پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والا راہداری منصوبہ دونوں ممالک سے دشمنی رکھنے والوں کی آنکھوں میں اول روز سے خار بن کر کھٹک رہا ہے۔ دونوں ممالک کی گہری، لازوال اور ناقابل تسخیر دوستی پر پڑوسی ملک بھارت ہی نہیں، امریکا اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک فکرو تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں نہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان ’’ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرے تعلقات‘‘ سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے برعکس انہیں صرف یہ جلن اور حسد ہے کہ سی پیک سے پاکستان کو فائدہ کیوں پہنچے اور اس کی معیشت کو استحکام کیسے حاصل ہو۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اس راہداری منصوبے کے نتیجے میں کہیں بھارت کو نقصان نہ پہنچ جائے اور وہ پڑوسی ملکوں پر بالادستی قائم رکھنے اور ان سے جائز و ناجائز فوائد سمیٹنے سے محروم نہ ہوجائے۔ علاوہ ازیں امریکا کو یہ فکر بھی لاحق ہے کہ چینی معیشت جو پہلے ہی عالمی منڈی میں تیزی سے اپنا مقام بناتی جا رہی ہے، سی پیک کے بعد وہ پاکستان کے تعاون سے جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک سے امریکا اور دیگر ممالک کا بالکل ہی صفایا نہ کر دے۔ ان پیچیدہ اور نازک حالات میں پاکستانی زعما اور اقتصادی ماہرین کو اپنی گفتگو میں بے حد احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ان کا جلدی اور بے خیالی میں ادا کردہ کوئی بھی فقرہ پاکستان دشمن طاقتوں کو اپنا بغض و عناد ظاہر کرنے کا موقع دے سکتا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کے مشیر صنعت تجارت عبد الرزاق داؤد کے حوالے سے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے کہا تھا کہ سی پیک کے تمام منصوبوں پر ایک سال کے لئے عملدرآمد روک دینا چاہئے، کیونکہ ان سے چینی کمپنیوں کو ناجائز فائدہ پہنچ رہا ہے، جبکہ پاکستانی کمپنیاں نقصان میں ہیں۔ اخبار نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان کی نئی حکومت چین کے ساتھ سی پیک معاہدے پر نظرثانی کے لئے غور کررہی ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے بھی اپنے حالیہ دورئہ پاکستان میں سی پیک کے سلسلے میں دوبارہ مذاکرات پر آمادگی کا اشارہ دیا تھا۔ اخبار کے مطابق منصوبوں اور ادائیگیٔ قرض کی مدت میں توسیع کے آپشنز زیر غور ہیں۔ اخبار نے عبد الرزاق داؤد سے یہ بیان بھی منسوب کیا کہ پچھلی حکومت نے سی پیک منصوبوں میں پاکستانی مفادات کے خلاف فیصلے کئے اور چینی کمپنیوں کو ٹیکسوں میں غیر ضروری مراعات دی گئیں۔ سی پیک پر نظرثانی کا مقصد پاکستانی کمپنیوں کو خسارے سے محفوظ رکھنا ہے۔ مشیر صنعت و تجارت عبد الرزاق داؤد نے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔ سی پیک ہمارا ترجیحی منصوبہ ہے، لہٰذا اسے ختم کرنے یا اس میں غیر ضروری تبدیلیاں کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کو گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے تمام منصوبوں سے پاکستان کے لوگوں کو یکساں فائدہ پہنچے گا۔ علاوہ ازیں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سی پیک کے حوالے سے پاکستانی ترجیحات سب سے اہم اور سر فہرست ہوں گی۔ مستقبل اور تعاون کا تعین باہمی مشورے سے ہوگا۔ دونوں ممالک نے منصوبے کی رفتار بڑھانے پر اتفاق اور حفاظت و سلامتی کے امور سمیت تمام شعبوں میں دو طرفہ تعلقات مزید مستحکم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین قومی مفادات کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کرتا رہے گا۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے حالیہ دورئہ پاکستان کا مقصد روایتی دوستی کی تجدید تھا۔ پاک و چین دوستی اور تعلقات کے بارے میں، بالخصوص راہداری کے منصوبوں پر دونوں ممالک کی جانب سے جاری کردہ وضاحت بدیہی طور پر ان تمام شکوک و شبہات کو مسترد کرنے کے لئے کافی ہے۔ تاہم پس منظر میں پیش آنے والے واقعات، عالمی خدشات اور مقامی تحفظات کے تناظر میں بعض پہلوؤں پر ازسرنو غور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سی پیک منصوبوں پر نظرثانی کی قیاس آرائیاں اس بنا پر کی جا رہی ہیں کہ تحریک انصاف نے گزشتہ دور حکومت میں اپنے دھرنوں اور مظاہروں کے ذریعے منصوبوں میں تاخیر اور چینی وزیراعظم کے دورے کو منسوخ کرانے میں بڑا منفی کردار ادا کیا تھا۔ اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور عمران خان ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں تو سابقہ واقعات اور خبروں کے حوالے سے مخالفین کو قیاس آرائیوں اور شکوک و شبہات کے اظہار کا موقع ملنا فطری امر ہے۔ پھر یہ کہ ان کے مشیر نے اپنی گفتگو میں غیر محتاط انداز بیان اختیار کیا ہو تو لوگوں کو خیال آرائی کا موقع مل گیا۔ تاہم اس سے قبل بھی پاکستان کے بعض حلقے اور صنعت و تجارت سے وابستہ کچھ شخصیات کی جانب سے دبے لفظوں میں یہ کہا جاتا رہا کہ چین کو ضرورت سے زائد مراعات دینے سے مقامی اداروں کو مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ بعض چینی باشندوں کی جانب سے چند پاکستانیوں پر ظلم اور ناروا سلوک کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ چنانچہ محب وطن حلقے یہ کہتے رہے کہ دونوں ملکوں کی گہری دوستی اپنی جگہ، لیکن پاکستان کو اپنے مفادات پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ چین بھی ظاہر ہے کہ فی سبیل اللہ پاکستان اور اہل پاکستان کی خدمت نہیں کر رہا، اس کے اپنے بھی یقیناً کچھ مقاصد ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ جملہ قابل غور ہے کہ چین (اپنے) قومی مفادات کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کرتا رہے گا۔ یہ تصور کرنا محال ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے افکار واقدامات میں قومی مفادات کو مقدم نہیں رکھے گا۔ چین کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس بنا پر پاکستان کو بھی دوستی اور تعلقات کے دوران مقررہ حدود اور اپنے قومی مفادات سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے۔ ٭