یہ کون سخی ہیں؟

کشمیر کے سوشل میڈیا پر وہ تصویر وائرل ہو چکی ہے۔ وہ تصویر جس میں بھارتی فوجی کشمیر کے ایک شہید نوجوان کی لاش کو رسیوں سے باندھ کر گلیوں میں گھسیٹ رہے ہیں۔ بھارتی فوجیوں کا یہ عمل ان انسانوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار ہے، جو انسان اپنی وادیوں کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ جس طرح ان کے خوبصورت دیس میں ہوا آزاد ہے۔ جس طرح ان کے آسمان پر بادل آزاد ہیں۔ اسی طرح وہ بھی آزاد ہوں۔ وہ آزاد ہوں اپنے خیالوں اور خوابوں کی طرح!
اور خواب لافانی ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی اسلحہ ساز فیکٹری نے ایسی گولی ایجاد نہیں کی جو کسی خواب کا خون کر سکے۔ جو کسی سپنے کے سینے سے آرپار ہو جائے۔ انسانوں کو قید کیا جاسکتا ہے، مگر خوابوں کو نہیں۔ خوابوں کو زنجیروں سے جکڑنا ممکن نہیں ہے۔ خواب آزاد ہوتے ہیں۔ عام انسانوں کے ہی نہیں، بلکہ غلاموں کے خواب بھی آزاد ہوتے ہیں۔ وہ خواب جو نیند کی نیلی دیوار کو عبور کرکے نہ جانے کس گھڑی بند آنکھوں میں گھس جاتے ہیں۔ وہ خواب جو صرف سوتے ہوئے شخص کو دکھائی دیتے ہیں۔ وہ خواب جو روح میں روپوش رہتے ہیں۔ وہ خواب جو کبھی کبھار کھلی آنکھوں سے بھی جھانکتے ہیں، مگر ان کا پتہ کسی کو نہیں پڑتا۔ خواب بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ خواب انسان میں نیا انسان تخلیق کرتے ہیں۔ لوگ مر جاتے ہیں۔ لوگ دفن ہو جاتے ہیں۔ مگر خواب نہیں مرتے۔ خواب دفن نہیں ہوتے۔ خواب امر ہیں۔ خواب موت کی مات ہیں۔ خواب رات میں دن اور دن میں رات ہیں۔ خواب خوشبو بھی ہیں اور خواب بارود بھی!
خوابوںکی خوشبو اور خوابوں کا بارود ان کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں بھر گیا ہے جو اب آنسو نہیں بہاتے۔ ان نوجوانوں کی آنکھوں سے بھی نفرت کے وہ پتھر برستے ہیں، جو وہ ان بھارتی فوجیوں پر پھینکتے ہیں، جو بھارتی فوجی قانون کا اخلاق مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے ہمیشہ قانون کا قتل کیا ہے۔ جب وہ آدھی رات کو کشمیری گھروں کی چاردیواری کو پھلانگ کر داخل ہوتے تھے، چادروں میں لپٹی ہوئی کشمیری ماؤں اور بہنوں کو اغوا کرکے لے جاتے تھے اور ان کی عزت لوٹ کر انتقام کی آگ بجھاتے تھے۔ مگر جب ان پر ایسے الزامات لگتے تھے تب وہ ایسے جرائم سے انکار کرتے تھے، مگر اب ان کی بے شرمی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ وہ ہر دن کوئی نہ کوئی عجیب حرکت کرتے ہیں۔ کبھی وہ کشمیری نوجوانوں کے پتھروں سے بچنے کے لیے اپنی جیپ کے آگے کسی کشمیری کو رسیوں سے باندھ کر چلتے ہیں اور کبھی کسی شہید کشمیری نوجوان کی لاش کو بے حرمت کرتے ہوئے اسے رسیوں سے باندھ کر گلیوں میں کھینچتے ہیں۔
اور ایسی ذلیل حرکت پر صرف کشمیر کے لوگ ہی نہیں، بلکہ کشمیر کے گھر اور گلیاں بھی احتجاج کرتے ہیں۔ یہ احتجاج سوشل میڈیا کیمعرفت پوری دنیا میں پہنچ رہا ہے، مگر عالمی ضمیر اس بے دردی پر بیدار نہیں ہوتا۔ جدید دنیا صرف تصوارت کی دنیا نہیں ہے۔ جدید دنیا تصویروں کی دنیا بھی ہے۔ اس دنیا میں یہ تصویر انسانیت کی آنکھوں میں اگر غصہ نہیں لاتی تو کم از کم غم تو لائے۔ مغرب کے مفاد پرست ضمیر کو کچھ تو شرم آئے۔ امریکہ ذرا اس تصویر سے آنکھ تو ملائے اور پھر بتائے کہ جس بھارت کو وہ ایشیا میں اپنا عظیم اتحادی قرار دے رہا ہے اور جس اتحادی کے ساتھ وہ ہر دن ایک نیا معاہدہ کرنے میں مصروف ہے، اس کے اس اتحادی کا کشمیر میں کس قدر مکروہ کردار ہے۔
ایک وقت تھا جب ہم عالمی میڈیا کی وجہ سے مجبور تھے۔ یہ مرضی نیویارک ٹائمز کی تھی یا گارجین کی یا لاموندے اور لافگارو کی کہ وہ امریکہ اور یورپ کے
لوگوں کو کیا دکھائیں؟ اس وقت یورپ اور امریکہ کے عوام پر تنقید کرنے سے قبل کافی سوچنا پڑتا تھا، مگر اب تو میڈیا ہوا کی طرح آزاد ہو چکا ہے۔ اب سوشل یا عوامی میڈیا کی معرفت سچ کو دیکھنا، سننا اور پڑھنا نہ صرف ممکن بلکہ بہت آسان ہو چکا ہے۔ یہ امریکہ اور یورپ کے عوام کا فرض ہے کہ وہ آگے آئیں اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج کریں۔ آزاد دنیا کے انسان ظلم کو روک نہیں سکتے، مگر ٹوک تو سکتے ہیں۔ کشمیر کے نوجوانوں نے اس وقت چاروں محاذوں پر اپنے مضبوط مورچے قائم کیے ہیں۔ ایک مورچے پر وہ مزاحمت کرتے ہیں۔ وہ جو بھارتی ایجنسیوں سے بچنے کے لیے اپنے چہروں پر رومال کے نقاب ڈال کر ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر ایشیا کی بے شرم ترین فوج پر پھینکتے ہیں اور احتجاج کرنے کے بعد وہ اپنے لیپ ٹاپس اور موبائل فونز کے ذریعے اپنا احتجاج دنیا کے کونے کونے تک پہنچاتے ہیں۔ وہ نوجوان ہاتھوں میں کتابیں اٹھا صبح کو تعلیمی اداروں کی طرف جاتے ہیں۔ وہ نوجوان جو کشمیری کی بھیگی ہوئی شاموں میں محبت کا ایک منظر بھی بناتے ہیں۔ وہ ان چاروں محاذوں سے مکمل انصاف کرتے ہیں۔
کشمیر کے نوجوانوں نے ایک نئے کشمیر کی تخلیق کی ہے۔ ان نوجوانوں نے ایک ایسا نیا کشمیر بنایا ہے، جس نے مزاحمت کو اپنی مصروف زندگی کا اٹوٹ انگ بنا لیا ہے۔ وہ پڑھتے اور پیار کرتے ہوئے بھی لڑتے ہیں۔ ان کی لڑائی، ان کی مزاحمت، ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتی۔ وہ اگر محبت سے پڑھتے اور گہرائی میں پیار کرتے ہیں تو اس کا سبب ان کے اندر میں مزاحمت کا وہ جذبہ ہے، جو دن میں پھول کے مانند مہکتا ہے اور رات کو چراغ بن کر جلتا ہے۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ دنیا سمجھوتے کی سیاست میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ اس وقت افریقہ سے لے کر ایشیا تک قومی آزادی کی تحریکوں پر بے حد مشکل وقت ہے۔ بہت ساری قومی آزادی کی تحریکیں تو ایسی کشتیوں کی طرح ڈوب چکی ہیں، جن کا ایک تختہ بھی تیرتا نظر نہیں آتا اور آزادی کی کچھ تحریکیں بڑے مشکل حالات سے گزر رہی ہیں۔ اس وقت فلسطین جیسی عظیم اور نامور قومی آزادی کی تحریک بھی مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے۔ کردوں کی تحریک تو امریکہ کے آگے گھنٹے ٹیک چکی ہے۔ ایسی صورت حال میں کشمیر کی آزادی کی تحریک دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ اس تحریک کو کبھی پاکستان کی مدد بھی حاصل تھی، مگر ہمارے ملک کے بزدل حکمرانوں نے کشمیر جیسے عظیم آدرش سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس وقت لائن آف کنٹرول پر بہت سختی ہے۔ اگر ایل او سی کو چیونٹی بھی عبور کرتی ہے تو بلند پہاڑی جنگل سائرن سے گونجنے لگتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی مزاحمت سپلائی لائن کے بغیر جاری نہیں رہ سکتی۔ مگر کشمیر کے نوجوانوں نے اپنے اندر سے وہ آگ دریافت کی ہے، جس کو بھارتی فوج کا باردو نہیں بجھا سکتا۔ کشمیر کے نوجوانوں نے اپنے محدود وسائل سے ایک ایسی مزاحمت تیار کی ہے، جو قندیل کی طرح تیز ہوا میں بھی نہیں بجھتی۔ کشمیر کے نوجوانوں نے مزاحمت کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ وہ ایک مقبوضہ وادی میں نہ صرف بستے ہیں، بلکہ اس کو قبضے سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ بھارت نے سات لاکھ فوج کی معرفت پوری وادی کو محاصرے میں لے لیا ہے، مگر کشمیر کے نوجوان ایک طرف مزاحمت کرتے ہیں اور دوسری طرف سوشل میڈیا کو بھرپور طرح سے استعمال کرتے ہوئے لاکھوں فوجیوں کو گھیرے میں لاتے ہیں۔
آج سے کئی برس قبل ایک فلسطینی شاعر نے لکھا تھا:
’’انہوں نے ہماری سرزمیں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہےاور ہم جلاوطنی میں بیٹھ کر شاعری کرتے ہیںتاریخ فیصلہ کرے گی کہ کس نے کس کو گھیرے میں لیا؟‘‘
فلسطین کے لیے پوری دنیا کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ بہت سارے عرب ممالک انہیں عزت اور محبت سے اپنی سرزمین پیش کرتے تھے۔ ان کے لیے پوری دنیا میں اسکالرشپ کے مواقع تھے۔ سرد جنگ کے دوراں سوویت یونین ان کی کھل کر مدد کرتا تھا۔ عرب قوم پرستی کا ابھرتا ہوا شعور ان کے شانہ بہ شانہ چلتا رہا۔ اس کے مقابلے میں کشمیر کو کون سی مدد ملی؟ کشمیر کو تو کچھ نہیں ملا۔ کشمیر کو کسی دور میں پاکستان کی طرف سے تھوڑی بہت مدد ملتی تھی، مگر بھارت کی تیز ترین خارجہ پالیسی اور پروپیگنڈا کے طوفان نے رسد کا وہ راستہ بھی بند کر دیا۔ کشمیر کے بارے میں دنیا کے کسی بھی حکمران کی زباں پر حق کا کلمہ نہیں آتا۔ اب تو بل کلنٹن کی طرح کوئی امریکی صدر بھی یہ نہیں کہتا کہ ’’کشمیر سب سے زیادہ خطرناک مقام ہے‘‘ وہ خطرناک مقام دنیا میں خوبصورت بھی تو ہے۔ اس خوبصورت مقام پر خطرات بھی خوبصورت ہیں۔ امریکہ کے ہونٹ تو اپنے مفادات کی وجہ سے سلے ہوئے ہیں، مگر وہ یورپی ممالک کہاں ہیں، جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر قربان جاتے ہیں۔ وہ کشمیر کی طرف دیکھیں اور دیکھیں کہ خطرناک اور آٹومیٹک ہتھیاروں سے لیس فوجی نہتے عوام کو نہ صرف گولیوں سے بھون رہے ہیں، بلکہ ان کی لاشوں کو رسیوں سے باندھ کر گھسیٹ بھی رہے ہیں۔
بھارتی فوج کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ کشمیر کے نوجوان کو خوفزدہ کرے۔ اس لیے وہ آنسو گیس کے بجائے پیلٹ گن استعمال کرکے کشمیر میں احتجاج کرنے والوں کی بینائی چھین رہی ہے۔ وہ نہ صرف کشمیر کے نوجوانوں کو گرفتار کرکے انہیں گولیوں سے چھلنی کرتی ہے، بلکہ ان کی لاشوں کو گلیوں میں گھسیٹتی ہے۔ مگر کشمیر کے نوجوان ظلم و ستم کو طاقت و توانائی میں تبدیل کرنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں۔ وہ ہر آزمائش کا کوئی نہ کوئی حل نکال لاتے ہیں۔ وہ اس وقت دنیا پر ثابت کر رہے ہیں کہ جب پوری دنیا میں قومی آزادی کی تحریکیں کمزور پڑ جائیں۔ اس وقت کشمیر کی وادیوں میں آزادی کے نعرے گیتوں کی طرح گونجتے ہیں اور کشمیر کے نوجوان جب پوری قوت سے پکارتے ہیں ’’آزادی‘‘ تب ہوا میں اڑتے پرندے بھی رک کر یہ دیکھتے ہیں:
یہ کون سخی ہیںجن کے لہو کی اشرفیاںچھن چھن چھن چھنچھن چھن چھن چھندھرتی کے پیہم پیاسےکشکول میں گرتی جاتی ہیںکشکول کو بھرتی جاتی ہیں‘‘ ٭

٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment