’’دس ہزار انسان‘‘

سیلانیپھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بنچ پر بیٹھ کر واٹس اپ پر آنے والے برقی پیغامات پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج کے دور میں کراماً کاتبین کے بعد اگر کوئی چیز انسان کے سب سے زیادہ قریب رہنے لگی ہے تو وہ یہ سیل فون ہی ہے۔ اس کم بخت نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے۔ سیکنڈوں میں دنیا جہاں کی خبر لا دیتی ہے اور بندے کو نہیں خبر ہوتی تو اپنے آس پاس کی۔ اب یہی دیکھئے کہ سیلانی پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ پارک کے بنچ پر بیٹھا سرحد پار کابل میں ہونے والے خود کش دھماکے کی خبر پڑھ رہا تھا اور تصاویر دیکھ رہا تھا۔ نو ستمبر 2001ء کو خودکش حملے میں مارے جانے والے جنگجو کمانڈر احمد شاہ مسعود کی برسی پر ہونے والے خود کش دھماکے نے سات جانیں لے لیں تھیں۔ ایک دوست نے سیلانی کو اس د ھماکے کے بعد کی دلخراش تصاویر واٹس اپ کے ذریعے بھیجی تھیں۔ دو عالمی طاقتوں کے درمیان جنگ کے بعد اس خطے میں اس کے اثرات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو رہے ہیں۔ کابل میں امن کی فاختہ جو سرخ ریچھ اور امریکہ کی پنجہ آزمائی کے درمیان اڑی تھی، پھر لوٹ کر نہیں آئی۔ کابل پر برسر اقتدار قوت میں احمد شاہ مسعود کی باقیات اور اثرات سب سے زیادہ ہیں، لیکن اس کے باوجودکابل مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں نہیں۔ یہاں اس وقت تک امن ہے جب تک حکومت مخالف گروپ کوئی کارروائی نہ کر لے۔ وہاں امن ایک دھماکے سے دوسرے دھماکے کے درمیانی وقفے کا نام ہے… خود کش دھماکے کے بعد کی تصاویر دل بوجھل کئے دے رہی تھیں۔ خون کسی بھی انسان کا ہو، خون تو خون ہی ہے ناں… اس کے ساتھ دوسری خبر جلال آباد میں پاکستان کے قونصل خانے کی بندش کی تھی۔ گورنر جلال آباد بھارتی شہ پر کچھ زیادہ ہی اچھل کود کر رہا ہے۔ سفارتکار قونصل خانے سے نکلتے ہیں تو مشکوک کاریں پیچھا کرتی ہیں، آمدو رفت پر بے جا روک ٹوک اور سیکورٹی خدشات کے بعد بالآخر جلال آباد میں پاکستان نے قونصل خانے کو تالا ڈال دیا۔ اس تالے سے صاف پتہ لگ سکتا ہے کہ دونوں ملکوں میں تعلقات سرد مہری سے بھی آگے کا شکا ر ہیں۔ سیلانی کو دکھ ہوا، افغانستان پڑوسی برادر ملک ہے، دونوں قوموں نے مل کر ایک سپر پاور کو سنگلاخ پہاڑوں سے پرے دھکیلا ہے، لیکن اس کے بعد کابل والے دہلی والوں اور واشنگٹن والوں کے درباری بن گئے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے محسنوں کو ہی ان کی مجلس سے اٹھنا پڑا۔ سفارتی معاملات سیلانی کی سمجھ میں زیادہ نہیں آتے، لیکن اس میں سمجھنے والی بات تھی ہی کیا؟؟ سچ میں سیلانی کا جی اداس ہو گیا۔ اس نے ایک گہری سانس لے کر سیل فون جیب میں ڈالا اور بنچ کی پشت پر سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔
سیلانی کو تھوڑی ہی دیر ہی ہوئی تھی کہ سیل فون کے مترنم شور نے کسی کال کی اطلاع دی۔ سیلانی نے جیب سے فون نکالا، کوئی انجانا نمبر تھا، یقینا کسی قاری کا ہوگا۔ ’’امت‘‘ کے قارئین سیلانی کی اسلام آباد نقل مکانی سے افسردہ ہیں۔ وہ فیس بک اور سوشل میڈیا پر سیلانی سے شکوہ کر رہے ہیں کہ سیلانی کراچی سے کیوں گیا؟ سیلانی اب ان سے کیا کہتا، کیا بتاتا کہ کراچی چھوڑنے کے دکھ نے اس کی آنکھوںکے گوشے بھی نم کئے رکھے ہیں، لیکن کیا کیا جائے کہ اس شہر سے روا رکھے جانے والے سلوک نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے ہیں۔ سیلانی بھی ان پریشانیوں سے تنگ آچکا تھا۔ وہ ہر فون کرنے والے دوست سے یہی کہتا ہے: میں نے کراچی چھوڑا ہے، کراچی کو نہیں چھوڑا۔ اس دوست کو بھی اس نے یہی کہنا تھا، لیکن کہنے کی نوبت نہیں آئی۔ اس نے کال وصول کر کے مسلسل بجنے والی گھنٹی بند کی اور اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے کہنے لگا۔
’’السلام علیکم‘‘
’’آپ وہ اخبار والے بھائی ہو نا؟‘‘ مردانہ آواز اور زنانہ لوچ دار لہجے میں پوچھا گیا۔
’’جی میں وہی بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’میں پریتی بلوچ بول رہی ہوں۔‘‘
’’پریتی…‘‘ سیلانی نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
’’سر! ہا ہئے آپ نے تو ہمیں اتنی جلدی بھلا دیا، ہم نے آپ کے ساتھ پنڈی سے بہاولپور تک کا سفر کیا تھا۔‘‘
’’اوہ اچھا اچھا! وہ پریتی یعنی صفدر…‘‘ سیلانی کو یاد آگیا، مکمل طور پر اسلام آباد آنے سے پہلے جب اس کے یہاں کے پھیرے لگ رہے تھے تو ایسے ہی ایک پھیرے میں پریتی، غزالہ اس کے ہم سفر تھے، یہ دونوں خواجہ سرا ریل گاڑی کے چلتے ہی ایسے سوئے کہ سیلانی کو تشویش ہونے لگی کہ نیند ہی میں نہ گزر گئے ہوں۔ غزالہ تو پھر بھی اٹھ گئی تھی، لیکن نازک سا پریتی لمبی نشست پر لمبا پڑا رہا تھا۔ پریتی بلوچ بہاولپور کا رہنے والا تھا۔ یہ کبھی صفدر تھا، لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب تک اس نے گھر بار چھوڑ کر پاؤں میں گھنگھرو نہیں باندھے۔ چھن چھن چھنا چھن کے بعد وہ صفدر سے پریتی بلوچ ہو گئی۔ پریتی کے نقش کسی خوبصورت حسینہ جیسے ہی تھے، کھلتا ہوا رنگ، کمر تک لہراتے ریشمی بال، کھڑی پتلی ناک اور پتلا دبلا بدن، اس کے ہاتھ بھی بہت خوبصورت تھے۔ وہ ان خواجہ سراؤں میں سے تھا جو نسوانیت کی دہلیز تک پہنچے ہوتے ہیں، ان دونوں سے کمپارٹمنٹ کے دیگر مسافروں کی طرح سیلانی کی بھی اچھی گپ شپ رہی تھی اور جاتے ہوئے سیلانی نے انہیں اپنا سیل نمبر بھی دیا تھا۔
’’آج کیسے یادکیا جناب؟‘‘
’’سر! بس آج دل اداس ہے، کوئی کام بھی نہیں، وقت گزر نہیں رہا تھا، سوچا کہ آپ ہی کو کال کر لوں۔‘‘
’’کام کیوں نہیں، کیا فنکشن کرنا چھوڑ دیئے؟‘‘
’’ہا ہئے، فنکشن نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے، وہ تو ہماری روزی روٹی ہے، محرم شروع ہو گئے ہیں ناں، سوگ کا مہینہ ہے، فنکشنوں کی چھٹی ہے۔‘‘
’’پھر تو تم اپنے گھر چلی گئی ہوگی۔‘‘
’’نہیں سر! اب میں گھر نہیں جاؤں گی۔‘‘ پریتی نے اداس لہجے میں کہا۔
’’ارے کیا ہوا، کیا گھر میں کسی سے جھگڑا ہو گیا؟‘‘
’’سر! بھائی کہتے ہیں تو گھر نہ آیا کر، ہم پر سب لوگ ہنستے ہیں۔‘‘
’’کیا یایایا یایا یایا؟‘‘ سیلانی کے لہجے میں حیرت تھی۔ پریتی بے شک ایک خواجہ سرا تھا، لیکن خواجہ سرا ہونے سے رشتے تو نہیں ختم ہو جاتے۔ اس کے مونچھوں والے ’’غیرت مند‘‘ بھائی نے جس ماں کی کوکھ سے جنم لیا تھا، اسی سے صفدر بھی اس دنیا میں آیا تھا۔ اس زندگی میں یوں آنے کی خواہش پریتی کی تو نہ تھی، اس کا بھائی ایک مرد ہے اور وہ ایک خواجہ سرا تو اس میں اس کا کیا قصور؟
’’جی سر! امی نے اسے ڈانٹا تو اس نے امی پر بھی غصہ کیا، چھوٹا بھائی بھی اس کے ساتھ مل گیا، میں ابا کے پاس گئی تو وہ چارپائی پر بیٹھا چلم لگا رہا تھا، میں نے اس سے کہا کہ دیکھ ابا! یہ بھائی کہتے ہیں کہ میں یہاں نہ آیا کروں، لیکن اس نے ایک لفظ منہ سے نہ نکالا، جیسے اسے میری آواز ہی نہ آئی ہو، بس چلم لگانے میں لگا رہا، میں نے روتے ہوئے اپنا بیگ اٹھایا اور اسی طرح نکل آئی،
اب میں نہیں جاؤں گی۔‘‘
’’ماں نے کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’ماں تو ماں ہوتی ہے ناں، وہ مجھے بلاتی رہی، میرے پیچھے دروازے تک آئی، لیکن میں نہ مڑی، میرا بھائی کہتا ہے ہمیں غیرت آتی ہے، لیکن اس کی غیرت اس وقت کھیتوں میں بکریاں چرنے چلی گئی تھی، جب اسے موٹر سائیکل کی ضرورت تھی اور میں نے ایک فون پر پچاس ہزار روپے بھجوائے تھے، بڑے والے کو بھی فصل پر اسپرے کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑی تو اس نے چھوٹی بہن سے مجھے فون کرایا تھا، ان کی غیرت اس وقت مر جاتی ہے، جب یہ ضرورت مند ہوتے ہیں اور یہ خالی میری کہانی نہیں، ہر اس گھر کی کہانی ہے، جہاں اللہ تعالیٰ کسی خواجہ سرا کو پیدا کرتا ہے‘‘۔
پریتی کا لہجہ گلوگیر ہو گیا، آواز بھرا گئی، وہ اپنے وجود میں کسی کمی کے باوجود ہے تو انسان ہی، سوچنے سمجھنے اور محسوس کرنے والا انسان۔ سیلانی کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اسے کیا کہے، کس طرح تسلی دے، ڈھارس باندھے، وہ جو دو دہائیوں سے لفطوں سے سنگت لگائے ہوئے ہے، جس کے پاس لفظوں کا اچھا خاصا ذخیرہ ہے، لیکن پریتی کے دکھ کا سامنا کرنے کے لئے کوئی لفظ ہمت نہیں کر رہا تھا۔
’’سر! مجھے جب پتہ چلا ناں کہ مجھ میں عورت کی روح ہے، تب ہی سے میرے گھر والے مجھ سے دور دور رہنے لگے تھے، ابا مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتے تھے، جیسے کوئی نقصان والی فصل کو دیکھتا ہے، میں اسکول پڑھنے گئی، تو وہاں بھی سب میرے پیچھے کھسرا، کھسرا کی آوازیں لگاتے تھے، ٹیچروں کا رویہ بھی بڑا عجیب تھا، کوئی کچھ زیادہ ہی ’’پیار‘‘ جتاتا اور کوئی مذاق اڑاتا۔ ایک ٹیچر نے مجھے اکیلے گھر آنے کے لئے کہا، میں نے انکار کر دیا تو ریاضی میں سارا پرچہ ٹھیک ٹھیک کرنے کے بعد بھی فیل ہوگئی۔ میرے پاس کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا، میں پھر گھر سے بھاگ گئی اور اب تک بھاگ رہی ہوں، لوگ ہمیں کھسرا سمجھ کر مفت مال سمجھتے ہیں، بلاتے فنکشن میں ہیں اور…‘‘ پریتی نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی ’’سر! ہم میں عورت کی روح ہوتی ہے، لیکن یہ روح ہم نے خود تو نہیں ڈالی ناں، سوہنے رب کے سوا کون بت میں روح ڈال سکتا ہے، پھر یہ کھسرا ہونا غلطی ہے تو یہ ہماری غلطی کیسے ہوگئی؟ کسی کو شکایت ہے تو جائے سوہنے رب سے بات کرے، ہماری زندگی کیوں مشکل میں ڈالتا ہے، ہم اسکول نہیں جا سکتے، ہم کوئی عزت کی نوکری نہیں کر سکتے، کوئی ہنر نہیں سیکھ سکتے، ہمارے پاس تالیاں اور ڈھول بجانے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں رہ جاتا‘‘۔
پریتی سچ کہہ رہی تھی۔ ہمارا معاشرا خواجہ سراؤں کو کبھی سیریس ہی نہیں لیتا، انہیں ایک تاریک گوشے میں دھکیل کر رکھتا ہے، جہاں سے تاریکی ہوتے ہی یہ بن سنور کر سڑکوں پر آکھڑے ہوتے ہیں یا کسی کی خوشی میں گھنگھرو باندھ کر پہنچ جاتے ہیں، اس کے سوا ہم نے انہیں کسی کام کے قابل ہی کب سمجھا ہے؟ معاشرے کے اسی رویئے کے سبب گھروں میں خون کا رشتہ رکھنے والوں کا رویہ بھی بدلا بدلا سا ہے۔ 2017ء کے مردم شماری میں پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد دس ہزار بتائی گئی ہے۔ اگر کسی حیل وحجت کے بغیر اسی تعداد کو درست مان لیا جائے تو یہ دس ہزار جیتے جاگتے انسان ہیں، کوئی کاٹھ کے بت نہیں۔ اس ملک اور اس کے وسائل پر ان کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کسی مرد یا عورت کا۔ سیلانی کو نہیں علم کہ تبدیلی کے نام پر آنے والی حکومت کی کسی ترجیح میں یہ دس ہزار انسان ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو یہ ان کے لئے کیا کرنا چاہتی ہے اور نہیں تو کیوں نہیں، لیکن ایک کام جس کے لئے ہمیں کسی حکومت کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، وہ اپنے انداز فکر میں تبدیلی ہے۔ ان دس ہزار انسانوں کو اپنے جیسا انسان سمجھنے کے لئے ایک روپیہ کی بھی ضرورت نہیں اور جب ہم یہ کرلیں گے تو ان خواجہ سراؤں کے ہاتھ سے ڈھول تاشوں کے علاوہ پیچ کس، پلاس اور اوزار بھی دکھائی دے سکیں گے۔ یہ بھی صرف دل بستگی کا سامان بن کر نہیں رہیں گے… سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے دکھی دل سے پریتی بلوچ کو خدا حافظ کہا اور فون بنچ پر رکھ کر پریتی جیسے انسانوں کو کسی امتیاز کے بغیر پارک میں چہل قدمی کرتے دیکھنے لگا، دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment