محرم الحرام قمری تقویم کے حساب سے سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اسلامی عبادات کی بنیاد بھی قمری حساب پر رکھی گئی ہے۔ اس لئے قمری تقویم کو اسلامی کہا جاتا ہے۔ قمری سال کے بارہ مہینوں میں سے چار کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جنہیں اشہر حرم (حرمت والے مہینے) کہا جاتا ہے۔ محرم الحرام بھی ان میں شامل ہے۔ حرمت والے مہینوں کا احترام زمانہ جاہلیت جیسے تاریک دور میں بھی کیا جاتا تھا۔ عرب کے جاہل بدو بھی ان مہینوں کے احترام میں قتل و قتال سے باز رہتے تھے۔ ’’محرم‘‘ (احترام والا) نام بھی اس مہینے کو اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں معرکہ کارزار گرم کرنا سنگین جرم ہے۔ پھر محرم الحرام کی دسویں تاریخ یعنی یوم عاشور خصوصی فضائل کا حامل ہے۔ اسلام میں پہلے اس دن کا روزہ فرض تھا۔ بعد میں رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد یہ حکم تو منسوخ ہو گیا۔ تاہم اس نفلی روزے کی فضیلت و اہمیت اب بھی باقی ہے۔ رمضان المبارک کے بعد یوم عاشور کے روزے کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کے کئی اہم واقعات بھی اس مہینے میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ یکم محرم الحرام کو دوسرے خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کا سانحہ رونما ہوا تو دسویں محرم کو کربلا میں نواسۂ رسولؐ سیدنا حسین بن علیؓ کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ ان واقعات کی مناسبت سے محرم میں جلسے جلوس منعقد ہوتے ہیں۔ جس سے ہر سال ملک میں کہیں نہ کہیں ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے ہر ممکن اقدام کیا جاتا ہے۔ فوج کو ہائی الرٹ رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ ضرب غضب جیسے عسکری آپریشنوں کے بعد دہشت گرد کافی کمزور ہو چکے ہیں۔ تاہم پھر بھی ملک دشمن عناصر کی کارروائیوں کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے آپس میں مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دے کر فسادات برپا کرانا عالمی قوتوں کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ امریکی سرپرستی میں عراق سے شروع ہونے والا یہ تنازعہ باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر کے اب پورے مشرق وسطیٰ میں پھیل چکا ہے۔ شام میں حکومت کے خلاف جاری عوامی مزاحمت کو فرقہ وارانہ جنگ میں بدل دیا گیا۔ جس سے پورا ملک ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ لاکھوں افراد ہلاک و زخمی اور ایک کروڑ سے زائد در بدر ہو گئے۔ اس لئے موقع کی تاک میں بیٹھے دشمن کے عزائم کو ناکام بنانا ریاستی اداروں کے ساتھ عوام کا بھی فرض ہے۔ انہیں چاہئے کہ قدم قدم پر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں۔ محب وطن عوام کی ذمہ داری ہے کہ عام مہینوں سے بڑھ کر محرم میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی، یکجہتی، بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کی فضا کو قائم کریں۔ سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہمارے ازلی دشمنوں کا دیرینہ خواب ہے۔ وہ محرم الحرام میں تخریبی کارروائی کر کے اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ خدا کا شکر کہ وطن عزیز فرقہ وارانہ کشیدگی سے بچا ہوا ہے۔ دنیا کا یہ پہلا اسلامی ایٹمی ملک طاغوتی قوتوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔ اس لئے سب کو چوکنا رہنا ہوگا۔ ہم ان سطور میں بارہا ارباب اقتدار و اختیار سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ دیگر ممالک کی طرح مذہبی سرگرمیوں کو عبادت گاہوں تک محدود کیا جائے۔ تاکہ دشمن کو کھل کھیلنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ فرقہ واریت پھیلانے اور دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے عناصر کو قانون کی گرفت میں لا کر انہیں کڑی سزا دے تاکہ آگ بھڑکانے کے خواہشمندوں کیلئے عبرت ہو۔
بیگم کلثوم نواز- ایک عہد جو تمام ہوا
سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کا جسد خاکی جمعہ کو جاتی امرا میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ کلثوم نواز کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے، جنہوں نے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تین بار خاتون اول ہونے اور سیاست میں عملی کردار ادا کرنے کے باوجود وہ مشرقی اقدار پر سختی سے عمل پیرا باہمت خاتون تھیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ کلثوم نواز نے 1999ء سے 2002ء تک مسلم لیگ کی صدر بن کر پارٹی کو سنبھالا، جب شریف برادران کو آمر پرویز مشرف نے پابند سلاسل اور بعد ازاں ملک بدر کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے آمریت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ کلثوم نواز 1950ء کو لاہور میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئیں۔ 2 اپریل 1971ء کو وہ میاں محمد نواز شریف سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ ایک برس قبل گلے کے سرطان کی تشخیص ہونے کے بعد لندن کے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں ان کا علاج ہوتا رہا۔ اس دوران ان کی دو بار کامیاب سرجری ہوئی، لیکن رواں برس جون میں انہیں دل کا دورہ پڑا، جس کے بعد وہ وینٹی لیٹر پر چلی گئیں اور تین ماہ انتہائی نگہداشت کے باوجود رواں ماہ کی گیارہ تاریخ کو دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ لندن میں نماز جنازہ کے بعد جمعہ کو مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف میت لے کر وطن پہنچے۔ جسے نماز عصر کے بعد سپرد خاک کیا گیا۔ جنازہ معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے پڑھایا، جس میں مسلم لیگ کے رہنمائوں اور کارکنوں سمیت تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی، جو ایک قابل تعریف رجحان ہے۔ بلاشبہ اس وقت شریف خاندان ابتلا و آزمائش کی لپیٹ میں ہے۔ خود نواز شریف اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، جبکہ ان کے دونوں بیٹوں کو عدالت سے مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔ جبکہ ان کے سمدھی اسحاق ڈار بھی قانون کی گرفت سے بچنے کیلئے لندن میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس لئے حسن و حسین نواز ماں جیسی مقدس ہستی کی تدفین میں بھی شریک نہ ہو سکے۔ دکھ کی اس گھڑی میں سوگوار خاندن کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرنا چاہئے۔ رب تعالیٰ مرحومہ کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے۔ حکومت نے وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی کلثوم نواز کی آخری رسومات میں شرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ جبکہ تحریک انصاف کا وفد بھی گورنر پنجاب کی نمائندگی میں جنازے میں شریک ہوا۔ کیا ہی اچھا ہوتا وزیر اعظم عمران خان اور صدر پاکستان بھی جنازے میں شریک ہوتے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ۔ لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے، جو سنگ دلوں کو موم کر دیتی ہے۔ مسلم لیگ اور تحریک انصاف دونوں نے اس موقع پر سیاست کھیلنے سے اجتناب کر کے نہایت مستحسن اقدام کیا، جسے سراہنے اور اس رجحان کو مزید تقویت دینے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭