نائن الیون

پہلے روز سانحہ ستمبر کی 17 ویں برسی تھی۔ امریکی اس دن کو سانحہ نائن الیون کہتے ہیں۔ امریکہ میں تاریخ لکھتے وقت مہینہ پہلے درج کیا جاتا ہے، اس لئے نواں (9) مہینہ اور دن 11 ہوا۔ امریکی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ نے 1996ء میں ہوائی جہازوں کے ذریعے امریکہ کے تجارتی و عسکری اور سیاسی مراکز پر ایک ساتھ حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس پلان کے خالق مبینہ طور پر بلوچ نژاد خالد شیخ محمد تھے، جن کی تجویز تھی کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر، پینٹاگون اور امریکی کانگریس و وہائٹ ہائوس کو ایندھن بھرے طیاروں کی مدد سے بھسم کردیا جائے۔ امریکی اداروں کے بقول 3 سال کے غورو خوض کے بعد 1999ء میں اسامہ بن لادن نے منصوبے کی منظوری دی، جس کے بعد منتخب دہشت گرد دو دو تین تین کی ٹولیوں میں امریکہ آئے اور شہری ہوا بازی کے مختلف مدارس سے جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کی۔ ان میں سے کچھ لوگ پہلے سے جہاز اڑانا جانتے تھے۔ دہشت گردوں کا یہ گروہ 19 افراد پر مشتمل تھا، جن میں سے 15 سعودی عرب کے شہری تھے، 2 افراد کا تعلق متحدہ عرب امارات سے تھا، ایک نوجوان لبنان کا، جبکہ مبینہ سرغنہ محمد عطا مصر کا شہری تھا۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد 11 ستمبر 2001ء کوصبح آٹھ بجے کے قریب بوسٹن کے لوگن ایئر پورٹ سے امریکن اور یونائیٹڈ ائر لائنز کی لاس اینجلس جانے والی پروازیں اغوا کرلی گئیں۔ یہ دونوں طیارے چار منٹ کے فرق سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی اور جنوبی ٹاورز میں ’’گھونپ‘‘ دیئے گئے۔ جی ہاں دونوں جہاز ٹکرا کر گرے نہیں، بلکہ ان فلک بوس عمارتوں کے اندر گھس گئے۔ تیسرا جہاز امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے ڈلس ایئر پورٹ سے اغوا کیا گیا۔ لاس اینجلس کی جانب محو سفر امریکن ایئر لائنز کے اس بوئنگ 757 کو ورجینیا میں پینٹاگون کی عمارت پر گرا دیا گیا۔ اسی کے ساتھ نیو جرسی کے نوارک ایئر پورٹ سے لاس اینجلس کے لئے روانہ ہونے والی یونائیٹڈ ایئر لاین کی پرواز بھی اغوا کرلی گئی۔ اس بد نصیب طیارے نے سان فرانسسکو کیلئے اڑان بھری تھی۔ جہاز پر سوار ہونے والے چار دہشت گرد اس بوئنگ 757 کو مبینہ طور پر واشنگٹن میں وہائٹ ہائوس سے ٹکرانا چاہتے تھے، لیکن مسافروں کی مزاحمت کی بنا پر یہ جہاز پنسلوانیہ کے ایک شہر پر گر تباہ ہو گیا۔
اس کارروائی میں مجموعی طور پر2996 افراد ہلاک ہوئے، جن میں جہازوں پر سوار مسافر، اغواکار، عملے کے افراد، ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون میں موجود لوگ، نیویارک پولیس، فائر ڈپارٹمنٹ اور سیکورٹی کے اہلکار شامل ہیں۔ ان واقعات میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 6000 سے زائد ہے۔ براہ راست مالی نقصان کا تخمینہ 3 ہزار ارب ڈالر ہے۔
اوپر درج تمام تفصیلات امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی اور امریکی سی آئی نے میڈیا کو فراہم کی ہیں۔ واقعہ کی مکمل تحقیقات کے لئے کانگریس نے نائن الیون کمیشن قائم کیا، جس نے جولائی 2004ء میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کی تصدیق کی گئی۔ یہ بلاشبہ ایک گھنائونی کارروائی تھی، جس کی غیر مشروط مذمت ضروری ہے۔ معصوم شہریوں کو زندہ جلا ڈالنا اور اربوں ڈالر کی تنصیبات کو بھسم کردینا سراسر دہشت گردی ہے، جس کی مہذب دنیا میں کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم اس واردات سے متعلق تفصیلات کے بارے میں غیر جانبدار ذرائع اب تک تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے تمام کے تمام دہشت گرد ان واقعات میں جاں بحق ہوگئے اور ان میں سے کسی کی لاش بھی سلامت نہ رہی، جس کی بنا پر اس گھنائونے واقعے کی پشت پر کارفرما عوامل کا حتمی تعین ممکن نہیں۔ سب سے ٹھوس دستاویزی ثبوت مبینہ سرغنہ محمد عطا کے سوٹ کیس سے برآمد ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عطا کا ایک سوٹ کیس بوسٹن ایئر پورٹ سے جہاز پر لادا نہ جا سکا اور یہ ایف بی آئی کے ہاتھ لگ گیا۔ اس سوٹ کیس میں اغوا کنندگان کے نام، قومیت اور اہم تفصیلات درج ہیں۔ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اغوا کنندگان نے امریکہ میں جہاز اڑانے کی تربیت لی تھی۔ ہوا بازی کے بہت سے ماہرین کے خیال میں اسکول کی تربیت کے بعد اس مہارت سے جہاز اڑانا ممکن نہیں۔ ایک ’’نوسکھیا پائلٹ‘‘ نیم حکیم خطرہ جان کے مصداق جہاز کو گرا تو سکتا ہے، لیکن جہاز کو کامیابی سے ٹاور میں گھسا دینے کیلئے خاصی مشق اور مہارت درکار ہے۔ اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے چھریوں سے پائلٹوں کو ذبح کر دیا اور مسافروں کو قابو کرنے کیلئے آنسو گیس استعمال کی۔ سوال یہ ہے کہ صرف ایک ایئر پورٹ یعنی بوسٹن سے دس دہشت گرد چھریوں اور آنسو گیس کے شیل لے کر سوار ہوئے اور سیکورٹی حکام کو خبر تک نہ ہوئی؟ نیویارک، نیو جرسی، بوسٹن، امریکی دارالحکومت اور اس سے ملحقہ فضائی حدود میں صبح کے وقت ہوائی جہازوں کا رش رہتا ہے اور اگر کوئی مسافر طیارہ اپنے مقررہ راستے سے ذرا بھی اِدھر اُدھر ہو تو کنٹرول ٹاورز تنبیہ جاری کرتے رہے۔ اس روز یہ طیارے دیر تک اور دور تک اپنی مرضی سے پرواز کرتے رہے اور کنٹرول ٹاور کی آنکھوں سے ان چار جہازوں کی مست خرامی پوشیدہ رہی؟ چچا سام کی کامیابی کا راز ان کا شفاف عدالتی نظام ہے۔ امریکی ہر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب جبکہ طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اشتعال ختم ہو چکا ہے۔ اس پورے واقعے کی نئے سرے سے تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس المناک واقعے نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ دنیا بھر میں انسداد دہشت گردی کے نام پر کی جانے والی قانون سازی نے انفرادی آزادی اور شہری حقوق سلب کرلئے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کو ملنے والے غیر معمولی اختیارات نے عام شہریوں کے لئے مشکلات پیدا کیں اور سب سے بڑھ کر کمزور ممالک کی علاقائی خود مختاری عملاً ختم ہو کر رہ گئی، جس کی زندہ مثال پاکستان ہے، جہاں امریکی ڈرون جب اور جسے چاہیں بلا روک ٹوک نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایک امریکہ ہی کیا ہر طاقتور ملک کمزور قوم کو پامال کر رہا ہے۔ برما میں روہنگیا اقلیت کو دہشت گرد قرار دے کر پوری آبادی کو ان کے آبائی گھروں سے نکال دیا گیا اور مزاحمت کرنے والے ذبح کردیئے گئے۔ آسام کے مسلمانوں کو اب انہی حالات کا سامنا ہے۔ چین کی یوغور آبادی نسلی تطہیر کا شکار ہے۔ خلیجی ممالک یمن پر بمباری میں آزاد ہیں۔ روس کریمیا پرچڑھ دوڑا۔ روس، امریکہ اور ایران شام میں مورچہ لگائے بیٹھے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے علما اسے نیو ورلڈ آرڈر کا نام دے رہے ہیں۔ اردو میں اس صورتحال کو ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کہا جاتا ہے۔
9/11کی سترہویں برسی پر گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں مبینہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمے کی سماعت ہوئی۔ سابق صدر اوباما نے 9/11 کے ذمہ داروں کو ’’کیفر کردار‘‘ تک پہنچانے کیلئے فوجی عدالت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ یعنی صرف مصر، پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک ہی میں نہیں، بلکہ امامِ جمہوریت امریکہ میں بھی انصاف کی تقسیم کیلئے فوجی عدالت قائم کی گئی ہے۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد۔
ستم ظریفی کہ 9/11 کی پاداش میں افغانستان میں قبرستان آباد اور ہنستا بستا ملک ریت و راکھ کا ڈھیر بن گیا، لیکن اب تک واقعہ کے مبینہ ذمہ داروں پر فرد جرم بھی عائد نہیں ہو سکی ہے۔ حالانکہ واٹر بورڈنگ سمیت انسانیت سوز تشدد کے نتیجے میں وحشت کے مبینہ سرغنہ خالد شیخ محمد سمیت تمام ملزمان نے اعترافی بیان بھی جاری کر دیا ہے۔ احباب کی دلچسپی کیلئے عرض ہے ’’سرسری سماعت‘‘ کی اس فوجی عدالت میں یہ مقدمہ گزشتہ 6 سال سے جاری ہے۔ کل صبح جب مقدمے کی سماعت ہوئی تو خالد شیخ محمد کے وکیل نے بنچ کے جج کرنل کیتھ پیریلا کی تعیناتی پر اعتراض کیا۔ کرنل پیریلا سے پہلے مقدمے کی سماعت کرنل جیمز پول کر رہے تھے کہ موصوف اچانک ریٹائر ہوگئے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سماعت کے دوران ملزموں کی جانب سے تشدد کے روح فرسا بیانات سن کر کرنل پول کی طبیعت مکدر ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے فوج کی نوکری ہی چھوڑ دی۔ گوانتا نامو میں تعینات بہت سے فوجی اور پہرہ دار تشدد اور بدسلوکی دیکھ کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔
سماعت کے دوران خالد شیخ محمد کے وکلا نے کہا کہ نئے جج کرنل پیریلا امریکی وزیر دفاع کے انسداد دہشت گردی سیل سے آئے ہیں۔ وہ ماضی میں القاعدہ اور 9/11 کے ملزمان کے بارے میں ذاتی جذبات کا کھل کر اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ ان سے انصاف کی توقع نہیں۔ عسکری جج صاحب نے صفائی کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے مقدمے کی کارروائی جاری رکھی۔
کل جب امریکہ میں 9/11 کی برسی منائی جا رہی تھی تو کراچی کی علی گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کے ہولناک مناظر بھی آنکھوں کے سامنے آگئے۔ 6 برس پہلے اسی دن اس فیکٹری کو کچھ پتھر دلوں نے ایک تندور میں تبدیل کر دیا تھا، جس میں 260 محنت کش زندہ جل گئے۔ ابتدا میں فیکٹری مالکان اور سرکاری محکموں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، لیکن 2015ء میں پیش کی گئی ایک جے آئی ٹی میں یہ بات صاف صاف درج ہے کہ فیکٹری مالکان کی جانب سے 25 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے کی وجہ سے اسے نذرِ اتش کیا گیا۔ 6 فروری 2015ء کو عدالت میں رینجرز کی طرف سے جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے مطابق ایک ملزم رضوان قریشی نے اعتراف کیا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں، بلکہ لگائی گئی ہے اور اس کی وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا بھتہ تھا، جس کے بعد ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں ایک نئی جے آئی ٹی بنائی گئی۔ تفتیش میں واضح طور پر سامنے آیا کہ فیکٹری کو کیمیکل چھڑک کر آگ لگائی گئی تھی۔
تفتیشی حکام کے مطابق ایم کیو ایم تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے حکم پر رحمان عرف بھولا اور اس کے ساتھیوں نے آگ لگائی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے حماد صدیقی کو خلیجی ملک جبکہ رحمٰن بھولا کو تھائی لینڈ کے شہر بنکاک سے گرفتار کر کے وطن واپس لاچکے ہیں، لیکن افسران کے باربار تبادلے کی وجہ تحقیقات اب تک کھٹائی میں پڑی ہیں۔ اب جبکہ ایک نیا پاکستان وجود میں آچکا ہے، جس کی بنیاد انصاف اور قانون کی حکمرانی پر ہے تو ہمیں امید ہے کہ ذاتی دلچسپی لے کر عمران خان ان وحشیوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، جنہوں نے ڈھائی سو سے زیادہ معصوم لوگوں کو زندہ جلا دیا۔ تاہم ہمیں مایوسی اس بات سے ہے کہ اس بہیمانہ واردات کا ایک مبینہ سرغنہ خالد مقبول صدیقی تحریک انصاف کی کابینہ کا رکن ہے تو دوسرے وحشی فاروق ستار کے بارے میں یہ افواہ گرم ہے کہ موصوف کو ڈاکٹر عارف علوی کی خالی کی ہوئی نشست پر پی ٹی آئی کا امیدوار نامزد کیا جا رہا ہے۔ ٭

Comments (0)
Add Comment