مزاحمت کا موسم کب آئے گا؟

امریکہ نے اپنے دارالحکومت واشنگٹن میں پی ایل او کا دفتر بند کرنے کا حکم صادر کردیا ہے۔امریکہ کے مطابق فلسطین کا جرم یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں مدد نہیں کر رہا۔ امریکہ میں ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکی حکومت کا فلسطین پر یہ دوسرا حملہ ہے۔ امریکہ نے حالیہ دنوں کے دوران فلسطین پر پہلا حملہ تب کیا تھا، جب اس نے رواں سال کے پانچویں ماہ کے وسط میں اچانک اور بغیر کسی سبب کے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا۔ یہ عمل پوری دنیا کے لیے ناقابل فہم تھا۔ اقوام متحدہ سمیت بہت سارے یورپی ممالک نے امریکہ کے اس عمل پر تنقید کی، مگر امریکہ بضد رہا۔ اس سفارتی جارحیت کے پانچ ماہ بعد ایک بار پھر امریکہ نے اپنے مرکزی شہر میں پی ایل او کا دفتر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ کے اس فیصلے کو بین الاقوامی سفارتی دنیا میں افسوس کے ساتھ دیکھا جائے گا۔ امریکہ کی کارروائی کو عرب میڈیا میں ’’سفارتی دہشت گردی‘‘ بھی کہا جائے گا اور فلسطین کیلئے نرم گوشہ رکھنے والا انگریزی میڈیا اس عمل کو ’’سفارتی جارحیت‘‘ قرار دے گا۔ اس امریکی عمل پر امن دوست حلقے کڑی تنقید بھی کریں گے ۔ پرنٹ میڈیا میں اس عمل کے خلاف کالم لکھے جائیں گے۔ الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والے ٹاک شوز میں اس عمل کو امریکہ کی ایک اور زیادتی قرار دیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ امریکہ کے اس فیصلے کو اقوام متحدہ افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کرنے کے لیے کہے۔ مگر ان ساری باتوں سے کیا ہوگا؟ جب امریکہ نے یروشلم میں سفارت خانہ منتقل کیا، اس وقت بھی میڈیا بہت گرجا برسا، مگر کیا ہوا؟ وہ قصہ پرانا ہوا اور یہ قصہ بھی کچھ وقت کے بعد پرانا ہو جائے گا۔ جب لوگوں کے ذہنوں سے اس واقعے کا اثر مٹنے لگے گا، تب پی ایل او کے سفارتی حلقے امریکہ سے مذاکرات کریں گے۔ امریکہ کے پانچ مطالبات میں سے تین مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔ اس طرح واشنگٹن والا پی ایل او کا دفتر کھل جائے گا اور پی ایل او ایک بار پھر امریکہ کی معرفت اسرائیل کے دباؤ میں آجائے گی۔ اسرائیل فلسطین کے ساتھ مستقل طور پر یہی کچھ کرتا آ رہا ہے۔ اسرائیل امریکہ کی معرفت فلسطین پر اپنی مرضی کے مذاکرات مسلط کرتا رہا ہے۔ اس بار بھی یہی کوشش ہو رہی ہے۔
پی ایل او جو کبھی مزاحمت کا گیت تھی اور اب سرکاری مذاکرات کی علامت بن چکی ہے۔ وہ تنظیم اس غم اور غصے کو خاطر میں نہیں لاتی جو فلسطین کا ایک عام فرد محسوس کرتا ہے۔ ایک وقت تھا جب پی ایل او نے اسرائیل کے پیروں تلے دھرتی کو تپا کر رکھا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ پی ایل او بھی اپنی قیادت کی طرح بوڑھی ہوتی گئی۔ اب پی ایل او میں وہ جوش اور جذبہ نہیں ہے، جس کا جلوہ اس دنیا نے پہلی اور دوسری انتفاضہ میں دیکھا تھا۔ وہ مزاحمتی تحریک کسی منصوبے کے بغیر شروع ہوئی تھی اور پورے چار برسوں تک مزاحمت کا وہ موسم چلتا رہا۔ جب فلسطین کے نوجوان غلیل سے اسرائیلی فوجیوں پر ابابیلوں کی طرح پتھر پھینکتے تھے۔ اس مزاحمتی تحریک کو میڈرڈ کانفرنس سے گزار کر اوسلو معاہدے پر ختم کر دیا گیا۔ یاسر عرفات کے اس فیصلے نے عرب دنیا پر مایوسی کی بجلی گرا دی۔ مگر فلسطین کی سرکش روح پھر بھی معرکے تلاش کرتی رہی اور اوسلو معاہدے کے سات برس بعد پھر برق فروزاں ہوئی سر وادی سینا اور پھر رنگ پہ آیا شعلہ رخسار حقیقت! اس دنیا نے ایک بار پھر فلسطین میں دوسرے انتفاضے کا نظارہ دیکھا۔ وہ مزاحمت کی تحریک بھی پورے پانچ برس تک جاری رہی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی مظلوم قومیں ظالم اقوام کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں، تب انہیں جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے، مگر بغاوت اور آزادی کا یہی دستور ہے۔ اس رسم اور روایت کو بدلا نہیں جا سکتا۔ کیوں کہ غلامی کا زنگ آلود تالا صرف خون کی چابی سے کھلتا ہے۔ فلسطین کی تحریک صرف ہتھیاروں کی تحریک نہیں تھی۔ مزاحمت صرف بندوق نہیں ہوتی۔ مزاحمت ایک سوچ، ایک احساس اور ایک رویہ ہے۔ فلسطین نے مزاحمت کو خوبصورت بلندی عطا کی۔ وہ نوجوان لڑکے جن کے گالوں میں زندگی کے گلاب مہکتے تھے اور وہ نوجوان لڑکیاں جن کے بالوں سے شاعری چھنتی تھی، وہ دونوں جب ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر اسرائیلی فوجیوں کا مقابلہ کرتے تھے، تب پوری دنیا کی بے حسی کو بھرپور جھٹکے لگتے تھے۔ ایک غیور قوم اپنی آزادی کی تحریک سے دنیا کی دوسری غلام قوموں کو بیدار کرتی ہے۔ اس لیے جہاں بھی کوئی غیرت مند قوم اپنی دھرتی پر قابض قوت کو للکارتی ہے، تب اس کی صدا پوری دنیا کے گنبد میں زور سے گونجتی ہے۔
اور فلسطین کی پکار تو بہت ہی بھرپور پکار تھی۔ فلسطین کی پکار صرف ایک چیخ نہ تھی۔ فلسطین کی پکار ایک ایسی آرکیسٹرا تھی، جس میں بہت سارے ساز اور سر شامل تھے۔ اس آواز میں بندوقوں سے نکلتی ہوئی گولیوں کی گونج بھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ گیت بھی تھے اور وہ نعرے بھی تھے، جو سیاسی مطالبات سے زیادہ با معنی تھے۔ فلسطین کی تحریک آزادی جب بھی میدان میں آئی ہے، تب اس نے اپنی قوم کے قدم پیچھے نہیں کیے۔ مزاحمت ہمیشہ آگے بڑھتی ہے۔ فلسطین نے مذاکرات کی میز پر اپنا کیس کمزور کیا ہے، مگر مزاحمت کے مورچے پر فلسطین کا مقدمہ ہمشیہ مضبوط ہوا ہے۔ اس لیے جب میں نے بی بی سی پر امریکہ کی طرف سے واشنگٹن میں پی ایل او کا دفتر بند ہونے کے بارے میں خبر پڑھی تو مجھے غصے کے ساتھ ساتھ یہ سوچ کر خوشی بھی ہوئی کہ اب فلسطین کی تحریک آزادی دفتر سے نکل کر سڑک پر آئے گی اور سڑک سے ہوتے ہوئے میدان میں پہنچے گی۔ دفتر ایک دکان ہوتا ہے۔ جہاں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس لیے آزادی کے سرکش لوگ دفتر نہیں بناتے۔ وہ میدان میں مقابلہ کرتے ہیں۔ جس طرح عقاب درختوں کی شاخوں پر آشیانے نہیں بناتے، اسی طرح مجاہد پہاڑوں کی چوٹیوں کو مورچوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ فلسطین کی تحریک ایک مورچے سے دوسرے مورچے تک ایک سفر رہی ہے۔ جب بھی اس کو دفتر میں بند کیا گیا ہے، تب اس کی قوت میں کمی آئی ہے۔
دنیا کے سفاک سرمایہ دار اور قوموں کا استحصال کرکے انہیں غلام بنانے والے ممالک اپنے مخالفین کے لیے اچھے الفاظ کیوں استعمال کریں گے؟ اس لیے فلسطین کی تحریک پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ ایک دہشت گرد تحریک ہے۔ دنیا کے ہر غاصب نے ہر باغی کو دہشت گرد کہا ہے۔ کسی کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اور جب ایسا الزام کسی غاصب کی طرف سے آتا ہے تب وہ الزام اعزاز بن جاتا ہے۔ فلسطین کی تحریک آزادی مشعل کی طرح جلتی رہی۔ وہ مشعل ایک بار پھر روشن ہونا چاہتی ہے۔ کیوں کہ امریکہ اور اسرائیل جس طرح فلسطین کے لوگوں کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں، اس کا نتیجہ لازمی طور پر ایک مزاحمت کی صورت میں سامنے آئے گا۔
امریکہ اور اسرائیل فلسطین کو تیسرے انتفاضے کے لیے تیار کر رہے ہیں اور فلسطین ان کو مایوس نہیں کرے گا۔ فلسطینیوں کی رگوں میں وہ خون گردش کرتا ہے، جس میں خوف شامل نہیں۔ وہ قربانی دینا جانتے ہیں۔ وہ قربانی بہت فخر سے دیتے ہیں۔ وہ جو خود کو فدائین کہتے ہیں۔ وہ جو آگے بڑھتے ہیں۔ پیچھے ہٹتے ہیں۔ پھر آگے بڑھتے ہیں۔ سمندر کی لہریں بن کر مسلسل تحرک میں رہتے ہیں۔ وہ جو اپنے شاعروں، موسیقاروں اور مصوروں سے حوصلہ لیتے ہیں اور وہ جن سے ان کے شاعر، موسیقار اور مصور اپنی تخلیق کی قوت حاصل کرتے ہیں۔ وہ لوگ نسل در نسل اپنے حق کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہیں، جن کے بال سفید ہو جاتے ہیں، مگر ان کے دل میں جذبے سرد نہیں پڑتے۔ وہ آتش فشاں کا لاوا بن کر بلندی سے بہتے ہیں۔ وہ جب موت کے موڑ میں جم بھی جاتے ہیں، تب بھی ان کا روپ اور رنگ بہت خوبصورت ہوتا ہے۔
فلسطین کو امریکہ نے اوسلو معاہدے میں جکڑ کر اس کی طاقت پر ضرب لگائی۔ امریکہ فلسطین کو اس پچ پر لے آیا جو پچ اس کی نہیں تھی۔ مذاکرات کی میز پر فلسطین کو تب آنا چاہئے تھا، جب اسرائیل مجبور ہو جاتا۔ یاسر عرفات ذاتی طور پر بہت تھک گیا تھا۔ اس لیے اس نے اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ پی ایل او نے اپنی قوم سے آزادی کا وعدہ کیا تھا اور وہ ایک قسم کے بلدیاتی نظام پر بیٹھ گئی۔ مگر تاریخ میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد ہمیشہ مستقل رہی ہے۔ اس جدوجہد میں اس نے وقفے ضرور لیے ہیں، مگر ہر وقفے کے بعد فلسطین کی تحریک پہلے سے زیادہ توانائی کے ساتھ میدان میں آتی ہے۔ اس بار اگر فلسطین میدان میں آیا تو سوشل میڈیا میں مزاحمت کا موسم ہزاروں رنگوں کے پھول کھلائے گا۔ یہ دنیا دکھ کے ساتھ مایوسی کے گرداب میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ دنیا اس مایوسی سے خوش نہیں ہے۔ یہ دنیا حوصلہ لینا چاہتی ہے۔ مگر حوصلہ دینے والی قوتیں نہیں ہیں۔ فلسطین جب بھی میدان میں اترا ہے، حوصلے کا گرڈ اسٹیشن بن گیا ہے۔ اس وقت بھی مظلوم دنیا کی نظریں اس قوم کی طرف ہیں، جن کے لیے دنیا کی ہر زباں میں عزت اور محبت کی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ وہ جب بھی مزاحمت کے موسم میں زخموں کے پھول کھلاتے ہیں، تب دنیا بہتر تبدیلی کے لیے تحرک میں آنے لگتی ہے۔ مایوسی کے سائے ڈھلنے لگتے ہیں۔ کاغذ یا کمپیوٹر کی اسکرین پر ایسے الفاظ ابھرنے لگتے ہیں:
’’ہم وہاں جانا چاہتے ہیں
جہاں سمندروں میں
مچھلیوں کا شکار
ہماری زباں میں کیا جاتا ہے!
جہاں پرندے ہوا میں
ہماری زباں میں اڑتے ہیں!
جہاں زمینوں میں ہل
ہماری زباں میں چلتا ہے!
جہاں دریاؤں میں پانی
ہماری زباں میں بہتا ہے!
جہاں محبت اور وفا کا وعدہ
ہماری زباں میں کیا جاتا ہے!
جہاں پھول سے خوشبو
ہماری زباں میں نکلتی ہے!
جہاں چاندنی میں جھیل
ہماری زباں میں سجتی اور سنورتی ہے!
جہاں ساز ہماری زباں میں بجتے ہیں!!
جہاں دل ہماری زباں میں دھڑکتے ہیں!!

٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment