سی پیک اور خدشات

پرانے زمانے میں نجومی، علم فلکیات کے ماہر اور خوابوں کی تعبیر بتانے والے بادشاہوں کے دربار کا لازمی جزو ہوتے تھے، ان کی عزت و احترام وزیروں سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔ ان کی تعبیروں اور پیش گوئیوں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ کسی بادشاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ایک خواب آیا، جس کی تعبیر کے لئے دو ماہر بلائے گئے۔ خوابوں کی تعبیر بتانے والے پہلے ماہر نے بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حضور تعبیر بتانے سے قبل جان کی امان چاہتا ہوں۔ بادشاہ کو پتہ چل گیا کہ کوئی بری تعبیر ہے، اس لئے جان کی امان طلب کی گئی ہے، بہرحال اس نے امان دیدی، جس پر تعبیر بتانے والے نے کہا بادشاہ سلامت آپ کا سارا خاندان آپ کے سامنے اس دنیا سے چلا جائے گا، یہ تعبیر سن کر بادشاہ کو سخت غصہ آیا، لیکن چوں کہ جان کی امان دے چکا تھا، اس لئے خواب شناس کو قید کرنے کا حکم دیدیا۔ اس کے بعد دوسرے خواب شناس کو بلایا گیا، اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت خواب کی تعبیر میں آپ کے لئے بہت خوشی کی خبر ہے۔ پہلے خواب شناس کی تعبیر سن کر بادشاہ کے چہرے پر جو اضطراب پیدا ہوا تھا، وہ جاتا رہا اور بادشاہ کا چہرہ دمک اٹھا، اس نے خواب شناس کو اپنے پاس بلا لیا اور کہا کہ فوراً اسے تعبیر سنائی جائے۔ خواب شناس نے کہا کہ بادشاہ سلامت خواب کی تعبیر کی رو سے آپ کی زندگی خاندان میں سب سے زیادہ ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ بادشاہ خوشی سے جھوم اٹھا، خواب شناس سے کہا کہ وہ جو مانگنا چاہتا ہے، مانگے۔ اسے دیا جائے گا۔ خواب شناس علم رکھنے والا اور ہوشیار تھا، اس نے کہا کہ حضور میں اپنے لئے کچھ نہیں مانگتا، بس آپ نے مجھ سے پہلے آنے والے خواب شناس کو جو قید کرا دیا ہے، اسے معافی دیدیں۔ بادشاہ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس نے جو تعبیر بتائی تھی، اس کے بعد وہ اس سزا کے لائق تھا، جس پر خواب شناس نے جواب دیا، حضور جان کی امان پائوں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے بھی وہی تعبیر بتائی ہے، کیوں کہ ہم دونوں کا علم یہی کہتا ہے۔ بس میرے ساتھی نے تعبیر بتانے کے لئے اچھے الفاظ کا چنائو نہیں کیا، اس لئے آپ کے غضب کا شکار ہوا ہے، بادشاہ کو بھی فوراً احساس ہوگیا کہ واقعی دونوں کی تعبیر تو ایک جیسی ہے۔ اگر میں سارے خاندان سے زیادہ عمر پائوں گا تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ میرے گھر والے میرے سامنے اس دنیا سے چلے جائیں گے۔ جس پر اس خواب شناس کی سزا معاف کر دی گئی۔
سو قارئین اس بات کی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ کوئی بات آپ کس طرح اور کس وقت کر رہے ہیں۔ ایک ہی بات آپ کو انعام بھی دلاسکتی ہے اور آپ کے لئے خراب صورتحال کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ مشیر تجارت عبد الرزاق دائود نے گزشتہ دنوں برطانوی جریدے کو سی پیک کے حوالے سے انٹرویو دیا، جس پر ان کی بعد میں وضاحت بھی آگئی۔ سوائے سی پیک پر عمل ایک برس کے لئے روک دینے کے عبد الرزاق دائود نے جن خیالات کا اظہار کیا، سی پیک کے بارے میں اس طرح کی شکایات اور تحفظات اب پاکستان میں ایک بڑے طبقے خصوصاً صنعتی برادری میں پائے جاتے ہیں، لیکن عبد الرزاق دائود نے یہ بات کرنے کے لئے غلط وقت اور غلط الفاظ کا انتخاب کیا۔ فورم بھی مناسب نہیں چنا، یعنی وہ پہلے خواب شناس کی طرح بن گئے۔ وہ یہ بھول گئے کہ مغرب اور اس کا میڈیا تو پہلے ہی سی پیک کے خلاف ہے، ایک ایسے وقت میں جب چینی وزیر خارجہ تین روز کے طویل دورے پر پاکستان میں موجود تھے، اگر ان سے برطانوی جریدہ سی پیک پر بات چیت کررہا ہے، تو اس کے پیچھے کوئی مقصد ہوگا، ان کی کوشش ہوگی کہ کوئی بات ہو نہ ہو بتنگڑ بنا کر دونوں ملکوں اور سی پیک منصوبے کے ئے خرابی پیدا کی جاسکی۔ پھر وہ مشیر تجارت ہیں، حکومت کے ترجمان نہیں۔ اس طرح میڈیا پر رائے زنی کرنا ان کا کام نہیں، انہیں سی پیک پر جو تحفظات ہیں، وہ چینی وزیر خارجہ سے مذاکرات کے دوران ان کے سامنے رکھنے چاہئے تھے نہ کہ برطانوی جریدے کو انٹرویو دے کر۔ چین کے سامنے بھی ہمیں تحفظات ایسے الفاظ میں رکھنے چاہئیں، جیسے دوسرے خواب شناس نے بادشاہ کو تعبیر بتاتے ہوئے رکھے تھے، تاکہ ملکی مفادات کا تحفظ بھی ہو جائے اور پاک چین دوستی پر بھی کوئی حرف نہ آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین پاکستان کا سب سے آزمودہ دوست ہے، اپنی عالمی حیثیت بالخصوص سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی حیثیت سے وہ اہم فورمز پر ہمارا ساتھ دیتا ہے، کئی معاملات پر پاکستان کے لئے ویٹو کا استعمال کر چکا ہے۔ دفاع کے شعبے میں چین کا تعاون بے مثال ہے، ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا پاکستان کو سول ایٹمی ٹیکنالوجی دینے سے انکاری تھی، اس نے ہمیں یہ ٹیکنالوجی دی۔ اب وہ سی پیک کے ذریعے ہماری معاشی مدد کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے بھی کبھی کسی ملک کو چین پر ترجیح نہیں دی۔ ایک مغربی تھنک ٹینک نے کہا تھا کہ پاکستان کی چین کے لئے وہی اہمیت ہے، جو اسرائیل کی امریکہ کے لئے ہے۔ اگرچہ اس سے سو فیصد اتفاق نہیں کیا جاسکتا، مگر اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ چین کو پاکستان جیسا دوست پڑوسی ملک نہ ملا ہوتا، تو شاید وہ اتنی تیزی سے ترقی نہ کرپاتا، بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہتے ہیں، امریکہ بھارت کو اس کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کررہا ہے اور بھارت اس کھیل میں بخوشی حصہ لے رہا ہے، لیکن پاکستان نے امریکہ سے دوستی اور اربوں ڈالر کی امداد لینے کے باوجود کبھی چین کے مفادات کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا، حالاں کہ اگر بھارت کی طرح پاکستان امریکی کھیل کا حصہ بن جاتا تو چین کا مشرقی حصہ عدم استحکام کا شکار ہوجاتا، جس کی مسلم آبادی میں چین کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں، انہوں نے ایک تنظیم ترکستان اسلامک موومنٹ بھی بنا رکھی ہے، ان کے جنگجو افغانستان میں تربیت بھی حاصل کرنے آتے رہے ہیں، اگر پاکستان رکاوٹ نہ بنتا تو یہ تنظیم پورے چین کے لئے درد سر بن سکتی تھی۔ معاشی ترقی کے بجائے چین امن و امان کے مسائل میں الجھ جاتا، ایک طرف بھارت اسے پریشان کررہا ہوتا اور دوسری طرف علیحدگی پسند تنظیم۔ لیکن پاکستان نے چین کی سیکورٹی کو اپنی سیکورٹی سے بھی زیادہ عزیز رکھا اور اس سے ہر طرح کا تعاون کیا۔
اب آتے ہیں سی پیک پر تحریک انصاف حکومت کے تحفظات کی طرف۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین نے سی پیک کا منصوبہ اس وقت دیا، جب پاکستان میں انفرا اسٹرکچر بیٹھ رہا تھا اور امن و امان سمیت بعض دیگر مسائل کی وجہ سے کوئی ملک سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں تھا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے مغربی تھنک ٹینک کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے، اگر پاکستان کمزور ہوتا ہے تو چین بھی اس سے متاثر ہوتا ہے، پھر یہ دوستی کا تقاضا بھی تھا۔ اس کے علاوہ چین اس وقت سرمائے کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے، اس کے پاس سرمایہ بہت ہے اور اسے یہ کہیں نہ کہیں خرچ کرنا ہے، تاکہ اس میں مزید اضافہ ہوتا رہے، اس کی معیشت چلتی رہے، اس کے ڈیڑھ ارب لوگوں کو روزگار ملتا رہے، اس لئے چین پاکستان ہی نہیں بلکہ ایشیا اور افریقہ کے اکثر ممالک میں سی پیک جیسے منصوبے چلا رہا ہے، ابتدا میں ان منصوبوں کو ہر ملک میں خوش آمدید کہا گیا، لیکن اب دنیا کے مختلف حصوں سے چین کے ان منصوبوں کے بارے میں تحفظات بلکہ خوف بھی سامنے آنے لگا ہے، جس طرح سری لنکا کو پہلے قرضے دئیے گئے اور پھر ادائیگی میں اس کی ناکامی پر ہمبنگ ٹوٹا بندرگاہ چین نے سو برس کے لئے لیز پر حاصل کرلی ہے، جس طرح تاجکستان سے قرضے نہ ادا کرنے پر ایک ہزار مربع کلو میٹر رقبہ لے لیا گیا، جس سے چینی سرحد تین سو کلو میٹر بڑھ گئی اور اسے افغانستان تک سرحدیں رسائی بھی حاصل ہوگئیں۔ جس طرح ملائیشیا جیسے چھوٹے ملک کو 100 ارب ڈالر کے قرضوں تلے دبا دیا گیا ہے، ان سے دنیا اب چین کی سرمایہ کاری کے بارے میں چوکنا ہوگئی ہے۔ اس سرمایہ کاری کو اقتصادی غلامی کی نئی شکل سے تشبیہ دی جانے لگی ہے۔ ملائیشیا میں تو مہاتیر محمد جیسے رہنما نے حکومت سنبھالتے ہی چین سے کئی معاہدے اور منصوبے ختم کردئیے ہیں، وہ تو اس فکر میں مبتلا ہیں کہ ملک پر اتنا قرضہ جو چڑھا دیا گیا ہے، اسے کیسے اتاریں گے۔ ایسے میں چین سے دوستی اور قریبی تعلقات کے باوجود ہمیں بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment