جناب عارف علوی نے مملکت خداداد پاکستان کے صدر کا حلف اٹھا لیا، وہ کپتان کے پرانے ساتھی ہیں۔ لیکن اب وہ تحریک انصاف کے نہیں، مملکت خداداد پاکستان کے صدر ہیں۔ انہیں پارٹی کے مفادات سے بلند ہو کر سوچنا ہوگا اور دوسرے لوگوں کو بھی ان کے بارے میں یہی انداز فکر اپنانا ہو گا۔ ان کا مقام و مرتبہ لامحدود اور ذمہ داریاں اور اختیار محدود ہیں۔ حکومت کے فیصلوں پر تائیدی دستخط ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ کسی فیصلے کو ازسرنو غور کرنے کے لیے واپس تو کر سکتے ہیں، مگر ازخود نہ تبدیل کر سکتے ہیں، نہ دوبارہ پیش ہونے پر دستخط سے انکار کر سکتے ہیں۔ یوں بھی وزیر اعظم کے پرانے ساتھی ہیں اور یقین ہے کہ فیصلوں میں ان کی مشاورت کو غیر ضروری نہیں سمجھا جائے گا۔ آئین کی رو سے صدر مملکت کا منصب ایک علامتی عہدہ ہے۔ پارلیمنٹ سے خطاب ایک روایت ہے، جسے پارلیمانی سال کے آغاز میں نبھایا جاتا ہے۔ صدر مملکت کی تقریر کیبنٹ ڈویژن سے ہوتی ہوئی ایوان صدر تک پہنچتی ہے۔ سبکدوش ہونے والے صدر مملکت محترم ممنون حسین کاروباری ہونے کے ساتھ ادبی ذوق رکھنے والی شخصیت تھے۔ سادگی و پرکاری کا نمونہ! صدر مملکت کا منصب سنبھالنے سے پہلے بھی ان کے ادبی اور صحافتی حلقوں میں خاصے مراسم تھے، جنہیں وہ مارگلہ کی پہاڑی پر قائم اونچی اٹاری پر قیام کے دوران نبھاتے رہے۔ ابھی منصب صدارت سنبھالے ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے کہ ایک صبح ایوان صدر سے فون موصول ہوا کہ صدر مملکت آپ کو طلب کرتے ہیں۔ حاضر ہوا تو وہاں محترم ضیاء الدین (ڈان کے سابق ایڈیٹر) اور ایک نوجوان کالم نگار ارشاد محمود موجود تھے، پھر یہ تعلق ان کے سبکدوش ہونے تک قائم رہا۔ اب وہ کراچی چلے گئے ہیں، جسے پاکستان کا معاشی دارالحکومت ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور خدا کے فضل سے وہاں امن و امان کی صورت حال بھی بہتر ہے اور سیاسی دہشت گردوں سے کراچی کو رہائی بھی مل چکی ہے۔ محترم رفیق تارڑ بھی شرافت، شائستگی اور دوست نوازی میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور اکثر اخبار نویسوں کو ملاقات کے لیے بلاتے رہے تھے، ملاقات کا ذریعہ برادرم عرفان صدیقی ہوتے تھے۔ یہ ملاقات اکثر صدر مملکت کے دفتر میں ہوتی تھی۔ ایک ملاقات میں فرمانے لگے: ’’میاں کبھی گھر پر آئو تو کھانے کا کچھ بہتر سامان ہو سکے، جہاں میں اپنی ذاتی تنخواہ سے من پسند کھانے تیار کراتا ہوں۔‘‘ محترم رفیق تارڑ صاحب کو پرویز مشرف کا برا زمانہ بھی دیکھنا پڑا۔ وہ مارشل لاء کے بعد عہدے سے مستعفی ہونے کا ارادہ رکھتے تھے، مگر سیاسی دوستوں کا مشورہ تھا کہ وہ اپنے منصب پر قائم رہیں۔ پھر دلی جانے کا مرحلہ آیا، بھارت میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت میں پرویز مشرف جانا نہیں چاہتے تھے، سو انہوں نے صدارت کا تحفہ بھی سینے پر سجانے کی خاطر محترم رفیق تارڑ کو فارغ کیا۔ اب کپتان عمران خان کا دور ہے، جو وطن عزیز کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم لے کر اقتدار میں آئے ہیں۔ ہر پاکستانی کی دعا ہے کہ انہیں اس راہ پر ثابت قدمی سے چلنے کی توفیق ملے کہ راستہ کٹھن ہے اور منزل دور! ہر پاکستانی اپنی ہر حکومت کی کامیابی کا متمنی ہوتا ہے۔ ووٹ وہ کسے دیتا ہے؟ کامیاب کون ہوتا ہے؟ یہ بحث انتخابی نتائج کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ انتخاب میں کامیابی اور حکومت بنانے کا مطلب دائمی فتح نہیں ہے۔ یہ پانچ برس کی محدود مدت کی ذمہ داری ہے، جس کے گزرنے کے بعد حکمراں سیاسی جماعت کو اپنے نامۂ اعمال کے ساتھ قوم کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں ووٹ کے ذریعے آنے والے صدور کا وقفہ کم ہے۔ یوں تو جناب ذوالفقار علی بھٹو بھی صدر رہے، مگر ان کا وقفہ صدارت کم تھا اور اس سے پہلے یہ انوکھا کام بھی ہوا کہ بھٹو صاحب سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر بھی رہے۔ وطن عزیز میں یہ بھی ہوا کہ آزادی ملنے کے 23 برس تک انتخابات نہیں ہوئے۔ ابتدا میں 46ء کے منتخب نمائندوں سے کام چلایا جاتا رہا اور جب 56ء میں دستور منظور ہوا اور اس کے تحت 58ء میں انتخاب ہونے تھے تو ایوب خان آگئے۔ 62ء تک یہ ملک سرزمین بے آئین رہا۔ 62ء کے دستور کے مطابق طے تھا کہ صدر اقتدار سے علیحدہ ہو تو معاملات اسپیکر کے سپرد ہوں گے، مگر ایسا نہ ہوا اور جنرل یحییٰ خان آگئے، پھر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ دل میں ایک یاد کہ نیزے کی اَنی ہو جیسے۔ حق تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ انتخابات ہو گئے، انتقال اقتدار بھی ہو گیا۔ محترم عارف علوی صدر منتخب ہو گئے، ایک کراچی والے گئے، دوسرے کراچی والے آگئے۔
محترمہ کلثوم نواز انتقال کر گئیں، خدا پاک انہیں اعلیٰ درجات عطا فرمائیں۔ وہ ایک نفیس، منکسر المزاج خاتون تھیں۔ یہ اور دکھ کی بات ہے کہ ان کے شوہر اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے جناب محمد نواز شریف ان کی باہمت صاحب زادی محترمہ مریم نواز اور داماد صفدر قید میں ہیں۔ یہ دوسرا موقع ہے جب شریف خاندان زیر عتاب ہے اور انہیں اپنے کسی معزز فرد کی میت میں شرکت کے لیے قانون سے اجازت لینا پڑی، یہی صورت میاں شریف مرحوم کے انتقال کے وقت تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب محمد نواز شریف وزیراعظم تھے تو غیر ملکی دورے پر اخبار نویس بھی ان کے ساتھ تھے۔ اخبار نویس ہوٹل سے روانہ ہونے لگے، گاڑیاں لگ چکی تھیں کہ محترمہ کلثوم نواز کہیں جانے کے لیے ہوٹل سے باہر آگئیں۔ سیکورٹی والوں نے اخبار نویسوں کی گاڑیاں ہٹانے کا حکم دیا، مگر محترمہ کلثوم نواز نے فرمایا کہ ’’نہیں پہلے اخبار نویس جائیں گے، پھر میں جائوں گی۔‘‘ محترمہ کلثوم نواز بہادروں کے قبیلے کی ایک جرأت مند خاتون تھیں۔ پرویز مشرف کے دور میں انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، تو انہوں نے گاڑی اندر سے بند کر لی، پھر دنیا نے دیکھا کہ گاڑی کو کرین کے ذریعے اٹھایا گیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب جب نواز شریف اقتدار میں آئے، محترمہ کلثوم پس منظر میں رہیں اور جب میاں صاحب زیرعتاب آئے تو کلثوم نواز ایک بہادر اور جرأت مند خاتون کی طرح میدان میں آگئیں۔ لندن میں ان کی علالت کے دوران ان کے صاحب زادے ان کے ساتھ تھے اور وہ اکثر استفسار کیا کرتیں کہ میاں صاحب اور مریم یہاں کیوں نہیں آتے۔ اس کے باوجود کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ اردو ادب سے ان کا شغف تھا، مگر انہوں نے اقتدار میں ہوتے ہوئے خود کو نمایاں نہیں کیا۔ میاں محمد نواز شریف پر یہ عذاب ہے یا کسی کردہ و ناکردہ عمل کی سزا۔ خدا سے دعا ہے کہ باری تعالیٰ انہیں اس سے نجات دے۔ زندگی اور موت اسی کے اختیار میں ہے۔ جو آیا ہے، اسے جانا بھی ہے، جب ہادی برحقؐ نہ رہے، کون رہے گا۔