’’ہائے میرا کراچی‘‘

سیلانی کو اسلام آباد آئے ہوئے لگ بھگ دس دن ہو چکے ہیں، لیکن ابھی تک وہ یہاں کے ماحول میں جذب ہونا شروع نہیں ہوا۔ یہ افسروں، ماتحتوں، پارکوں، مالک مکانوں اور کرائے داروں کا شہر ہے۔ یہاں نوے فیصد آبادی میں کوئی افسر ہے تو کوئی ماتحت، کوئی مالک مکان ہے تو کوئی کرائے دار، یہاں کثیر المنزلہ عمارات خال خال ہیں، لیکن ایسی کوئی عمارت نہیں، جس کی بنیادوں نے زمینی منزل کے ساتھ بالائی منزل کا بوجھ بھی اٹھا نہ رکھا ہو۔ ان میں سے کسی ایک پر مالک مکان ’’پہلی‘‘ کے انتظار میں بے صبری سے رہتا ہے اور دوسری پر کرائے دار نامی مسکین کی سکونت ہوتی ہے۔ ’’پہلی‘‘ کی ملاقات کے سوا دونوں ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے۔ کرائے دار تو مہینے کی پہلی کو بھی مالک مکان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا، لیکن کیا کیا جائے، یہ اس کے بس میں نہیں۔ ان ماہانہ ملاقاتوں کے سوا یہاں بسنے والوں کی اگر کہیں آنکھیں چار ہوتی ہیں تو وہ اسلام آباد کے پارک ہیں۔ اس شہر کے پارک خوب آباد رہتے ہیں، یہاں کے لوگ صبح و شام چہل قدمی کے عادی ہیں اور یہ چہل قدمی کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے اسٹیٹس کے مطابق ایک دوسرے سے ہیلو ہائے بھی کرتے جاتے ہیں۔
یہ اجنبیوں اور پردیسیوں کا شہر ہے۔ یہاں آکر سیلانی کو اندازہ ہوا کہ اجنبیت کیسی نعمت اور کیسی زحمت ہوتی ہے۔ وہ ان دنوں اسی ’’نعمت‘‘ سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ صبح سویرے شیث خان کو اپنی نیلوفر پرکالج کے لئے میٹرو کے اسٹاپ پر چھوڑنے کے بعد وہ گھر آکر مزے سے لیٹ جاتا ہے۔ یہاں بجلی کی وہ واہیات لوڈ شیڈنگ نہیں، جو کراچی کے نواحی علاقوں کا مقدر بن چکی ہے۔ پینے کے پانی کی بھی ایسی بھی تنگی نہیں۔ سرکار کی جانب سے مناسب فاصلوں پر فلٹر پلانٹ سے مفت پانی کی سہولت ہر کسی کو میسر ہے۔ یہ فلٹر پلانٹ کراچی واٹر بورڈ کے وہ نلکے نہیں، جو اوندھے لٹک کر کراچی والوں کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے واقعی پانی آتا ہے۔ یہاںکچھ علاقوں میں پانی کی قلت بھی ہے، لیکن اس کا حل زیر زمین پانی کی صورت میں موجود ہے۔ سیلانی کو سب سے زیادہ حیرت یہاں کے خاکروبوں پر ہوتی ہے، جو صبح سویرے گھروں کے سامنے رکھے کچرے کے تھیلے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور کان کھجاتے ہوئے پچاس روپے بھی طلب نہیں کرتے۔
سیلانی ابھی اسلام آباد سے متعارف ہو رہا ہے، اسے یہاں کے سیدھے سادے راستوں کی سمجھ نہیں آرہی۔ کراچی کی پرپیچ سڑکیں اسے ازبر ہیں، لیاری کی افشانی گلی سے لے کر رنچھوڑ لین تک اور نیو کراچی انڈہ موڑ سے لے کر گولیمار تک کے علاقے اس کے لئے ایسے ہیں کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھی چھوڑ دیا جائے تو وہ ٹھکانے پر پہنچ جائے۔ بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور احتجاجوں نے اسے کراچی کا کونہ کونہ گھما دیا ہے۔ جگہ کا نام لیتے ہی اسے یاد آجاتا ہے یہاں کون سا سانحہ، دھرنا، واقعہ ہوا تھا… اسلام آباد کو اللہ ایسی شناسائی اور شناخت سے دور رکھے۔ یہاں فیض آباد پر خادم حسین رضوی اور ڈی چوک پر کپتان کے دھرنے کی کوئی خاص ’’یادگار‘‘ نہیں ہے اور اللہ اسے ایسی یادگاروں سے محروم ہی رکھے… سیلانی یہ دعا مانگتا ہوا ایف نائن سیکٹر میں واقع فاطمہ جناح پارک کی پارکنگ میں آگیا۔ اس نے اپنی ’’نیلو فر‘‘ ایک جگہ کھڑی کی اور اپنے سامنے سرسبز پارک کو حیرت سے تکنے لگا۔ اتنی
گھاس، اتنا سبزہ شاید نہیں یقینا پورے کراچی میں بھی نہیں، جتنا چار کلومیٹر لمبے اور چار کلومیٹر چوڑے فاطمہ جناح پارک میں ہے۔ ساڑھے سات سو ایکڑ رقبے پر محیط یہ پارک سبزے سے اٹا ہوا ہے۔ یہاں یوگنڈا کے کسی جنگل کا سا گمان ہوتا ہے۔
سیلانی ہیلمٹ ہاتھ میں لئے آگے بڑھا اور ایک درخت کے ساتھ بنچ پر بیٹھ گیا۔ وہ شہر آئے کسی پینڈو کی طرح دیدے پھاڑ پھاڑ کر اس ہرے بھرے پارک کو دیکھے جا رہا تھا۔ آس پاس چہل قدمی کرنے والوں کے راستے بنے ہوئے تھے، جن پر چپٹی ناک والے چینی اور شلجمی رنگ والے گوروں سمیت اپنے ہم رنگ بھی دوڑتے بھاگتے نظر آرہے تھے۔ قریب ہی بچے کھیل رہے تھے۔ ایک لحیم شحیم فٹ بال نما توند والے صاحب ہاتھ میں فٹ بال لئے اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ وہ اپنی ’’فٹ بال‘‘ اچھالتے ہوئے فٹ بال اچھالتے اور بچے شور مچاتے ہوئے فٹ بال کے پیچھے بھاگتے۔ ان کے فٹ بال پھینکنے کا نظارہ خوب تھا۔ ان سے پرے نوجوان کرکٹ کھیل رہے تھے۔ بیٹنگ کرنے والے میں شاہد آفریدی کی روح سمائی لگتی تھی۔ اس کا بلا گھومتا اور ہر تیسری چوتھی بال پر گیند درختوں میں جا پہنچتی، جسے ڈھونڈنے کے لئے تین چار فیلڈروں کو کھوجی بننا پڑتا۔ یہ منظر بھی سیلانی کے لئے کچھ عجیب تھا۔ ایسے شاہد آفریدی کراچی میں بھی ہیں، ان کے بلے بھی ایسے ہی چوکے چھکے اگلتے ہیں اور گیند بھی گم جاتی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ یہاں گیند درختوں کے سرسبز جھنڈ میں اگی گھاس میں کہیں غائب ہوتی ہے اور وہاں کچرہ کنڈی یا بنا ڈھکن کے مین ہول میں۔ یہاں بچے سرسبز پارکوں میں اور میدانوں میں کھیل ہوتے ہیں تو وہ وہاں سڑکوں اور گلیوں میں۔
سیلانی بنچ پر بیٹھ کر آس پاس کا جائزہ لینے لگا۔ اسی اثناء میں دو ادھیڑ عمر افراد ہانپتے کانپتے ہوئے آئے اور ساتھ والے بنچ پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے گھٹنوں تک کے چڈے اور جوگرز پہن رکھے تھے۔ دونوں کے ہاتھوں میں پانی کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں بھی تھیں، جن سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے ہوئے وہ پھولی ہوئی سانسیں سنبھالتے ہوئے باتیں کرنے لگے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا:
’’میرے خیال میں فارن آفس کو سخت نہ سہی reply کرنا چاہئے تھا، یہ بھی بھلا کوئی بات ہے کہ جس کے جو منہ میں آئے بول دے، ہمارے خیال میں جب امریکہ نے ہماری گردن پر ہاتھ رکھ ہی لئے ہیں تو ہمیں بھی اس کی کلائیوں پر ہاتھ ڈال دینے چاہئیں، سینیٹر ڈینا نے پہلی بار یہ بکواس نہیں کی۔‘‘
’’یہ سینیٹر ڈینا وہی ہے ناں کیلی فورنیا والا‘‘ دوسرے نے سر کھجاتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں، ہاں وہی ڈینا روہبرچرجو دہلی کے کہنے پر بلوچستان کے معاملے میں بیانات داغتا رہتا ہے۔ وائس آف امریکہ بلوچی سروس تو شروع ہی اس مقصد کے لئے کی گئی ہے، اس نے اس کی بکواس کو بڑا اچھالا ہے کہ بلوچوں کے گھروں پر قبضہ ہو گیا ہے اور وہاں لبرل سیکولر روایات خطرے میں ہیں۔‘‘
ان کی گفتگو سے سیلانی کو پتہ چلا کہ کانگریس مین کسی single-state identity پر بھی کام کر رہے ہیں۔
دونوں یقینی طور پر بیورو کریٹ معلوم پڑتے تھے۔ انہی کی گفتگو سے سیلانی کو علم ہوا کہ روس کی بارہ ملکی ماسکو کانفرنس کیسی اہم تھی، جس میں طالبان شریک ہونے جا رہے تھے، لیکن امریکہ اور کابل حکومت نے شرکت سے انکار کر دیا اور افغان صدر کی درخواست پر یہ کانفرنس مؤخرکر دی گئی۔ یہ کانفرنس ہو جاتی تو ضرور اہم پیش رفت ہوتی۔
سیلانی کو یہ سب غیر متعلق عجیب سا لیکن اچھا لگ رہا تھا۔ کراچی میں کلفٹن کے ساحل اور ایک دو پارکیں چھوڑ کر کوئی جگہ ایسی نہیں کہ جہاں کوئی غلاظت اور گندگی سے بچ کر اس قسم کی چہل قدمی کر سکے اور دو کراچی والے اس طرح کی پیشہ وارانہ گفتگو کر سکیں۔ کراچی والے اس طرح ملتے ہیں تو گفتگو بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر ہوتی ہے یا پانی کے خالی نلکوں پر، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں یا ٹریفک جام کی بدترین صورت حال پر، ساتھ ساتھ گٹکے، پان کی پچاکاریوں سے زمین منقش کرنے کی مشق بھی جاری رہتی ہے اور اگر ملنے والے دو سرکاری افسر ہوں تو وہ بلاول ہاؤس اور نواب شاہ کے ’’پریشر‘‘ سے ہانپتے کانپتے آہ و زاریاں کرتے ملتے ہیں۔
سیلانی کو ان افسران کی گفتگو سے کیا دلچسپی ہوتی، لیکن اسے غصہ ضرور آیا کہ امریکیوں نے خود کو سمجھ کیا رکھا ہے۔ ان کے نزدیک اللہ نے انہیں ٹانگ دوسروں کے معاملات میں اڑانے اور بتیسی کے بیچ زبان دوسروں کے داخلی معاملات میں ہلانے کے لئے ہوتی ہے؟؟؟ سیلانی نے کچھ کہے بغیر ان صاحب کے مطالبے کی حمایت کی، جو وزارت خارجہ سے اس بیان پر مذمت کا مطالبہ کر رہے تھے اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا دل یہ سوچ کر بوجھل سا ہوگیا کہ کراچی کے ریونیو سے آباد ہونے والے اسلام آباد کے پاس کراچی کے لئے کچھ نہیں۔ شاید کپتان کو کراچی پر ترس آجائے… ویسے کراچی والوں نے بھی تو اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری۔ اپنے سارے پارک، میدان چائنا کٹرز کے ہاتھوں کتروا دیئے اور اف تک نہ کیا!!! جنہوں نے کراچی کی مانگ اجاڑ کر کلائیوں سے طلائی چوڑیاں اور کانوں سے آویزے نوچے، انہی کو اپنا راہبر بناتے رہے۔ منزل کو چھوڑ کر راہنما کو پکارتے رہے۔ اب منزل کا پتہ نہیں، راہنما کا اتنا پتہ ہے کہ لندن میں بیٹھا مادر وطن کو گالیوں کی جگالی کر رہا ہے۔
کراچی اسلام آباد سے زیادہ خوبصورت تھا۔ آج اس سے زیادہ بدہیئت کوئی نہیں، اس کا شمار دنیا کے گندہ ترین شہروں میں ہونے لگا ہے۔ یہاں رات ہوتی تھی، لیکن روشنیاں اندھیروں کو اترنے نہ دیتی تھیں۔ آج کراچی والوں کی قسمت بھی اندھیر ہے اور سڑکوں پر بھی اندھیرا ہے۔ ’’آباد‘‘ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کے مطابق کراچی کی آدھی آبادی غلیظ کچی آبادیوں میں آباد ہے۔ ورلڈ بینک کہتا ہے کہ اس شہر کی بنیادی ضرورتوں کے لئے دس ارب ڈالر درکار ہیں… کون دے گا یہ دس ارب ڈالر کہ یہ اسلام آباد تھوڑی ہے، کراچی ہے کراچی۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے سامنے کھیلتے بچوں کو حسرت سے دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment