سندھڑی ری مارگی…!

کھیرتھر پہاڑ کی دریدہ دامن جیسی وادیوں میں بسنے والے اپنے آپ کو کوہستانی کہتے ہیں۔ یہ کوہستان وہ نہیں، جو ہزارہ ڈویژن کا ہرا بھرا ضلع ہے۔ جس کی سرحدیں کشمیر، گلگت بلتستان، سوات، شانگلہ، مانسہرہ اور بٹگرام سے ملتی ہیں۔ خیبر پختون خوا کا کوہستان تو آسمان سے گرا ہوا جنت کا ٹکڑا ہے۔ ہم اس کوہستان کی بات کر رہے ہیں، جو وادیٔ سندھ میں ہے۔ کراچی سے لے کر لاڑکانہ اور قمبر شہداد کوٹ تک سندھ کا وہ پہاڑی علاقہ جو بلوچستان کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ جہاں کی ہم بات کر رہے ہیں اس کوہستان میں جون اور جولائی کی دوپہروں میں ایسا لگتا ہے جیسے دھرتی پر دوزخ کی کھڑکی کھل گئی ہے۔ وہ علاقہ کھیرتھر نیشنل پارک بھی کہلاتا ہے۔ مگر نام میں کیا رکھا ہے؟ پارک کا نام سن کر ممکن ہے کہ کچھ قارئین کے تصورات میں حد نظر تک پھیلے ہوئے سرسبز درختوں کی قطاریں ابھر آئیں۔ کھیرتھر نیشنل پارک کا نام سن کر ان کے ذہن میں یہ بھی آسکتا ہے کہ وہ وہاں دور پہاڑوں میں نیلے اورسبز کلر کی وہ جھیلیں ہوں گی، جن پر سفید رنگ کے پرندے خوبصورت انداز سے اترتے ہوں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں انسان تو کیا ہرن بھی اپنی پیاس بجھانے کے لیے کئی کلومیٹر تک دوڑتے رہتے ہیں۔ جہاں کوئی سایہ دار شجر نہیں۔ جہاں چلملاتی دھوپ والے آسمان پر سرخ رنگ والے عقاب اڑتے رہتے ہیں اور جب ان کو سنگ لاخ سرزمین پر کوئی سانپ رینگتا نظر آتا ہے، تب وہ جھپٹ کر اسے پنچوں میں پکڑ کر پہاڑی چوٹی والے اپنے آشیانے میں لے جاتے ہیں۔ کوہستان میں جانوروں سے زیادہ انسانوں کی زندگی تلخ ہے۔ وہاں لوگ بہت دور کی جھیلوں سے پانی بھر لاتے ہیں۔ وہاں لوگ صرف اپنے مویشیوں کی مدد سے زندگی کا بوجھ اٹھا کر جیتے ہیں۔ ان کی نظر ہر وقت آسمان پر ہوتی ہے۔ جب بادل برستے ہیں اور پہاڑی ندیاں طوفانی رقص کرتی ہوئی بہتی ہیں، تب نشیبی علاقے جھیلوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر صرف انسان ہی نہیں، جانور بھی خوش ہوتے ہیں۔ وہ ٹولیاں بنا کر آتے ہیں اور جھیلوں کے کنارے برسوں کی پیاس بجھاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب سندھی کوہستان کے کسان اپنی زمین پر ہل چلاتے ہیں۔ تل اور مکئی کے بیج بوتے ہیں اور رات کی ٹھنڈی ہواؤں میں الغوزہ بجاتے ہیں اور اس علاقے کا مشہور لوک گیت ’’مورو‘‘ گاتے ہیں:
’’ہو۔۔۔۔۔۔
پہاڑ کے اوپر گھاس
میرے دل میں تیری آس
او جانی مورو گاتی ہوں‘‘
مگر جب مون سون کا موسم گزر جاتا ہے۔ جب بادل جم کر نہیں برستے۔ جب انسانوں کے لیے پینے کا پانی ختم ہو جاتا ہے اور جانور سوکھی گھاس کے لیے ترس جاتے ہیں۔ تب وہاں سے لوگ پہاڑوں پر الوداعی نظر ڈال کر اس طرح نکلنے لگتے ہیں، جس طرح آج کل نکل رہے ہیں۔ بغیر کسی شور شرابے اور احتجاج کے۔ وہ شہری علاقوں کے آس پاس خالی میدانوں میں پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ وہ اپنے جانور بیچتے ہیں اور شہروں میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اگر مزدوری نہ ملی تو بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے حکومت اور خاص طور پر ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والی حکومت کیا کر رہی ہے؟ سندھ حکومت نے ابھی تک کوہستان کے علاقے کو ’’قحط سالی کا شکار ہونے والا علاقہ‘‘ قرار نہیں دیا۔ ابھی تک صرف تھر کو آفت زدہ علاقہ قرار دیا گیا ہے، مگر کسی علاقے کو صرف آفت زدہ قرار دینے سے کیا ہوتا ہے؟
تھر میں بارش نہ ہونے کے باعث زیر زمین قدرتی پانی کے ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں۔ پانی کی سطح نیچے جانے کی وجہ سے کنویں سوکھ گئے ہیں۔ اس وقت تھر اور کوہستان کی ایک جیسی حالت ہے۔ تھر میں انسانی آنکھیں درخت کے ہرے پتے کے لیے ترس رہی ہے۔ اس موسم میں صرف جانور نہیں مرتے۔ اس موسم میں صرف بکریاں نہیں مرتیں۔ اس موسم میں تھر کے مور بھی مر جاتے ہیں اور فقط مور پرندے ہی نہیں، بلکہ تھری ماؤں کے وہ مور بھی مر جاتے ہیں، جن کے لیے سندھ کا یہ مشہور لوگ گیت گایا جاتا ہے:
’’رانا رانا مور بلے تھو ٹلے
گجر کا مور تھو ٹلے…!!‘‘
یعنی: خوبصورت ماں کا مور جیسا بچہ اس طرح پاؤں پاؤں چل رہا ہے، جیسے مور ناچ رہا ہو!!
اس موسم میں دونوں مر جاتے ہیں۔ پرندے مور خشک سالی کے شکار کارونجھر اور کاسبو میں اور ماؤں کے مور مٹھی کی سرکاری اسپتال میں!
اس وقت سندھ کے 13 اضلاع خشک سالی کا شکار ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر وہ تھر ہے، جہاں سے ہر روز کئی خاندان اپنے بچوں اور باقی بچے ہوئے جانوروں کے ساتھ شہری علاقوں کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہاں جائیں گے؟ وہ کہاں رہیں گے؟ کیا کریں گے؟ کیسے کھائیں گے؟ وہ نہیں جانتے اور حکومت بھی ان کی رہنمائی نہیں کرتی۔ این جی اوز کے پاس بھی اس حوالے سے کوئی پراجیکٹ نہیں ہے۔ وہ بھی گدھ کی طرح انتظار میں ہیں کہ قحط اپنی شدید شکل اختیار کرے، وہ تھر کے دورے کریں اور وہاں مرنے والے جانوروں کے ڈھانچوں اور قریب المرگ انسانوں کی تصاویر اتاریں۔ انہیں اپنی درخواست کے ساتھ کسی عالمی ڈونر کو ارسال کریں اور پھر جب رقم اکاؤنٹ میں آجائے تو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں اپنے مخصوص لوگوں کو تربیت دیں کہ خشک سالی کا شکار ہونے والے علاقوں میں لوگوں کی مدد کس طرح کی جاتی ہے؟ کس طرح ان کے دکھ، درد اور پریشانیاں سمجھی جاتی ہیں؟ ان تربیتی لیکچرز میں نقشوں اور چارٹس کی مدد سے انہیں بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ قحط سالی کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان میں عمومی طور پر ڈپریشن کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ عموماً چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر قحط سالی کی وجہ سے کسی گھر میں کوئی موت ہو جاتی ہے تو پھر ڈپریشن کی نفسیاتی کیفیت میں زیادہ شدت آجاتی ہے۔ اگر مرنے والا بچہ ہو تو پھر ماں ٹراما کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے پھر امدادی کارکن نہیں بلکہ نفیساتی ماہرین ہی مدد گار ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ سب باتیں تب کی اور سنی جاتی ہیں، جب قحط اپنی شدت پر پہنچ جائے اور این جی اوز کے اکاؤنٹس میں بہت سارے ڈالرز آجائیں۔ ابھی تو ابتدا ہے۔ ابھی تو تھر سے قافلے نکل رہے ہیں۔ ابھی تو حکومت سندھ تھر میں لوگوں کی امداد کرنے کے لیے منصوبے بنا رہی ہے۔ ابھی تو حساب کتاب ہو رہے ہیں۔ ابھی درد اور دولت کی دلی دور ہے۔ مگر تھر پر نظر رکھنے والے اور تھر کے مزاج سے آگاہ افراد کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو اندازہ نہیں کہ تھر میں قحط سالی کی صورت حال شدت اختیار کر سکتی ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے قحط کی بدترین صورت حال کا سامنا کیا ہے اور بہت بڑی آبادی کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جن لوگوں نے قحط سالی کے اسباب اور اثرات پر بہت تحقیق کی ہے۔ جن لوگوں نے اس صورت حال پر بہت سوچا ہے اور کافی کچھ سمجھا ہے، وہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’جدید دور میں قحط سالی قدرتی نہیں، بلکہ سرکاری ہوتی ہے۔‘‘ ایسی بات کرنے والے یا ایسی بات کی حمایت کرنے والے اتنے سادہ نہیں کہ وہ یہ نہ سمجھ سکیں کہ بارش کسی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہوتی۔ بادل حکمرانوں کا حکم نہیں مانتے۔ بارش نہ ہونے کے باعث اگر کوئی علاقہ خشک سالی کا شکار ہو جاتا ہے تو اس میں حکومت کا کیا کردار؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر امرتاسین جیسے لوگ کہتے ہیں: سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ قحط سالی فوری طور پر نہیں آتی۔ قحط سالی کسی سونامی کی طرح نہیں ہے کہ سمندر میں اچانک زلزلہ آجائے اور طوفانی لہریں ساحلی آبادی کو بہاتی لے جائیں۔ قحط سالی نہ سونامی ہے، نہ سیلاب، نہ اچانک آسمان سے پڑنے والی بارش اور نہ کوئی زلزلہ کہ انسا نوں کو سنبھلنے اور حکومت یا انتظامیہ کو کچھ کرنے کا وقت ہی نہ ملے۔ قحط سالی آہستہ آہستہ آتی ہے۔ مون سون کا ایک پورا موسم ہوتا ہے۔ جب آخری تاریخ گزر جاتی ہے اور بارش نہیں ہوتی تب قحط سالی کے آنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ بارش نہ ہونے سے فوری طور پر قحط سالی نہیں ہوتی۔ جس طرح ایک درخت کو سوکھنے میں وقت لگتا ہے۔ اسی طرح ایک علاقے کا آب و دانہ ختم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔ اگر کسی ملک یا صوبے میں فرض شناس حکومت ہو تو وہ بارش نہ ہونے کے فوری بعد انتظامیہ کی مدد سے لوگوں کے لیے امدادی کارروائیوں کا بھرپور آغاز کرتی ہے۔ قحط سالی کے دوران لوگوں اور جانوروں کو بچانے کے لیے بہت بڑی مشینری کی ضرورت نہیں۔ قحط سالی کا شکار ہونے والی آبادی کے لوگ بیمار یا زخمی نہیں ہوتے کہ اپنی مدد آپ نہ کر سکیں۔ حکومت اگر دیانت دار ہو اور انتظامیہ ایماندار اور ان دونوں کی ساکھ اگر اچھی ہے، تو ایک علاقے میں ہونے والی خشک سالی کے لیے عالمی اداروں سے فنڈز لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خشک سالی کی جیسی صورت حال تھر اور کاچھو میں پیدا ہوتی ہے، وہ تو سندھ کے شہری علاقوں میں امدادی کیمپس قائم کرنے سے بھی سنبھالی جا سکتی ہے۔ مگر ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اور ہم پر جن حکومتوں کا سایہ ہے، وہاں مسائل ختم کرنے والے وسائل بھی لوٹے جاتے ہیں۔ جب حکومت کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں ہو، جن ہاتھوں نے سندھ میں سیلاب کے دوران آنے والی امدادی ایمبولینسوں کو کلر کروا کے انہیں پبلک ٹرانسپورٹ میں استعمال کیا ہو تو پھر ہم اپنے وسائل سے قحط سالی کا سامنا کس طرح کر سکتے ہیں؟ ہم کو اس کا احساس ہی نہیں کہ جب قحط سالی کے باعث ایک غریب گھر کی بکری مر جاتی ہے، تب سارے گھر والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے خاندان کا ایک فرد مر گیا ہو۔ جب ایک خاندان قحط سالی کے باعث اپنا تھری گاؤں چھوڑ کر کسی شہر کی طرف جاتا ہے تب بہت ساری نہیں تو کم از کم دو آنکھیں تو اس قافلے کو آخری گھڑی تک دیکھتی رہتی ہیں۔ جب اب دو آنکھوں کو قافلے کا کوئی فرد نظر نہیں آتا تب بھی وہ دونوں آنکھیں دیکھتی رہتی ہیں اس دھول کو جو جدائی کے منظر کو دفن کردیتی ہے۔ جدائی کے اس منظر سے پیدا اٹھتا ہے وہ تھری لوک گیت جس کے بول ہیں:
’’سنڈھڑی ری مارگی اڈتی جائے کھیہہ‘‘
یعنی: سندھ کی طرف جانے والے راستے پر دھول اٹھ رہی ہے!
وہ دھول جو درد کا دھواں بن کر آنکھیں بھگو دیتی ہے!!٭

Comments (0)
Add Comment