لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
فرعون کے بارے میں حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ اپنی محکوم قوم یعنی بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کروا دیا کرتا تھا۔ آج اکیسویں صدی میں لاکھوں کروڑوں بچوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسیف بچوں کے لئے کام کرتا ہے۔ اس ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال کروڑوں بچے ہماری غفلت سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہر روز ہزاروں نوزائیدہ بچے غذائی کمی سے، پیدائش کے بعد ٹیکہ نہ لگانے سے، نمونیہ سے، پانی کی کمی سے اور چند اور وجوہات سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں، جن کو توجہ دے کر بچایا جا سکتا ہے۔ صرف چار پانچ ارب ڈالر سالانہ خرچ کر کے بڑے بڑے ممالک اربوں ڈالر کے ہتھیار چھوٹے ملکوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ان میں سے چند ارب ڈالر بچا کر کروڑوں بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ مقروض ممالک قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مالدار ممالک اگر ذرا سی رعایت دے دیں تو ان بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ اگر تھوڑا سا پیسہ بچوں کو مختلف امراض کے حفاظتی ٹیکے لگانے اور ضروری ادویات مہیا کرنے پر خرچ کیا جائے تو کروڑوں بچوں کی جان بچ سکتی ہے۔ بچوں کا حق ہے کہ ان کا تحفظ کیا جائے۔ انہیں غذا دی جائے۔ صاف ستھرا صحت مند ماحول دیا جائے۔ تعلیم دی جائے۔ یونیسیف بچوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والا بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یونیسیف جن مقاصد کے لئے کام کرتا ہے … وہ مختصر طور پر مندرجہ ذیل ہیں۔
٭ بچوں کو اچھی خوراک، اچھا لباس، پیار و محبت کا ماحول دیا جائے۔
٭ رنگ نسل، جنس، مذہب کے امتیاز کے بغیر بچوں کی حفاظت کی جائے۔
٭ اچھا شہری بننے کے لئے تعلیم دی جائے۔
٭ معذور بچوں پر خاص توجہ دی جائے۔
اب ذرا اپنے پیارے پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ وہ خاندان جو ذرا بھی خوشحال ہیں، اپنے بچوں خاص طور پر پوتے پوتیوں سے بے پناہ پیار کرتے ہیں۔ کاش وہ اپنی اس محبت کو عام کر سکیں۔ بچوں کی اموات کی خبروں کے لئے ضلع تھر سب سے زیادہ مشہور ہے۔ غذا کی کمی کی وجہ سے ہر سال یہاں سینکڑوں بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران اور افسران اعلیٰ ، چاہے ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو، ان کے گھروں میں ہر وقت گھی کے چراغ جلتے ہیں … وہ اپنی رعایا پر گزرنے والی تکلیفوں سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ اگر کبھی کسی حکمران یا افسر اعلیٰ کو ایک دن کے لئے جیل بھیج دیا جائے تو اسے دس بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں اور مجبوراً اسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے۔ تمام بڑے آدمیوں کے پاس دس بیس محلات ہیں اور غریبوں کو ایک مرلہ زمین بھی میسر نہیں ہے۔ امیروں کی امارت اور غریبوں کی مفلسی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ غربت، غذا کی کمی اور بیماریوں کے حساب سے پاکستان کا شمار بدنصیب ملکوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں کسی کی بھی حکومت آ جائے، وہ ان بدنصیب بچوں کو کبھی اپنی ترجیحات میں نہیں رکھتی۔
اکیسویں صدی میں تین حضرات نے پاکستان پر حکومت کی۔ اس میں سے کسی میں اتنا وژن نہیں تھا، تعلیم نہیں تھی، احساس نہیں تھا کہ وہ ان معصوم بچوں کے لئے کوئی ٹھوس کام کر سکے، فرعون غیروں کے بچوں کو قتل کرتا تھا، ہم اپنے بچوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ ٭