پہلے تو ملائیشیا میں برائے نام ٹورسٹ آتے تھے، لیکن نائن الیون والے امریکی واقعے کے بعد عرب دنیا کے لوگ اس طرح آنے لگے ہیں۔ ملائیشیا کے ماڈرن ہونے اور یہاں ہر قسم کی سہولیات کی بہ آسانی دستیابی کے سبب یہاں یورپین بھی کثرت سے آنے لگے ہیں۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ تاریخی مقامات اور قدرتی حسن سے مالا مال ہمارا ملک بھی ہے۔ لیکن ملکی اور غیر ملکی لوگ سیر و سیاحت کے لیے وہیں جاتے ہیں، جہاں امن و امان اور سہولیات میسر ہوں۔ ظاہر ہے، لوگ اپنا گھر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر یا ملک میں جاتے ہیں تو سکون اور خوشی کی خاطر۔ ہمارے ہاں موہن جو دڑو، کوٹ ڈیجی اور اروڑ جیسے تاریخی مقامات ہیں جو دنیا کی تاریخی چیزوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن امن و امان کی مخدوش صورت حال کے سبب کوئی مقامی شخص سیاحت اور سیر و تفریح کے لیے نہیں نکلتا، غیر ملکی کیسے آ سکتے ہیں! اپر سندھ میں ججز جیسے سرکاری بیورو کریٹس تک اغوا ہو جاتے ہیں، وہاں کون عام آدمی سیر و سیاحت کے لیے نکلنے کی ہمت کر سکتا ہے۔ مٹھی، عمر کوٹ کی اطراف میں امن امان کی صورت حال قدرے بہتر ہے، فرق دیکھئے۔ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں کے لوگوں نے وہاں جانا شروع کر دیا ہے۔
چند برس پہلے تک ہمارے ملک کے دولت مند لوگ گرمیوں کی تعطیلات منانے کے لیے اپنے بچوں کو ساتھ لے کر پاکستان کے شمالی علاقوں میں جاتے تھے۔ لیکن اب دہشت گردی، بم بلاسٹ اور اغوا کی وارداتوں میں اضافے کے بعد وہاں بھی لوگوں نے جانا چھوڑ دیا ہے۔ وہاں کی دکانیں اور ہوٹلز گاہکوں سے خالی پڑے ہیں۔ سٹی ٹریول ایجنسی کے عبدالقادر نے بتایا کہ یہی سبب ہے کہ کئی لوگ چھٹیاں گزارنے کے لیے پاکستان سے ملائیشیا جاتے ہیں۔ اب ان لوگوں نے کوہ مری، اسلام آباد، کالام، ایبٹ آباد، گلگت، اسکردو جانا چھوڑ دیا ہے۔ ظاہر ہے کون رقم خرچ کرکے خود کو مصیبت میں ڈالے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹورزم سے ملک کو فائدہ ہوتا ہے۔ جب غیر ملکی سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں تو دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ مقامی ہوٹلز کے مالکان کے ساتھ، ٹیکسی والے اور مزدور چار پیسے کما لیتے ہیں۔
ہمارے ملک کے سیاحتی ادارے کے ایک افسر نے مجھے بتایا تھا کہ وہ غیر ملکیوں کو اپنے ملک میں آنے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے کچھ اشتہاری کتب اور پمفلٹ چھاپنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو ہمارے ملک میں موجود تاریخ مقامات کا علم ہو۔ جب انہوں نے مجھ سے اس سلسلے میں مشورہ طلب کیا تو میں نے عرض کیا:
’’ جناب! یہ تمام باتیں بعد کی ہیں۔ سب سے پہلے آپ اپنے ملک کے حالات بہتر بنائیں۔ امن وامان کی صورت بہتر ہوگی تو ٹورسٹ خود ہی آنا شروع ہو جائیں گے۔ پھر ان لوگوں کی رہائش اور کھانے پینے کے لیے یہاں کے لوگ خود ہی انتظام کر لیں گے۔ وہ ہوٹلز ور ریسٹورنٹ بنائیں گے، جس طرح ایران اور انڈیا میں ہے۔ وہاں گلی گلی میں ہوٹل کھلے ہوئے ہیں۔ شہر کے بازار رات بھر کھلے رہتے ہیں۔ عورتیں اور مرد رات میں بھی تنہا سفر کرتے ہوئے نہیں گھبراتے۔‘‘
ملائیشیا اور سنگاپور والوں نے بھی اسی تھیوری پہ عمل کیا ہے۔ ملائیشیا کوٹن، مچھلی، پال آئل اور ربر سے کثیر آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ ٹورزم بھی ایک وسیع انڈسٹری ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے ملک میں غیر ملکیوں کے لیے کشش پیدا کرنے کی غرض سے امن و امان کی حالت بہتر سے بہتر رکھی ہے۔ آپ کو ملائیشیا کی سڑکوں پر پولیس کا کوئی سپاہی نظر نہیں آئے گا، لیکن اس ملک کا پولیس ڈپارٹمنٹ اس قدر فعال اور طاقتور ہے کہ شاذ ہی کو مجرم بچ سکتا ہو۔ یہاں غریب اور امیر کے لیے یکساں قانون اور انصاف ہے۔ اس لیے ہر وہ شخص، جو قانون کا پابند اور امن پسند ہے، وہ یہاں بے خوف ہو کر چل سکتا ہے۔ ملائیشیا جیسے ملکوں میں صرف چور، ڈاکو اور لفنگے ہی خوف کی حالت میں رہتے ہیں۔ یہاں امن و امان کی بہتر صورت حال دیکھ کر یورپی، جاپانی بھی ملائیشیا میں آنے لگے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ملائیشیا میں کوئی بھی چور، ڈاکو، دہشت گرد اور اغواکار آزاد نہیں رہ سکتے۔ دکاندار اور ہوٹل والے باسی اور خراب کھانا نہیں پیش کرتے۔ کیوں کہ یہاں کے امیر اور غریب جانتے ہیں کہ ملک میں نہ صرف قانون موجود ہے، بلکہ اس پر سختی سے عمل بھی ہوتا ہے۔ جرم کرنے کے بعد کوئی بھی قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ جرم کے مطابق مجرم کو سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ خواہ وہ کسی وزیر کا سپورٹ ہو یا کسی بیورو کریٹ، رئیس اور نواب کا چشم و چراغ ہو۔
امیر عرب ملکوں اور یورپ کے ٹورسٹ ہمیشہ یورپ اور امریکہ جاتے تھے۔ لیکن نائن الیون کے بعد انہوں نے وہاں جانا چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ وہاں انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اب وہ کہاں جائیں؟ اس کا ایک نعم البدل انڈیا ہے، لیکن اس سے بھی کہیں بہتر، ماڈرن، ہر سہولت سے بھرپور اور یورپ سے مماثلت رکھنے والا ملک ملائیشیا ہے۔ مسلمانوں کا ملک ہونے کے سبب انہیں ہر جگہ حلال چیز دستیاب ہوتی ہے۔ یہ تو میں پہلے بھی تحریر کر چکا ہے کہ معیار کے لحاظ سے یہاں ہر چیز صاف ستھری اور ہائجنک ہے۔ اس معاملے میں کوئی بھی دھوکا نہیں کر سکتا۔ ویسے تو پاکستان بھی مسلمانوں کا ملک ہونے کے لحاظ سے یہاں بھی ہر چیز حلال ملتی ہے… لیکن باخبر افراد جانتے ہیں کہ یہاں کس قسم کی چکر بازیاں کی جاتی ہیں، گدھے اور کتے کا گوشت بھی لوگوں کو کھلایا جاتا ہے اور پکڑے جانے کے بعد رشوت دے کر مجرم آزاد بھی ہو جاتے ہیں۔
میں پچھلی مرتبہ ملائیشیا آیا تھا تو اس وقت بھی مجھے یہاں عرب ٹورسٹ نظر آئے تھے۔ لیکن اس مرتبہ ان کی تعداد میں خاصا اضافہ نظر آیا۔ تنہا، فیملی کے ہمراہ حتیٰ کہ تنہا عرب اور ایرانی خواتین بھی نظر آئیں۔ یہ سب کچھ اس اعتماد کے سبب ہے کہ ملائیشیا میں انہیںکوئی ڈسٹرب نہیں کر سکتا۔ وہ یہاں کے کھانے پینے والی چیزوں کے استعمال سے بیمار نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ ٹورسٹ ملیریا اور ٹائی فائیڈ جیسی بیماریوں سے بھی بے فکر ہو کر چلتے ہیں۔ کیونکہ ملائیشیا والوں نے اس قسم کی بیماریوں کے جراثیم کا خاتمہ کر دیا ہے۔
عرب سیاحوں کی اکثریت کو دیکھ کر ملائیشیا والوں نے اپنی ہوائی کمپنیوں کی پروازیں عرب ملکوں کی جانب بڑھا دی ہیں۔ پہلے جو جہاز کراچی تک آتا تھا، اب دبئی تک چلا جاتا ہے اور مسافروں سے بھرا ہوا لوٹتا ہے۔ آئندہ مہینے سے وہ ریاض سعودی عرب کے لیے ہفتے میں تین پروازیں شروع کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دمام دو اور جدہ تک پہلے ہی چار پروازیں روزانہ آتی جاتی تھیں۔
کئی عرب ملائیشیا میں صرف سیر و تفریح کی غرض سے نہیں بلکہ بزنس اور پراپرٹی خریدنے کے لیے بھی آتے ہیں۔ ملائیشیا کے ہر بڑے شہر کے اردگرد نئی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ جنگلوں پر مشتمل کوڑیوں کی زمین سے یہاں کی حکومت کثیر سرمایہ حاصل کر رہی ہے۔ عمارتوں کی تعمیر سے یہاں کے بڑھئی، مزدور، دکاندار، چوکیدار سب روزگار سے لگ گئے ہیں۔ عرب اس سے پہلے انگلینڈ اور ترکی میں گھر بناتے تھے، اب ملائیشیا میں بنانے لگے ہیں۔ وہ ایسے گھروں میں سال کے دوران ایک آدھ مہینہ ہی اپنی فیملے کے ساتھ آکر رہتے ہیں۔ ملائیشیا کی حکومت کئی ایسی چیزیں بنوا رہی ہے جن میں عربوں کی دلچسپی ہو سکتی ہے۔ کوالالمپور کا علاقہ ’’بکت بنتانگ‘‘ شروع ہی سے خوبصورت رہا ہے۔ وہ ٹوکیو کے گنزا اور نیویارک کے ٹائمز اسکوائر کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہیں پر سنگائی وانگ پلازہ، بکت بنتانگ پلازہ اور اسیتان شاپنگ کمپلیکس بھی ہیں۔ اس مقام پر جہاں بکت بنتانگ روڈ کو یہاں کی ایک دوسری مشہور سڑک جالان سلطان اسماعیل کراس کرتی ہے، وہاں شاہراہ برنگان نامی ایک عرب اسٹریٹ ہے، جس کے سر پر کمانیں (Arches) بنی ہوئی ہیں اور ان کے اوپر عربی میں ’’عین عربیہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ یہاں کے ایک ملئی دوست نے مجھے بتایا تھا:
Aravs Come here to dine, Shop and meetظاہر ہے، یہاں عربوں کے لیے انہی کے ملک جیسا ماحول تیار کیا گیا ہے۔ یہاں عربی موسیقی گونجتی ہے، ہوٹلوں کے نام عربی ہیں، جن میں عربی کھانے تیار ہوتے ہیں۔ فارچونا ہوٹل کے قریب ایک عربی طرز کا ہوٹل ’’صحرا ٹینٹ ریسٹورنٹ‘‘ نظر آتا ہے، جس کے باہر عربی میں ’’’مطعم خیمۃ الصحرا‘‘ لکھا ہوا ہے۔ ہوٹل کے قریب ہی عربی طرز کا ایک باغیچہ ہے۔ ریسٹورنٹ کے حصے میں حقہ پینے کا بھی انتظام ہے۔ وہ عرب خواتین جو تنہا آتی ہیں اور پردہ کرتی ہیں، ان کے لیے ہوٹل میں کھانے پینے کا الگ انتظام ہے۔
’’ یہاں ایک یمنی نے بھی ایک ’’العرب ریسٹورنٹ‘‘ کھولا ہے، جس میں یمن کے کھانے سرو کیے جاتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق کوالالمپور کے خوبصورت علاقے ایمپنگ میں جو ’’تربوش‘‘ ریسٹورنٹ ہے، وہ بھی ایک عرب کا ہے۔ بہرحال ملائیشیا کو اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے کئی لوگ ایسے ہوٹلوں، دکانوں اور کاروبار میں روزگار سے لگ جاتے ہیں۔
مجھے ایک ملئی باورچی نے بتایا تھا کہ کوالالمپور میں تربوش کی ایک سے زیادہ برانچیں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ عرب ایمپنگ میں واقع ریسٹورنٹ میں جاتے ہیں۔ کوالالمپور کے کئی شاپنگ سینٹرز اور مساجد ہیں، جہاں عربوں کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ وہاں ایران کا مشروب ’’زم زم کولا‘‘ بھی فروخت ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ملائیشیا کی حکومت نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے دنیا کے مختلف ملکوں کے امیر لوگوں میں ملائیشیا کے لیے کشش پیدا کی ہے اور ان کی دلچسپیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسے انتظامات کیے ہیں کہ غیر ملکی ٹورسٹ کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہاں کی حکومت نے اپنی ملک کی مساجد کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ ہر شہر کے مندروں، گرجا گھروں، پگوڈاؤں کو توسیع دے کر ان کی آرائش کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔ اس لیے نہ صرف مختلف ملکوں کے ہندو، سکھ، عیسائی اور بدھ وغیرہ ملائیشیا میں آکر اپنی عبادت گاہوں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، بلکہ ملائیشیا میں رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگ بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کے دلوں میں اپنی حکومت کے لیے پیار اور عزت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔