چین کے تعاون سے اقتصادی ترقی

پاکستان کے دورے پر آنے والے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کا دورہ کیا۔ پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے علیحدگی میں بات کی۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ دو طرفہ بات چیت کے بعد شاہ محمود قریشی نے اپنے چینی ہم منصب وانگ ژی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ چینی وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی سے ملاقات میں باہمی تعلقات اور اہم عالمی امور پر گفتگو ہوئی۔ پاکستان میں غربت کے خاتمے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاک و چین اقتصادی راہداری منصوبہ نئی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور یہ تیز رفتار ترقی کا باعث بن رہا ہے۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی کو یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ سابقہ حکومت کے دور میں تحریک انصاف نے اسلام آباد میں ایک سو بیس دن سے زائد کا جو دھرنا دیا تھا اور جس کی وجہ سے چینی وزیراعظم کو اپنا دورئہ پاکستان بھی ملتوی کرنا پڑا، اس کے باعث سی پیک منصوبے میں یقیناً تاخیر ہوئی تھی۔ اب اس کا ازالہ ان کی حکومت کو کرنا چاہئے۔ مختلف ممالک کے درمیان تعلقات شخصیات اور حکومتوں کی سطح پر ضرور ہوتے ہیں، لیکن فی الاصل یہ ان ممالک کے عوام کے درمیان روابط کا ذریعہ اور نتیجہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے چین، سعودی عرب، ایران، ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ میاں نواز شریف کے دور میں تعلقات کی جو گرم جوشی دیکھنے میں آتی تھی، وہ شخصیات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ پاکستانی عوام کی ان ملکوں کے عوام سے روابط کی بنیاد پر تھی۔ حکومتیں اور شخصیتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ پائیدار دوستی اور ہم آہنگی ہمیشہ عوام کی سطح پر ہوتی ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت آنے کے بعد بھی پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ اس میں اضافہ ہی نظر آتا ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت تو بالکل الگ اور خصوصی ہے اور یہ تعلقات، برابری اور مشترکہ مفادات کے تحت روز بروز مستحکم ہورہے ہیں۔ تاہم سیاسی مبصرین اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سے تمامتر دوستی اور گہرے مراسم کے باوجود، یہ امر پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ عالمی سیاست میں مختلف ملکوں کے درمیان روابط ہمیشہ یکساں نہیں رہتے، ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں چین اور بھارت کے درمیان بھی تجارتی لین دین کے بعض معاہدے ہوئے ہیں۔ اسی طرح چین سے قرضوں کا حصول اور ان کی ادائیگی میں پاکستان کو ایک حد اور توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ درآمدات و برآمدات میں بہت زیادہ فرق پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر کو متاثر کرسکتا ہے۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع اور قدرتی و انسانی وسائل کا صحیح ادراک کرکے کسی بھی ملک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرنے کی پوزیشن میں ہے اور یہ کام کسی نہایت اہل اور دیانتدار حکومت کے ذریعے ممکن بھی ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دورے کا مقصد نئی حکومت کے ساتھ روابط بڑھانا اور پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ چین اپنی خارجہ پالیسی کے مطابق پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا۔ وانگ ژی نے وزیراعظم عمران خان کو نومبر میں دورئہ چین کی دعوت بھی دی ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ سی پیک کے تحت دیئے جانے والے قرضے پاکستان پر بوجھ نہیں بنیں گے، بلکہ معیشت کے استحکام میں مددگار ثابت ہوں گے۔ قرضے اگر ترقیاتی منصوبوں کے لئے حاصل کئے جائیں اور ان کا استعمال درست ہو تو یہ بہت جلد ادا بھی ہوسکتے ہیں اور مختلف شعبوں میں ان کے مثبت اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ گزشتہ ستّر برسوں میں پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اس کا بنیادی سبب یہی رہا کہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیورو کریسی نے ہمیشہ ہی آپس میں بندر بانٹ کرلی۔ انہیں عوام پر خرچ کیا نہ ترقیاتی منصوبوں پر۔ نتیجہ یہ کہ وطن عزیز قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا اور پرانے قرضوں کی قسطیں اور سود ادا کرنے کے لئے مزید قرضے لینے کی ضرورت پیش آتی رہی۔ نئی حکومت یہ سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کے بجائے اہل، دیانتدار اور محب وطن ماہرین معاشیات کی مدد سے ملک کے قدرتی، انسانی وسائل کو درست اور فعال انداز میں استعمال کرے تو بہت جلد اقتصادی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
بجلی کو بھی اولین ترجیحات میں شامل کیا جائے
میاں شہباز شریف اور ان کے ہمنوا یہ کہتے نہیں تھکتے کہ لیگی حکومت نے بجلی کی پیداوار میں نمایاں اضافہ کرکے لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیا تھا، لیکن نئی حکومت کے دور میں بجلی کی قلت اور لوڈشیڈنگ میں دوبارہ اضافہ ہونے لگا ہے۔ ان کے جھوٹ کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ روز ملک بھر سے بجلی کی قلت ساڑھے پانچ ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر گئی، حالانکہ گرمی کی شدت کم ہونے کی وجہ سے بجلی کا استعمال بھی کم ہوگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی پیداواری گنجائش ضرورت سے کہیں زیادہ ہے، لیکن بے ایمان و نااہل کمپنیاں بے پناہ منافع خوری کے ساتھ عوام کو بروقت اور ضرورت کے مطابق بجلی فراہم نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے ایک طرف شہریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے تو دوسری جانب صنعت و تجارت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ جس کا نتیجہ درآمدات و برآمدات کے عدم توازن اور زرمبادلہ میں کمی کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔ ترکمانستان نے اپنے ایک پاور پلانٹ میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کو سالانہ تین ارب کلو واٹ فی گھنٹہ بجلی فراہم کرسکے گا۔ ادھر ایران نے بھی پیشکش کی ہے کہ وہ پاکستان کو مزید ایک ہزار میگا واٹ بجلی دینے کو تیار ہے۔ اپنی گنجائش کے مطابق پیداوار بڑھانے، بجلی چوری، نااہلی اور بدعنوانی پر قابو پانے کے علاوہ ایران، ترکمانستان سمیت دوسرے ملکوں سے بجلی حاصل کرکے پاکستان کے عوام اور صنعتوں کو سہولتیں فراہم کرنا، نئی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ اس کے بعد ہی تبدیلی کی کوئی صورت نظر آئے گی۔ ورنہ محض نعرے، وعدے اور دعوے اس حکومت کو بھی نہ بچا سکیں گے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment