امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا کی حکومتیں گزشتہ سترہ برسوں سے افغان جنگ میں اپنی شکست کو عوام سے چھپا رہی ہیں۔ وہ اس فضول جنگ کے حق میں امریکیوں کی ہمدردی اور حمایت کرنے کے لئے غلط اعداد و شمار پیش کرکے انہیں گمراہ کر رہی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کہتی ہے کہ طالبان کو افغانستان کے صرف چوالیس فیصد اضلاع میں کنٹرول حاصل ہے۔ جبکہ آزاد مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کے اکسٹھ سے ستر فیصد تک حصے پر افغان طالبان کا اثر و رسوخ ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکیوں کی تعداد دو ہزار دو سو ہے، جبکہ امریکا چالیس ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم جنگ کی اس بھٹی میں جھونک چکا ہے۔ اس لحاظ سے یہ امریکی حکومت اور ٹیکس دہندگان کے لئے سب سے مہنگی جنگ ثابت ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ امریکا کے اتحادیوں نے کتنا جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے۔ اس سے امریکیوں کو کوئی غرض نہیں ہے۔ ان کے خیال میں ہر امریکی شہری کی جان دنیا کے کسی بھی ملک کے باشندے سے کئی گنا زیادہ قیمتی ہے۔ امریکا نے جنگ عظیم میں جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں انسانوں کو زخمی، معذور اور بے گھر کر دیا تھا۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے وہ علاقے، جہاں بم گرائے گئے اقتصادی تباہ حالی کے علاوہ آج تک رہائش اور کاروبار کے لئے موزوں نہیں ہیں، کیونکہ تباہ کن ہتھیاروں کے تابکاری کے اثرات فضا میں موجود ہیں۔ ویتنام میں بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد امریکی حکومت نے اپنے دو شہروں پر گیارہ ستمبر 2001ء کو حملوں کا الزام القاعدہ پر ڈال کر اس کے حامی طالبان کی افغانستان میں حکومت ختم کرنے کے لئے وحشیانہ بمباری کرکے لاکھوں بے گناہ افغان باشندوں کو شہید، معذور اور دربدر کردیا۔ سوویت یونین اور امریکا کی افغانستان پر جارحیت کے باعث تیس سے چالیس لاکھ افغان باشندے پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ایران، ترکی اور دیگر ممالک میں پناہ گزیں افغانوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ امریکا کے جنگجو حکمرانوں نے اسی پر بس نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے عراق میں خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں جعلی رپورٹ تیار کراکے اس کی بنیاد پر عراق کو بھی تباہ برباد کردیا۔ واضح رہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عالمی دہشت گردی نے صرف ان ہی ممالک کو نقصان نہیں پہنچا، جن پر انسانیت سوز حملے کئے گئے، بلکہ اردگرد کے ممالک بھی بری طرح متاثر ہوئے۔
افغان جنگ میں پاکستان کے بھی کم و بیش ستر ہزار شہری اور فوجی شہید ہوئے۔ عمارتوں اور شاہراہوں کی تباہی سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، جس کا کچھ حصہ تو امریکا نے ادا کردیا، لیکن باقی کو یہ کہہ کر روک لیا کہ پاکستان جب تک اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا نہیں کرے گا، اسے دفاعی امداد نہیں دی جائے گی، جبکہ یہ امداد نہیں پاکستان کے وہ اخراجات ہیں، جو افغان جنگ میں پہلے ہی کئے جا چکے ہیں اور یہ امریکا کے ذمے واجب الادا ہیں۔ لاکھوں مسلمانوں اور دیگر انسانوں کی ہلاکتوں کا ذمے دار ملک امریکا اپنے صرف ڈھائی ہزار کے قریب باشندوں اور چالیس ارب ڈالر کے اخراجات پر سخت پریشان ہے۔ حکومت اپنے عوام سے بھی حقائق کو چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور جانی و مالی نقصان کو کم دکھانے کے علاوہ امریکی باشندوں کو یقین دلا رہی ہے کہ ان ’’معمولی نقصانات‘‘ کے بدلے میں طالبان کا زور ٹوٹ رہا ہے اور ان کا کنٹرول چند اضلاع تک محدود ہے، جبکہ سترہ سال تک افغانستان میں جھک مارنے کے بعد امریکا کی کٹھ پتلی افغان حکومت صرف ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور امریکی فوجیوں کے زیر نگرانی کابل کے صدارتی محل تک کنٹرول رکھتی ہے۔ ادھر طالبان تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے یکے بعد دیگرے کئی اضلاع پر قبضہ کرچکے ہیں۔ عملاً ان کا ملک کے بیشتر حصے پر قبضہ و تسلط اور اثر و نفوذ ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایک تہائی سے زیادہ افغان سرکاری فوجی اور پولیس افسران گھوسٹ یا فرضی ہیں۔ وہ اپنی ملازمت چھوڑ چکے ہیں یا انہیں نکال دیا گیا ہے۔ امریکیوں کی جانب سے ان کی تربیت کو بھی ناکارہ قرار دیا گیا ہے۔ حکومتی دعوئوں کے برعکس افغان جنگ میں امریکا درحقیقت آٹھ کھرب چالیس ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ 2010ء اور 2012ء کے درمیان جب لڑائی انتہا پر تھی اور افغانستان میں ایک لاکھ امریکی فوجی تھے تو ان پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ ایک کھرب ڈالر سالانہ لگایا گیا تھا۔ آج کل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بھی کم (صرف سولہ ہزار) ہے اور ان پر اخراجات میں بھی کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ 2017ء میں طالبان اپنے ملک کے مختلف علاقوں میں بڑی اکثریت سے چھا گئے تھے۔ امریکی شہریوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ ان کے ٹیکسوں سے پُر خزانے کو خرچ کرنے کے نتیجے میں افغانستان کی کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت کی ملک کے نصف سے زیادہ حصے پر گرفت مضبوط ہو چکی ہے، جبکہ فی الحقیقت اس حکومت کا کنٹرول صرف چھبیس فیصد حصے پر ہے اور وہ بھی زیادہ تر ان علاقوں میں جہاں اسے امریکی فوجیوں کی چھتری حاصل ہے۔ امریکی عوام سے ایک غلط بیانی یہ کی گئی ہے کہ افغانستان میں امریکی اور افغان حکومت کی جانب سے شہریوں کو اس قدر سہولتیں فراہم کی گئی ہیں کہ ان کی اوسط عمر تریسٹھ سال تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ صحت کی عالمی تنظیم (WHO) کے مطابق اصل اوسط عمر صرف تینتالیس سال ہے۔ امریکا نے اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر حملے کو ’’آپریشن برائے پائیدار آزادی‘‘ کا نام دیا تھا۔ طالبان کی حکومت ختم کرکے القاعدہ کا زور توڑنے کے مقاصد کے ساتھ شروع کی جانے والی افغان جنگ امریکی تاریخ میں دوسری سب سے طویل جنگ بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے نتائج بنی نوع انسان کے زبردست جانی و مالی نقصان کی صورت میں اب تک ظاہر ہورہے ہیں، جبکہ خود امریکا کو بھی اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں اور معیشت کی پستی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے۔ ٭