میں نے ملائیشیا جانے کا پختہ ارادہ کرکے اپنے ٹریول ایجنٹ کو فون کیا۔
’’ کب جانا چاہتے ہیں؟‘‘ سٹی ٹریول ایجنسی کے انچارج عبدالقادر نے پوچھا۔ آپ کو کراچی کی ہر اہم سڑک پر کسی نہ کسی ٹریول ایجنسی کا دفتر ضرور نظر آئے گا۔ ایک زمانے میں ہم پاکستانیوں کے لیے بیرون ممالک ملازمت کے بے شمار مواقع دستیاب تھے۔ مشرق بعید، عرب ممالک حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ میں بھی ہمارے لوگوں کی عزت کی جاتی تھی۔ ولایت جانے کے لیے ہمارے لوگوں کی لائن سی لگی رہتی تھی، جسے بزنس کا شوق ہوتا، وہ ہوائی جہاز کے ٹکٹ فروخت کرنے کی ایجنسی کھول لیتا تھا۔ اب ہمارے لیے نہ تو وہ ملازمتیں ہیں اور نہ ہی ہمارے لوگوں کی بیرون ملک کہیں کوئی عزت رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ملک کے سکے (کرنسی) کی بھی کوئی قدر نہیں رہی۔ ٹریول ایجنٹ دن کا بڑا حصہ مچھر اور مکھیاں مار کر گزارتے ہیں۔ میں اور میرے جہازی دوست شروع ہی سے بیرون ملک یا اندرون ملک جانے کے لیے پٹارو کے دوست اور کلاس میٹ کرنل محی الدین کی ٹریول ایجنسی سے ٹکٹ لیتے ہیں۔ طویل عرصے سے ان کے دفاتر کے انچارج عبدالقادر دیسائی ہیں۔ وہ تلاش بسیار کے بعد کسی ایسی ہوائی کمپنیوں کے ٹکٹ ڈھونڈ نکالتے ہیں جو زیادہ مشہور نہ ہوں۔ جن کے خالی جہاز فضا میں آکٹین جیسا ایندھن صرف کرتے ہوئے ہوں یا طویل چکر کاٹنے کے بعد منزل پر پہنچاتے ہوں… بس ان کے ٹکٹ سستے ہوں!
پچھلی مرتبہ کوالالمپور جانے کے لیے میں نے ان سے تھائی ایئر کے ٹکٹ کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ میں ’’ملائیشین ایئر سسٹم‘‘ (MAS) کمپنی کے جہاز میں سفر کروں۔
’’ وہ کیوں؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’ انہوں نے ایک نئے روٹ کا آغاز کیا ہے۔ یعنی کوالالمپور، کراچی، ابو ظہبی اور واپس کراچی سے کوالالمپور… ابو ظہبی سے جہاز خالی آرہے ہیں۔ کمپنی نے
مسافروں کی ترغیب کے لیے ٹکٹ انتہائی سستے کر دیئے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کوالالمپور کے مضافاتی علاقوں میں کئی نئے ہوٹل کھل چکے ہیں اور ٹورسٹ فی الحال ان میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اب ہوٹل مالکان نے اپنی ’’مشہوری‘‘ کے لیے اپنے ملک کی ہوائی کمپنی MAS سے معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت اس فضائی کمپنی میں سفر کرنے والے مسافروں کو تین دن، تین راتیں مفت رہائش کی پیشکش کی گئی ہے۔‘‘
میں نے تھائی ایئر کا خیال اپنے ذہن سے نکال کر عبدالقادر کے مشورے پر عمل کرنے کی ہامی بھرلی تھی۔ ویسے بھی ہمارے ملک کے لوگوں کے لیے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کی جانب سفر کرنے کے لیے جون اور جولائی کے گرم مہینے بہتر ہیں۔ کیونکہ ان مہینوں میں ہوائی جہاز اور ہوٹل خالی نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ یورپ اور امریکا کے لوگ گرمیوں میں اپنے ہی ملک میں خوش رہتے ہیں۔ وہ صرف سردی کے موسم میں اپنے ملکوں کی سرد اور کاٹ دار ہواؤں سے بچنے کے لیے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں، جس طرح ہمارے ہاں کے لوگ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے کوہ مری اور گلگت کی اطراف میں جانا پسند کرتے ہیں۔ لیکن وہاں کے لوگ ان دنوں میں سیر و تفریح یا چھٹیاں گزارنے کے لیے پنجاب، سندھ اور کراچی کا رخ ہرگز نہیں کریں گے۔
سو اس مرتبہ عبدالقادر کے دریافت کرنے پر کہ میں کب ملائیشیا جانا چانا ہوں، میں نے جواب دیا ’’جون کے پہلے ہفتے میں۔‘‘
’’بہتر ہے کہ آپ ان دو مہینوں کے دوران نہ جائیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا مفت کا ہوٹل نہیں ملے گا؟‘‘
حالانکہ اس مرتبہ مجھے ہوٹل کے کمرے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اب ملائیشیا میں ہمارے ہم وطن اتنی تعداد میں رہتے تھے کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس کے پاس جا کر رہنا چاہئے اور کس سے معذرت کی جائے۔
’’اب مفت کے ہوٹل کے بارے میں سوچیے گا بھی نہیں۔ ٹکٹ میں کمی بھی ان دو مہینوں میں ممکن نہیں ہے۔‘‘ عبد القادر نے جواب دیا۔
’’چلیں، ملائیشیا کے ہوائی جہاز میں نہ سہی، تھائی لینڈ یا سری لنکا۔‘‘
’’جناب! سب کا حال یکساں ہے۔‘‘ انہوں نے میری بات کاٹتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیوں بھئی؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’اسکولوں اور کالجز کی چھٹیاں ہونے کے سبب ہر کوئی ملائیشیا جانا چاہتا ہے، اس کے علاوہ عربوں نے بھی ادھر کا رخ کر لیا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے… میرا ان دنوں میں جانا کچھ ضروری بھی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں ٹکٹ سستے ہونے کے شوق میں اکتوبر اور نومبر تک کا بھی انتظار کر سکتا ہوں۔‘‘
’’میں ان دنوں میں آپ کو اتنی ہی رقم میں جاپان تک کا ٹکٹ دے سکتا ہوں، جتنی رقم اب آپ کو کراچی سے کوالالمپور تک کے ٹکٹ کے عوض ادا کرنی پڑے گی۔‘‘ انہوں نے گویا ترغیب آمیز خوش خبری سنائی۔
’’یہ تو بہت اچھی خبر سنائی آپ نے۔ جاتے وقت میں کوالالمپور میں اتر جاؤں گا۔ ایک ہفتہ ملائیشیا میں گزارنے کے بعد اوساکا چلا جاؤں گا، لیکن عبدالقادر! یہ تو بتائیں کہ اوساکا سے واپسی پر کوالالمپور میں 24 گھنٹے کے بعد دوسری فلائٹ ہوگی۔ اس کے انتظار کے لیے کوالالمپور ایئر پورٹ پر واقع ہوٹل میں رہائش کے اخراجات ایئر کمپنی ادا کرے گی یا نہیں؟‘‘
’’ پرانی باتیں بھول جائیں جناب! ایک وقت تھا جب ملائیشیا کی فضائی کمپنی کو کوئی پوچھتا نہ تھا۔ اب وہ ہمیں نہیں پوچھتے۔ بہرحال جاپان سے واپسی پر کوالالمپور میں فلائٹ کے انتظار کے لیے میں ایک دن کا ہوٹل واؤچر بنوا دوں گا، وہ بھی صرف رہائش کے لیے، کھانے وغیرہ کا نہیں مل سکے گا۔‘‘
’’آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میں گھر سے کھانا پکوا کر ساتھ لے کر چلوں گا۔‘‘ میں نے عبد القادر سے کہا۔ پھر پوچھا ’’آخر ایسا کیوں ہے؟‘‘
’’اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ایران اور عرب ملکوں کے ٹورسٹ اس ایئرپورٹ والے ہوٹل کا ڈبل کرایہ دینے پر بھی تیار رہتے ہیں، پھر بھی وہ رہائش انہیں سستی پڑتی ہے۔ اس لیے وہاں کمرہ حاصل کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے… بہرحال میں آپ کے لیے ابھی سے کوشش شروع کر دیتا ہوں۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭