ہم سفروں کو فارسی شعرا کا کلام سناکر محظوظ کیا

مجھ سے دریافت کیا گیا کہ فارسی شعرا میں مجھے کون سے شعرا پسند ہیں۔ میں نے شیخ سعدی، حافظ شیرازی اور علامہ اقبال کا نام لیا۔ پھر معلوم کیا گیا کہ آیا مجھے ان شعرا کا کچھ کلام یاد ہے؟ میرا جواب تھا کہ کیوں نہیں۔ ہم سفر حضرات کی خواہش پر ان تینوں ہستیوں کے چیدہ چیدہ اشعار جو یاد تھے، سنائے۔ یہاں وہ اشعار نقل کئے جاتے ہیں۔
1۔ گلے خوشبوئے در حمام روزے
رسید از دست محبوبے بد ستم
(ایک دن غسل خانے میں مجھے ایک محبوب کے ہاتھ سے خوشبو دار مٹی ملی)
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دلاوز تو مستم
(میں نے اس مٹی سے کہا کہ تو مشک ہے یا عبیر کہ میں تیری دل کو لبھانے والی خوشبو سے مست ہوں)
بگفتا من گلے نا چیز بودم
ولیکن مدتے با گل نشستم
(مٹی بولی کہ میں تو ایک ناچیز مٹی ہی تھی مگر ایک مدت تک پھول کی ہمنشین رہی ہوں)
جمال ہمنشین در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
(میرے ہم نشین کے جمال نے مجھ پر اثر کیا و گرنہ میں تو وہی حقیر مٹی ہوں کہ جو ہوں)
2۔ ایکہ وقتے نطفہ بودی در شکم
وقت دیگر طفل بودی شیر خوار
(اے سننے والے ایک وقت وہ تھا کہ تو اپنی ماں کے پیٹ میں محض ایک نطفہ تھا۔ دوسرے وقت تو ایک شیر خوار بچہ بن گیا)
مدتے بالا گرفتی تا بلوغ
سرو بالائے شدی سیمی عذار
(اسی طرح مدت گزری اور تو اپنے بلوغ کو پہنچ گیا سروکے درخت کی طرح بلند قامت ہوگیا اور تیرے رخسار چاندی جیسے سفید و خوبصورت ہوگئے)
ہم چنیں تا مرد نام آور شدی
مروم میدان و شان کا زار
(اسی طرح تو ایک نام آور مرد بن گیا لڑائی کے میدان کا مرد اور میدان کار زار کی شان)
آنچہ دیدی برقرار خود نماند
آنچہ بینی ہم نماند برقرار
(جو تو نے ابھی تک دیکھا وہ اپنی قرار پر نہیں رہا اسی طرح جو تواب دیکھ رہا ہے وہ بھی اپنے قرار پر نہیں رہے گا)
نام نیک رفتگاں ضائع مکن
تا بماند نام نیکت برقرار
(گزرے ہوئے نیک لوگوں کے نیک نام کو ضائع نہ کر تا کہ تیرے مرجانے کے بعد تیرا نیک نام بھی باقی رہے)۔ ماخوذ از قصیدہ در مدح انکیا نو، منگول گورنر ایران
اشعار حافظ شیرازیؒ
الا یا ایہساقی ادر کاسا و ناولہا
کہ عشق آساں نمود اول ولے اتاد مشکل ہا
(اے ساقیا آور مے نوشی کے تمام لوازمات کے ساتھ آ کیونکہ عشق شروع میں تو آسان نظر آیا مگر اب بہت مشکلات پیش آگئی ہیں)
شب تاریک و بیم موج گردا بے چنیں حائل
کجا دانند حال ماسبکسا ران ساحل ہا
اشعار علامہ اقبالؒ
-1 چیست دین دریافتن اسرار خویش
زندگی مرگ است بے دیدار خویش
(دین کیا ہے؟ یہ اپنی ذات کے رازوں کو دریافت کرنا ہے، اپنی ذات کے دیدار کے بغیر تو زندگی موت کے برابر ہے)
-2 زندگی جہد است و استحقاق نیست
جذبہ علم النفس و آفاق نیست
(زندگی جدوجہد کا نام ہے یہ کوئی استحقاق نہیں ہے یہ سوائے علم ذات اور علم آفاق اور کچھ نہیں ہے)
گفت حکمت را خدا خیر کثیر
ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر
(اللہ تعالیٰ نے حکمت یا دانائی کو خیر کثیر کہا ہے، تو جہاں کہیں بھی اس خیر کو دیکھے تو اسے پکڑلے)
-3 چناں بزی کہ گر مرگ تست مرگ دوام
خداز کردہ خود شرمسار تر گر دو
(دنیا میں اس طرح زندگی گزار کہ اگر تیری موت ہمیشہ کی موت ہوجائے یعنی تو ہمیشہ کے لئے مرجائے تو خدا اپنے اس کیے پر یعنی تجھے ہمیشہ کے لئے مار دینے پر خود شرمسار ہوجائے)
میرے سامعین نے میرے سنائے ہوئے تینوں بزرگ شعرا کے اشعار میں سے صرف حافظ کے اشعار پہلے سے سن رکھے تھے یا ان کے علم میں تھا کہ یہ حافظ کے اشعار ہیں۔ علامہ اقبال کے اشعار کی طرف سے میں اتنا پر امید نہ تھا مگر شیخ سعدی کے اشعار کی طرف سے مجھے امید تھی کہ میرے ہمسفر ان سے بے بہرہ نہ ہوں گے۔ مگر جب یہ صورت حال سامنے آئی تو میں نے مناسب سمجھا کہ سعدی کے ثانی الذکر اشعار (ماخوذ از قصیدہ درمدح انکیا نو) کے پس منظر اور ان کی اہمیت کے بارے میں چند گزار شات اپنے ایرانی ہمراہیوں کے گوش گزار کردوں۔ یہ سوچ کر میں اپنے ہمسفروں سے یوں مخاطب ہوا کہ کچھ ناقدین جب سعدی اور حافظ کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ شیخ سعدی نے تو اپنی صلاحیتوں کا بیشتر حصہ بادشاہوں کی قصیدہ خوانی میں صرف کیا، جبکہ حافظ نے شاعری برائے شاعری کی۔ غزل گوئی میں سب فارسی شعرا کو پیچھے چھوڑ گئے اور ’غزلسرائے بزرگ زبان فارسی‘ کا لقب پایا۔ مگر وہ اس امر کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ شیخ سعدی نے علامہ اقبال کی طرح بنیادی طور پر شاعری برائے زندگی کی ہے اور جابر بادشاہوں کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے بھی ان کو پند و نصائح کرنے کا دامن نہیں چھوڑا اور نصیحت کا انداز بھی ایسا جارحانہ اور ’لگی لپٹی‘ کے بغیر لگتا ہے کہ وہ نصیحت کسی بادشاہ وقت کو نہیں اپنے بیٹے کو کر رہے ہیں۔ ان کے اسی پُر خلوص، حکیمانہ اور دلیرانہ انداز کے حوالے سے ہی ان کے کسی ہم عصر بزرگ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’شیخ سعدی جابر بادشاہ وقت کو جس لہجے اور جن الفاظ میں نصیحت کر گزرتے ہیں، ہم اس لہجے اور ان الفاظ میں وہ نصیحت کسی سبزی فروش کو بھی نہیں کرسکتے‘‘۔
اس تمہید کے بعد میں نے عرض کیا کہ ابھی میں نے شیخ سعدی کے قصیدے کا جو اقتباس آپ کو سنایا ہے، اس کے اشعار کا لہجہ، امثال اور الفاظ کا چناؤ دیکھئے اور پھر یہ سوچیے کہ قصیدہ اس وقت ایران کے اس منگول گورنر یا بادشاہ کے روبرو پڑھا گیا تھا جس کے لئے ذرا سی ناپسندیدگی پر کسی کا بھی سر قلم کرا دینا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ شیخ سعدی کا انکیا نو کے دربار میں اس کے روبرو یہ حکیمانہ اور دلیرانہ نصیحت نامہ پیش کرنے کی جرأت کرنا اس امرکی بھی دلیل ہے کہ شیخ سعدی کو اپنے حکیمانہ طرز استدلال پر کس قدر اعتماد تھا۔ کس خوبصورت اور حکمت سے وہ انکیانو کو اس کی ماں کے پیٹ سے اس کی حقیر ابتدا کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں اور پھر اسی کو بچپن اور لڑکپن کے منازل گزار کو موجودہ پر جلال اور انتہائی طاقتور حکمران کی منزل پر لاتے ہوئے یاد دلاتے ہیں کہ جو کچھ تو نے ابھی تک دیکھا ہے یا جن منازل سے تو بتدریج ابھی تک گزرا ہے، ان میں سے کوئی منزل بھی اپنے قرار پر نہیں رہی۔ اسی طرح جس منزل پر تو اس وقت ہے وہ بھی اپنے قرار پر نہیں رہے گی۔ اس لئے سمجھداری کا تقاضا ہے کہ تو گزرے ہوئے لوگوں کا نیک نام اور ان کے اچھے کارناموں کو ضائع نہ کر، تاکہ تیرے دنیا سے چلے جانے کے بعد تیرا نیک نام اور تیرے اچھے کارنامے بھی باقی رہیں۔ یہ کہہ کر میں نے ایک مرتبہ پھر شیخ سعدی کے زیر بحث قصیدے کا اقتباس پڑھا۔ اس مرتبہ میرے سامعین نے پہلے کے مقابلے میں اسے بہت زیادہ سراہا اور تسلیم کیا کہ یہ شیخ سعدی کے کلام کا بہت گراں قدر حصہ ہے اور یہ کہ ہم اس سے پہلے واقف نہ تھے کہ سعدی کے کلام میں ایسی نایاب چیزیں بھی موجود ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment