔ اگر وہ مدینہ والے راستے پر چلے تو یہ ہم سب کے لئے مبارک ہوگا۔ اگر نہ چلے تو پانچ سال کے بعد ان کو اسی طرح (ووٹ کے ذریعے) نکال باہر کر دیا جائے گا۔ پاکستان کے سابقہ تین حکمران ذرا پڑھے لکھے نہ تھے۔ مشرف، زرداری اور نواز شریف۔ کوئی ماہر نفسیات اس بات کا تجزیہ کر سکے گا کہ پھر کیوں انہوں نے عوام کی بھلائی کے بجائے ذاتی عیش و عشرت پر توجہ دی۔ انہوں نے کیوں لوٹ مار کی۔ اثاثے بنا کر بیرون ملک جمع کروائے۔ شاید وہ سمجھتے تھے کہ ایک دن انہیں اقتدار سے نکال باہر کیا جائے گا اور انہیں دبئی یا لندن میں ہی پناہ مل سکے گی۔ اس وقت یہ تینوں حضرات اقتدار سے باہر ہیں اور پریشان ہیں۔ مشرف ڈر کے مارے پاکستان واپس نہیں آسکتے۔ نواز شریف اڈیالہ جیل میں ہیں۔ جیل ان کے بیٹوں اور سمدھی کا انتظار کر رہی ہے۔ آصف علی زرداری اور ان کی بہن نیب کے ریڈار پر ہیں۔ بہت بڑے بڑے افسران اعلیٰ، عدالت کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ حسین لوائی اور فواد احمد فواد جیسے بڑے بڑے لوگ احتساب کی رسیوں میں جکڑے پڑے ہیں۔ بڑے بڑے دانشور اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کی کاوش سے بڑے مسائل اجاگر ہو گئے۔ پاکستان میں نہ ماہرین تعلیم کی کمی ہے، نہ معاشی ماہرین کی۔ نہ کسی اور میدان کے ماہرین کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک صائب رائے سب کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ یا ہونے دیا جاتا۔ سوئٹزر لینڈ میں لوٹا ہوا مال جمع ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے دست تعاون دراز کیا۔ پاکستان نے جان بوجھ کر تغافل کیا۔ صحافتی حلقوں نے گورنر اسٹیٹ بینک کو اس تغافل کا ذمہ دار
قرار دیا۔ یہ کہنے والے تو بہت ہیں کہ لوٹا ہوا خزانہ واپس آجائے تو سارے قرضے اتر جائیں۔ لیکن ان پر عمل کرنے والا کوئی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ جو لوگ بہت اعلیٰ سیاسی شعور رکھتے ہیں، وہی جانتے ہیں کہ رٹ WRIT کیا چیز ہے۔ رٹ قائم کرنے کے لئے حکمران کا کردار بے داغ ہونا چاہئے۔ مشرف، زرداری اور نواز شریف… تینوں کے بچے اربوں کھربوں میں کھیلتے ہیں۔ یہ لوگ جس شاہانہ انداز سے رہتے ہیں، وہ بڑے بڑے بادشاہوں کو حاصل نہیں۔ غریبوں کو پینے کے لئے صاف پانی کا ایک قطرہ میسر نہیں اور حکمراں آب مصفیٰ پیتے ہیں۔ اس کا ایک ایک قطرہ ہزار ڈالر کا ہوتا ہے۔ حکمرانوں کے شاہانہ انداز کی ایک جھلک اخبارات سے۔
1۔ شہباز شریف (وزیر اعلیٰ) نے خزانے کا اربوں کا نقصان پہنچایا۔
2۔ پنجاب کے ہر ادارے میں اربوں کی کرپشن۔
3۔ سرکاری جہازوں اور گاڑیوں کا بے دریغ استعمال۔
4۔ چیف منسٹر ہاؤس پر اربوں کے اخراجات۔
5۔ پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس کا رقبہ بے حساب، عملہ بے حساب، پروٹوکول بے حساب، مہمان نوازی پر اخراجات بے حساب، کل اخراجات بے حساب۔
6۔ جاتی امرا، لاہور پر سرکاری اخراجات کا شمار کرتے ہوئے کمپیوٹر فیل ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دس سال میں ساڑھے سات ارب روپے شریف خاندان کو ظل الٰہی بنانے میں خرچ ہوا۔ شریف نواز اور شہباز شریف تو پھر بھی سرکاری حکمران تھے۔ ان کے بچوں اور بچوں کے بچوں کو بھی ظل الٰہی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
اب نواز شریف نے بڑی اداس نظروں سے عمران خان کو حلف اٹھاتے دیکھا ہوگا۔ آج سے پانچ سال پہلے پرویز مشرف
نے دوبٹے ہوئے دل کے ساتھ نواز شریف کو وزیراعظم کا حلف اٹھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ ایک دفعہ اقتدار میں آگئے تو خدا ہی نکالے، ورنہ ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا اقتدار کے مزے چھوڑنے کا۔ جو لوگ اصرار کرتے ہیں کہ کرپشن کرنے والوں کو گولی مار دینی چاہئے، ان سے میری درخواست ہے کہ عمر قید کی سزا کا ایک دن، پھانسی کے چند منٹ سے زیادہ اذیت ناک ہے۔ جو حضرات رسائی رکھتے ہوں، وہ یہ ناول ضرور پڑھ لیں Hundred years of Solitude یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے عیش و عشرت کو اندیشہ زوال نہ ہو۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment